میرے مطابق دشمن کی سادہ سی تعریف یہ ہوتی ہے کہ وہ طاقتیں جن کے مفادات اور نظریات آپ کے مفادات اور نظریات سے مختلف ہوں، اور وہ قیادت کے حصول کے لیے آپ کے معاشرتی ڈنھانچے، معاشیات، اور سیاسی طاقت کو کچلنے کے لیے اپنا پروگرام اور تنطیم رکھتے ہوں، دشمن کہلاتے ہیں۔ اس وقت اس سیاسی خطے جس کو پاکستان کہتے ہیں، کے مفادات کے برعکس جن طاقتوں کے مفادات ہیں، ان میں خطے (بھارت) اور دنیا کے باقی ممالک (امریکہ یا اسرائیل) بھی شامل ہیں۔ چونکہ یہ دنیا دو چہرے رکھتی ہے، ایک چہرہ محبت اور ہمدردی کا اور دوسرا چہرہ (تخریب کاری) عوام کو نظر نہیں آنے دیتی ہے۔ پاکستانی سماج مزاج میں طبقاتی سماج ہے، برہمن اور میکاولی معاشرے کی ہی ایک شکل ہے، جہاں چڑہتے سورج کی پوجا کرنا کوئی برا نہیں سمجھا جاتا۔ کہنے کو مسلمان لیکن سرمایہ کی پوجا اور اس کا ڈر روح تک گھسا ہوا ہے۔ اس سماج میں لوگوں کی رائے اپنے مشاہدات، سوچ، اور نظریات کی بجائے میڈیا یا ذاتی مفادات کے مرہون منت ہوتی ہے۔ ایسا سماج مسائل انفرادی سطح پہ حل کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے سماج میں بدامنی، بےشعوری، غربت اور غلاظت کو بھی انفرادی سطح پہ حل کرنے کی کوشش اور جدوجہد کی جاتی ہے، اور اس کی تبلیغ کرنے والے گلی گلی کی نکر پہ آستانے کھول کے بیٹھے ہیں۔
پاکستان ایک ایسا بدقسمت خطہ ہے جس کے اندر قیادت اور سیاسی جماعتوں کے تانے بانے ہمیشہ باہر سے بنے جاتے ہیں۔ کمیونزم کے نظریات ہوں یا اس کے اینٹی نظریات والی جماعتیں سب بیرونی وسائل سے تنطیمی طاقت حاصل کر کے آگے بڑہتی رہی ہیں۔ راتوں رات مختلف کردار میڈیا کے ذریعےلیڈر اور ہیرو بن جاتے ہیں۔ ایسے کردار جن کا سیاست اور معاشرے کی خدمت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، نہ ہی ان کا کوئی تاریخی کردار ہوتا ہے، ایسے لوگ ہمارے سروں پہ مسلط کر دیے جاتے ہیں اور ہم ان کو بغیر سوچے سمجھے اپنا رہبر مان لیے ہیں۔ دوسری اقسام کی وہ جماعتیں ہیں جو ایک تسلسل تو رکھتی ہیں، لیکن لیڈر وقت کے ساتھ ساتھ اپنا نظریہ بدل لیتے ہیں۔ بات تو وطن، معاشرے، اور مذہب کی محبت کی کرتے ہیں، لیکن جلد ہی اپنے نظریات کا گلا گھونٹ دیتی ہیں، پھر پیسہ اور اقتدار ان کی منزل بن جاتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کےپھلنے پھولنے میں رکاوٹ صرف فوج کی نہیں تھی، بلکہ ان کے اپنے محدود نظریات، محدود مذہبی سوچ، اور ذاتی و گروہی معاشی اہداف تھے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ وہ قیادت کو اپنے خاندان سے باہر نکلنے کو جماعت کی موت سمجھتی ہیں۔ جب سیاسی جماعتوں کو موقع ملا انہوں نے عوامی و ملکی مفادات کے لیے اتنا اچھا پرفارم نہیں کیا، جتنا فوجی حکمرانوں کے ادوار میں ہوا۔ سیاسی جماعتیں بیک وقت اداروں کے خلاف اور حمایت میں نظر آتی ہیں۔ پاکستانی سیاسی جماعتیں کسی سوچ اور نظریہ کی پابند نہیں اور نہ ہی خود کو کسی اخلاقی نظام کے طابع سمجھتی ہیں۔ ہمارے کمزور طبقات آئے روز سیاست دانوں کے ڈیروں اور تھانوں میں ذلیل ہوتے ہیں۔
