نہتے بے گناہ عوامی لیڈروں اور عوام کا قتل عام ہی کا انتخاب کیوں کیا جارہا ہے ؟ اگر دہشتگردی کے خلاف جنگ وردی لڑرہی اور وہی انکے خلاف بھرپور عسکری حوالے سے مسلح و مستعد بھی ہیں، تب دشن جوابی حملے وردی پر کرکے وردی کے خلاف کیوں نہیں لڑتے ؟ دشمن کی یہ چال سمجھنے لائق ہے۔ چونکہ وردی پر حملہ کرنے سے عوام براہ راست متاثر نہیں ہوتے اور نا ہی ان کو نقصان و تکلیف پہنچتی ہے اسی لیے عوامی ردعمل و غم غصے کا اظہار کم اور معمولی نوعیت کا ہوتا ہے۔ یہاں دہشتگردی کے خلاف جنگ کی ابتدا میں سکیورٹی فورسز کو ہی نشانہ بنایا جاتا رہا انہی کے گاڑی، چیک پوسٹ، ٹریننگ سنٹرز، افسران جوانوں پر حلمے ہوتے رہے اور ان حملوں کی خبروں سے فوج پولیس اور وردی سے عوام کی ہمدردی و محبت میں اضافہ ہوتا تھا جس سے ہماری فورسز کو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مزید عوامی اعتماد و سپورٹ حاصل ہوتی تھی، لیکن جب دشمن نے وردی کے ساتھ ساتھ عوامی مقامات بازار، مساجد، سکولوں اور عوامی رہنماٶں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو عوامی ردعمل میں دہشتگردوں کے خلاف غم و غصہ اور نفرت میں مزید اضافہ ہوتاگیا اور رائے عامہ میں وردی کو مورلی سپورٹ ملتی رہی جس کی وجہ سے عالمی بدمعاش امریکہ کے اشاروں پر چلنے والے دہشتگردوں کے عزائم ناکام ہوتے رہے اور شدت پسندی دن بدن کمزور ہوتی رہی۔ لیکن اب کچھ عرصہ سے عالمی دہشتگرد قوتوں نے ہماری پختون پٹی میں قومیت و لسانیت کے ہتیار کو طریقہ واردات بنانے کی مذموم کوشش یہ کی کہ کسی طرح وردی پر سے اعتماد و بھروسہ ختم کیا جائے اور وردی کو مشکوک بنایا جائے، لہٰذا فوج کے چند ایسی حکمت عملیاں اور اس سے پیدا کچھ مقامی نتائج کو بنیاد بناکر پُختون دشنی سے تعبیر کیا گیا، چونکہ ہمارے خلاف ایک عالمی سامراجی خونخوار جھگڑالو درندہ یعنی امریکہ لڑ رہا ہے اسی لیے جس انداز سے وہ ہمارے خلاف مختلف قسم کے عوامی سمجھ سے بالاتر سازشیں تیار کرتا رہتا ہے اس کےجواب میں ہماری فورسز کو بھی اس میدان میں ان ہی کے انداز میں مُقابلہ کرنے کےلیے مختلف سازشیں کرنا پڑتی ہیں، جس کی عام عوام کو یقیناً سمجھ نہیں آتی، موجودہ دور کی سازشی جنگیں ہوتی ہی ایسی ہیں جن کی عام ذہن کو سمجھ نہ آئے، مزید یہ کہ اتنی بڑی جنگ میں غلطیوں کا قوی امکان و احتمال موجود رہتا ہے۔ اب ان چیزوں سے پیدا شدہ مسائل کو بنیاد بناکر لسانیت کے نام پر صرف پُختون قتل عام ہونے کی بات کو عام کروایا گیا اور اس نعرے کو پذیرائی بھی امریکی و برطانوی میڈیا بی بی سی، سی این این، وائس آف امریکہ وغیرہ سے ملی بلکہ خود یورپ و امریکہ کی سڑکوں پر منظور پشتینی ٹوپی مہیا کرکے اپنی نگرانی میں احتجاج ریکارڈ کرائے گئے، حالانکہ تاریخ شاہد ہے کہ امریکہ و برطانیہ ہی پُختون خطے میں تباہی و بربادی اور قتل عام کے اصل ذمہ دار ہیں انہوں نے ہی اپنے مفادات اور خطے پر قبضہ کی خاطر پہلے روس کے خلاف جنگ پھر طالبان کی پیداوار اور انسداد کے طویل دورانیہ کی بارودی جنگ اس پُختون پٹی پر نازل کی، لیکن چونکہ ہماری موجودہ فوجی پالیسیوں نے پورے خطے پر قبضہ و کنٹرول کی عالمی سامراجی سازش پوری طرح کامیاب نہیں ہونے دی لہٰذا اب وہ ہماری اس وردی کو مشکوک بنانے کی مذموم کوشش کرہا ہے۔ اس لیے اب کے بار جو دشمن نے وردی کے بجائے پُختون قوم پرست ہارون بلور کو نشانہ بنایا، اور پھر موقع پر وہاں موجود کچھ جذباتی ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں جائے سانحہ پر اور بے لگام فیسبک پر وردی کے خلاف وہی نفرت انگیز سازشی نعرے لگوائے، جس سے اسی سازش کی بو آرہی ہے جو پُختون کو اب کے بار پُختون ازم کے نام پر اٹھا کر اپنے عالمی سازش کی تکمیل کےلیے ایندھن کے طور استعمال کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ مگر شاباش ہے ہارون بلور شہید کے فرزند دانیال بلور کو کہ جس نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں باپ دادا جیسے مقدس رشتے اور عظیم سائے کھونے کے باوجود اس جنگ میں فوج اور وردی کے شانہ بشانہ لڑتے رہنے کے عزم و استقامت کا اظہار کرکے سازشی عناصر کو ناکام بناکر دہشتگردی کے خلاف جنگ کو ایک اعتماد بخشا۔