ہمار ےمعاشرے کا ہر نوجوان جونہی جوانی کی سیڑھی پہ قدم رکھتا ہے تو شب وروز یونیورسٹی جانیکے خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔بہت بے تابی سے وہ انٹر پاس کرتا ہے اور فورا نتائج کے آتے ہی یونیورسٹی کے خواب کو پورا کرنے کے لیے رحتِ سفر باندھ لیتا ہے ماڈرن تعلیم حاصل کے شوق میں نہ جانے والدین کے کتنے سالوں کی محنت اپنے خواب کو پورے کرنے پہ خرچ کروا دیتا ہے۔ایک گروہ تو تعلیم کی غرض و غایت سے بے نیاز ہوکر فقط آزادنہ ماحول کے حصول کے لیے ہی یونیورسٹی کی زندگی میں قدم رکھتا ہے والدین بے چارے بھی معاشرے کے رسم و رواج کے پابند ہوتے ہیں اور بڑھ چڑھ کے اپنے بچوں کے یونیورسٹی جانے کے تذکروں کو بیان کرتے پھرتے ہیں۔
آخر یہ یونیورسٹی کیا ہے ؟
ایک عظیم درسگاہ یا ہماری مجرم۔۔۔۔۔۔۔
جانتے ہوئے علم کی بناء پہ انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیاگیا اور یہ اشرف المخلوقات بنانے کا اڈا انسانیت کا قتلِ عام کرتا جارہا ہے۔علم سیکھانے کی سر زمین دلوں کی سرزمین کو معطر کرنے کی بجائے غلیظ کرتی جارہی ہے۔وہاں پہ قدم رکھنے والی عورت ہو یا مرد حوص کا پوجاری کیوں بن جاتا ہے۔عورت کھلونا کیوں بنتی جارہی ہے ؟مرد و زن شرابی کیوں بنتے جارہے ہیں ؟ الفاظ اس دردناک کہانی کو بیان کرنے سے قاصر ہیں جو کہانی آج ہماری اسلامی ملک کی یونیورسٹیز کا مقدر بن چکی ہے۔ کہیں عورت اپنی عزت پیسوں کے عوض بیچ رہی ہے کہیں مرد عورت کی عزت کو نیلام کرنے اور اسکے وجود کو اپنی حوص کا شکار بنانے کے لیے ہزاروں و لاکھوں روپے اڑا رہا ہے۔عورت برہنہ ہوچکی ہے بکنے کے لیے بازار میں خود کو سجا لیتی ہے۔لغو گفتگو، زناکاری ، غیر محرم سے چھپی دوستیاں ، دھوکہ ، فریب ،جسم کیپو جاری ، سر بازار جسم کی نیلامی،طوائف آخر کونسی ایسی برائی رہ گئی جو زمانہ جاہلیت میں تھی تو اب نہ ہو۔ جھوٹی محبت کے دعویدار ایک رات کیپیاس و حوص پوری کر کے چھوڑ جانے والے مردوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہیں اور بے وقوف عورت ایک مرد کے ہاتھوں چکنا چور ہو جانے کے باوجود پھر بکنے کے لیے سرِ بازار سج جاتی ہے۔دل کانپ جاتا ہے روح چیخ اٹھتی ہے آخر میں یہ کہانی کیسے بیان کروں؟شریف گھرانے کی معصوم بیٹیاں ساری عمر ناز و نخرے سے پلنے والی روئی کے گالوں کی طرح بکھر رہی ہیں۔پھر کوئی آتا ہے جو ان گالوں کو اکٹھا کر کے جوڑتا ہے امیدیں دلاتا ہے خواب دیکھتا ہے خدا کی قسم وہ ایک رات کی حوص کے لیے صرف ایک رات کی حوص کے لیے اسے اپنے خواب کی مالکہ کا لقب دیکر آخر وہ رات پا لیتا ہے وہ پھر نئی صبح اسے دوبارہ روئی کے گالوں کی طرح کو بکھیر کر اڑا دیتا ہیاور اپنے سفر پہ روانہ ہوجاتا ہے۔
لاڈوں میں پلا ہوا اپنے خاندان کا چشمِ چراغ بیٹا جب کبھی سچی محبت کا شکار ہو بھی جائے تو اپنی محبت کو کسی کے ہاتھوں میں کھیلتا ہوا دیکھ کر ٹوٹ جاتا ہے جب اذیت برادشت نہ ہو تو تکلیف کم کرنے کے لیے سمگلنک،شراب اور ڈرگ کی جانب قدم بڑھاتا ہے اور اپنی ساری زندگی تباہ و برباد کر دیتا ہے اور جو ان چیزوں میں ملوث نہ ہو اسے دیہاتی پینڈو کہہ کر پکارا جاتا ہے۔گرل فرینڈ اور بوائیفرینڈ کارواج عام ہے جس نبی نے ایک غیر محرم عورت و مرد کی تنہائی کو حرام قرار دیا آج اسی نبی کے امتی اسی نبی کے محب اسکی قائم کردو حدوں کو حقارت سے دیکھ کر حد سے گزرتے جارہیہیں۔عورت جس کو صرف ایک خاوند صرف ایک مرد کے ساتھ نکاح کرکے رہنے کا حکم دیا ، عورت جس کو اسلام نے جاہلیت کے نیلامی کے بازار سے چھٹکار دلواکر عزت دلائی آج وہی عورت ناجائز طریقے سے دس دس مردوں کا سہارا بن کر رہنا پسند کررہی ہے۔مرد جس کو نکاح کرکے چار عورتوں پہ حاکم بننے اور اپنی شہوت پوری کرنے کی اجازت دی گئی آج وہی مرد اپنی شہوت پوری کرنے کے لیے ہر نئی لڑکی کو کبھی بلیک میل کرکے کبھی پیسوں کے لالچ سے اپنی حوص کا شکار بنا رہا ہے۔مجھے اتنہائی افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ استاد کا رتبہ پانے والا عظیم انسان بھی شاگردوں کو نشانہ بنانے میں مگن نظر آرہا ہے۔