یہ سب باتیں تو بہت سے لوگ کرتے ہیں، لیکن اب نیا کیا ہے؟
نیا یہ ہے کہ پاکستان کی فوج اپنے ریٹارئرڈ اور حاضر سروس جرنیلوں کی عیاشی، اپنے ماضی کے نوآبدیاتی کردار کے باوجود ملک کی واحد تنظیم ہے جو ملک کی یکجہتی کی علامت ہے۔ فوج جو ماضی میں مغرب کے مفادات کے حصول کا ایک آلہ کار تھی، کئی سالوں سے پاکستانی مفادات کی بات کرتی ہے۔ اگرچہ فوج کسی نئے نظریے پہ پاکستان کی تشکیل تو نہیں کر رہی لیکن کم از کم موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ملک کے مفادات کی بات کرتی ہے۔ فوج کے اندر کسی ایک خاندان کی اجارہ داری بھی نہیں ہے۔ فوج کے جرنیل سہولیات تو رکھتے ہیں لیکن امیر ترین لوگوں میں ان میں شائد کوئی بھی نہی ہے۔ ریٹائرڈ جرنیل اور فوج میں ایک فرق ہے۔ ریٹائرڈ جرنیل کا تو ضرور احتساب ہونا چاہیے اور اس کے سماج میں کردار پہ بحث کرنے میں بھی کوئی ہرج نہیں ہے۔ ریٹائرڈ جرنیل کے احتساب کے نام پہ فوج کے ادارے کو توڑنا کی بات کرنے والے کیسے پاکستانی مفادات کے امین ہو سکتے ہیں؟ کیونکہ میری رائے کے مطابق فوج گئی تو پاکستان بھی جائے گا۔ پاکستان جانے کا مطلب اس خطہ کو ایک نئے تباہی کی طرف لے جانا ہے۔ پاکستان کو تعمیری انداز سے تبدیل ہونا چاہیے، ورنہ تخریبی انداز سے جو ملک ٹوٹے ہیں، وہاں دوبارہ نئے سماج کی تعمیر بہت مشکل ہو جاتی ہے۔
مہابھارت والی طاقیتیں کشمیر کا جواب بلوچستان میں دینا چاہتی ہیں۔ مسلمانوں کو گھرواپسی کے نعرہ یا دھمکی کی آواز سنائی نہیں دے رہی کیا؟ آر ایس ایس سب ہندوستانیوں (پاکستان و بنگال) کا باپ ایک ہی ہے کے نظریہ پہ یقین رکھتی ہے اور سب کو ہندو بنانے پہ یقین رکھتی ہے۔ پاکستان کے کئی حکمران اور آر ایس ایس کے دوست مشرکہ ہیں اور کاروبار بھی سانجھے ہیں۔ مغرب بالخصوص موجودہ سامراج امریکہ کسی بھی قیمت پہ ایشیاء کو بین الاقوامی سطح پہ مضبوط ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ تخریبی نظریہ ہی استعمال کرے گا۔ مسلمانوں کی جہالت اور معاشی بدحالی کو استعمال کرکے وہ پہلے ہی اسلام کو بدنام کرچکا ہے اور کئی ملکوں کو تاراج کر چکا ہے۔ پاکستان کو تاراج کرکے وہ یہ بے چینی آسانی سے چین تک لے جا سکتا ہے اور اس راستے میں فوج اسکی مخالفت کر رہی ہے۔
اب جن کو دوست اور دشمن نظر نہیں آ رہا، ان کا کیا علاج ہے؟