پانی انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے، جس کے بغیر ایک دن گزارنا مشکل ہی نہی، نہ ممکن بھی ہے۔ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے۔ بڑہتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زراعت کو ترقی دینا اور اس کی آمدن کی درست تقسیم جہاں ضروری ہے، وہیں پانی کا درست استعمال بھی ماحول اور خود پانی کی صحیح کیمسٹری کو قائم رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔
تقسیم ہند سےپہلے پاکستان کے دریاؤں میں پانی کی مقدار منقسم ہندوستان سے زیادہ تھی۔ لیکن پاکستان اور ہندوستان جس طرح بنے تھے، نفرت اور شک کے جذبات کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی۔ پاکستان بنانے والی قیادت نے دانستہ یا نا دانستہ طور پہ تقسیم سے پہلے پانی کے مسٔلہ پہ کوئی بات نہیں کی تھی۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے ۱۹۶۰ء کے معاہدے کے بعد پانی کی جو تقسیم ہوئی، اس سے ہندوستان کے پانی کے وسائل میں اضافہ ہوا، جبکہ پاکستان کی حکومت اپنے حصے میں آنے والے تین بڑے دریاوں کے پانی کو پوری طرح سنبھال نہ سکی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
پاکستان کی حکومت کے ادارے اور مخصوص نظریات کے حامل سیاسی حلقے، عوام کو اس بات میں الجھائے رکھتے ہیں کہ ہمارے مسایٔل کی اصل وجہ ہندوستان ہے، لیکن یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ہماری سستی، کم علمی، اور ذاتی اغراض کے لیے اجتماعی مفاد کے لیے پلاننگ کی کمی ہی، ہمارے مسائل کی اصل وجہ ہے۔ دشمن تو ہمیشہ کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اور آج کل تو دوست بھی اپنے مفادات کے لیے پالیسیاں بناتے ہیں۔ ہمیں سیاست میں دوستی اور دشمنی کی سوچ کو بدل کر اپنے مفادات کے لیے پالیسیاں بنانا ہوں گی۔
اگر ہم پنجاب کے زرعی علاقوں، فیصل آباد، اوکاڑہ، ساہیوال اور باقی پنجاب کا دورہ کریں تو ہمیں پتہ چلے گا وہاں کے پانی میں موجود نمکیات کا تناسب پینے کے پانی سے کئی گنا بڑہ چکا ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں ٹیوب ویل کے ذریعے آبپاشی ہے۔ ٹیوب ویل کے ذریعے زمین سے جتنا پانی جس رفتار سے ہم اب نکال رہے ہیں، اس سے پہلے کبھی بھی انسانی تاریخ میں کسی نے نہیں نکالا۔ اس تیز رفتاری اور زیادہ مقدار میں پانی نکالنے سے یہ نقصان ہو رہا ہے کہ زیر زمین پانی کی حرکت بڑھ رہی ہے اور زیر زمین منرلز پانی میں زیادہ مقدار میں حل ہو رہی ہیں۔ پانی میں موجود نمکیات کی مقدار بڑھ جانے سے پانی پینے کے قابل نہیں رہا۔ پانی میں نمکیات کی صحت مند حد ۵۰۰ پی پی ایم ہے جبکہ آج کل اکژ علاقوں میں نمکیات ۱۰۰۰ پی پی ایم تک پہنچ چکے ہیں۔ ایک وقت آئے گا یہ پانی نہانے کے قابل بھی نہیں رہے گا۔ آج کل ہم پینے کے لیے تو پانی خرید ہی رہے ہیں، کل کو نہانے، دھونے اور پکانے کے لیے بھی خریدنا پڑے گا۔ یہ لمحہ ہمارے لیے قابل فکر ہے، ہم مل کر اپنے پانی کا تحفظ کرنا چاہیے اور اس کے لیے ایک متفقہ اجتماعی پالیسی بنانی چاہیے۔