آخر کیسا تماشا کیسی قیامت برپا ہے ؟ میں اس درسگاہ کو کیا نام دوں ؟ جو معصومیت کو چیخ کر گہرے کرب کا شکار بنانے کی آماج گاہ بن چکی ہے۔والدین کے خوابوں کو توڑ کر انکی اکلوتی اولاد کو سمگللر ،شرابی اور زانی بنا رہی ہے۔کیا مقصد حیات صرف شہوت کو پورا کرنا ہی ہے ؟ کیا دنیا میں ہمیں اپنی حوص کو پورا کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ہم غلاظت کا ڈھیڑ ہو چکے ہیں۔شرافت کی چادر اْوڑ کر اپنے والدین کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔قصوروار یہ درسگاہ نہیں قصوروار اس میں بسنے والے باشندے ہیں قصوروار خاموش تماشائی ہیں۔جہاں اخلاق سیکھایا جارہا ہے وہی پہ سب سے زیادہ اخلاق بگڑ رہاہے۔
خدارا خدارا خدارا ایک بار اس گرداب سے باہر ہاتھ نکالیں سوچیں تو سہی کہ ہم کس قدر پڑھے لکھے جاہل بن چکے ہیں کس قدر انسانیت کے دائرہ کار کو توڑ کر حیوانیت کا روپ دھارے ہوئے ہیں سچے مسلمان نہیں تو انسایت کے ناطے ہی سوچیں۔اس درسگاہ کو ناپاکی سے نجات دلائے ہر کوئی یہی سوچے گا کہ میرے گناہ رک جانے سے کونسا یہ پاک ہوجائے گی۔لیکن آپ اپنا حق ادا کریں اسکی پاکیزگی کے لیے اپنی کوشش تو کریں اپنے رب کے آگے جوابدہ ہونا ہے۔کس منہ سے ہم اسکا سامنا کرے گے کس قدر اسکے احکام سے روگردانی کررہے ہیں۔ ایک بار اپنے والدین کے بارے میں سوچیں اور پھر سوچیں اگر آپ کی اولاد ایسے کاموں میں ملوث ہوگئی تو آپ پہ کیا گزریں گی۔میری بہت زیادہ گزارش اپنی بہنوں سے اللہ کا واسطہ ہے اپنی حفاظت کیجئے اپنے آپ کو برہنہ ڈش نہ بنائیں ہر کوئی آپ کو چکھے گا ہر بار چکھنے پہ آپکی روح ایک کرب سے گزرے گی اور ایک دن کوئی حوص کا اندھا شخص آپکو پورا کھا جائے گا پھر پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں رہے گا نہ آپ کا نام ہوگا نہ آپ کی عزت ہوگی نہ والدین نہ رشتہ دار نہ آپکا وجود ہوگا کہ جو کسی کو نظر آسکے صرف پچھتاوا اور آپ کے آنسو ہونگے۔اس لیے سنبھل جائیں اگر ایسی برائیوں میں ملوث ہیں تو نکلنے کی کوشش کریں۔مشکل ہوگا لیکن زندگی آسان ہوجائے گی۔راہ راست مل جائے گی۔دین ِاسلام نے آپ کو عزت اور گرد سے بچنے کے لیے ایک خوبصورت غلاف سے نوازا ہے اسکی کو اتار کر نہ پھینکیں اسکو اوڑ لیں اپنے جسم کی، اپنی روح کی، اپنے افکار کی ،اپنے اعمال کی اور اہل و عیال کی حفاظت کیجئے۔خدارا حفاظت کیجئے۔خدارا حفاظت کیجئے۔
پاک قوم کے نوجواں اور اقبال کے شاہینوں سے گزارش ہے کہ اس درسگاہ کو علم کا اڈا بنائیں ناکہ حوص کا۔۔۔ یونیورسٹی میں علم کی پیاس بجھائیں۔شہوت کی پیاس بجھانے کے لیے نکاح کا رخ کریں اور اس خوبصورت رشتے کو نبھائیں۔عورت کو عزت دیجئے۔اگر آپ چھپ کے کسی عورت کو نشانہ بنارہے ہیں تو یاد رکھیں آپکی بہن بھی نشانہ بن رہی ہے۔پاک بنیں۔درسگاہ کو پاک بنائیں آپ پاک ہیں تو درسگاہ پاک ہیں پورا معاشرہ پاک ہیں۔توبہ کیجئے اور اپنے آپ کو پاک بنائیں۔’’بے شک اللہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ لوگوں کو پسند فرماتا ہے ‘‘۔
اگر ہم پاک ہیں تو ہی ہمارا ستان بھی پاکستان ہے۔۔۔۔۔۔