تقسیم سے پہلے کی آبی گزرگاہیں ختم ہونے کے بعد ہم نے مشرف دور میں نہریں بھی پکی کر دیں، جس سے رہی سہی کسر بھی نکل گئی۔ نہریں پکی کرنے سے جہاں پانی کھیتوں تک پہنچنے میں بہتری تو آئی، لیکن زیر زمین پانی کے کنووں کی بھرائی ختم ہوگئی، جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کا لیول بھی کم ہو رہا ہے۔ جب ایک علاقے کے پانی کا لیول کم ہوتا ہے تو اس کو بھرنے کے لیے قریبی علاقے کا زیر زمین پانی حرکت کرتا ہے اور اس پراسس کے دوران زیادہ نمکیات پانی میں حل ہوتے ہے۔
پانی میں نمکیات کے بڑہنے کی ایک اور وجہ انڈسڑی کا فاضل پانی بھی ہے۔ فیصل آباد اور اس کے ملحقہ علاقوں کے پانی میں نمکیات اس وقت سے زیادہ ہیں، جب ٹیوب ویل سے آبپاشی کم ہوتی تھی۔ انڈسری کا فضلہ ان علاقوں کو زیادہ متاثر کرتا ہے جہاں پانی سطح زمین کے قریب ہوتا ہے۔
جہاں ہم زراعت کے بغیر پاکستان کو نہیں چلا سکتے، وہیں زراعت پانی کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اگر ہم نے زراعت کرنے کے لیے نہری پانی استعمال نہ کیا تو اس سے زیر زمین پانی میں نمکیات کا لیول اور بڑھ جانے کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے ہماری صحت، روزمرہ زندگی، حاضمہ اور بجٹ متاثر ہوگا۔ ٹیوب ویل چلانے کے لیے ہمیں زیادہ تیل درآمد کرنا پڑے گا اور ٹیوب ویل سے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بھی پیدا ہوگی، جو ماحول کےلیے اچھی نہیں ہے۔ ٹیوب ویل کے استعمال سے زراعی اجناس کی مقامی قیمتوں میں اضافہ ہوگا اور بین الاقوامی طور پہ ہماری زراعی اجناس باقی ممالک سے مہنگی ہو جائیں گی۔ نہری پانی کے استعمال سے زیر زمین پانی کے کنویں بھرتے رہے گے اور پانی کی کیمسڑی ٹھیک رہے گی جس سے پانی پینے کے قابل رہے گا۔ ہمارے زراعت کی اجناس سستی پیدا ہوں گی اور کسان کی آمدن میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان اور ہندوستان کو ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ کر چلنا ہوگا، پاکستان اور ہندوستان کو سمجھنا چاہیے کہ ہماری تقسیم سطح کے اوپر ہے۔ سطح زمین کے نیچے ہمارا پانی اور سطح کے اوپر ہماری ہوا جڑی ہوئی ہے۔ اگر پاکستان کے زیر زمین پانی کا لیول کم ہوتا ہے تو بارڈر کے پار زیر زمین پانی اپنا لیول برقرار رکھنے کے لیے حرکت کرے گا، جس سے انڈیا کے پانی کے نمکیات میں بھی اضافہ ہوگا اور ہمارےلیے بھی نقصان دہ ہے۔ برصغیر صرف سماجی طور پہ ایک جیسہ خطہ نہیں، بلکہ جغرافیائی طور پہ بھی جڑا ہوا ہے، اور ہمیشہ ایک دوسرے کو متاثر کرتا رہے گا۔ اس لیے ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیں اور اپنے اجتماعی مسائل کو حل کرنے کے لیے نیک نیتی، اور ایک دوسرے کی نیت پہ شک کیے بغیر مدد کرنی چاہیے۔ پاکستانی لوگوں کو پانی کے خطرے کو بھانپ لینا چاہے ورنہ کل (ماضی) کی طرح آج بھی نہ سوچتے رہنا۔