استبدادی نظام کی پہچان اور اس کا کردار
جولائی 25, 2018دوست اور دشمن کون؟ کون سی لیگ غدار ہے وغیرہ وغیرہ۔ ۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان
جولائی 25, 2018
- کسی بھی ملک کیلیے اس ملک میں ہونے والا سیاسی عمل بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ کیونکہ یہی سیاسی عمل اس بات کا تعین کرتا ہے کہ اب کی بار کیسی قیادت اقتدار میں آئے گی ۔ قوموں کا مستقبل ان کی قیادت کے منصب پر فائز جماعتوں کے اخلاص اور علمی اور عملی قابلیت پر منحصر ہوتا ہے۔پاکستان جب سے معرض وجود میں آیا، اسکے سیاسی منظر نامے پر دو طرح کی قوتیں ہی قابض رہیں: ایک جاگیردار اور دوسرا سرمایہ دار اور پھر 70 سال سے انہیں خاندانوں کی اگلی نسلیں اقتدار کے ایوانوں کے مزے لوٹتی رہی ہیں۔ سیاسی عمل میں فوج اور بیوروکریسی کی مستقل دخل اندازی کی بنیادی وجہ ہماری سیاسی قیادت کی نااہلی اور خودغرضی رہی ہے.ہر پانچ سال بعد ہونے والے الیکشن کوایک جمہوری عمل قرار دیا جاتا ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم ہر اچھے عنوان کے پیچھے اندھادھند چل پڑتے ہیں اور اس میں چھپے مکرو فریب کو نہیں پہچانتے۔ جمہوریت کا بنیادی مفہوم عوام کی حکومت، عوام کیلیے ، عوام کی طرف سے ہے(govt of people, for the people, by the people).لیکن اگر ہم اسکی بنیادی تعریف پر غور کریں اور پھراسکا موازنہ اپنے موجودہ سیاسی نظام سے کریں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ یہاں عمل بلکل اسکے برعکس چل رہا ہے۔ یہاں پر سرمایہ دار کی حکومت، سرمایہ دار کیلیے، سرمایہ دار کی طرف سے ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ جاگیردار کی حکومت، جاگیردار کی طرف سے، جاگیردار کیلیے ہے۔پاکستانی سیاست کے افق پر ایک خاص طبقہ پچھلے 70 سالوں سے براجمان ہے۔ یہ طبقہ بڑے بڑے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور صنعتکاروں پر مشتمل ہے۔
پاکستان میں الیکشن کا نظام کچھ ایسا ہے کہ یہی مخصوص طبقہ ہردفعہ الیکشن میں حصہ لیتا ہے، عوام کی محرمیوں کو پورا کرنے کا وعدہ کرتا ہے، سادہ لوح انسانون کے جذبات کے ساتھ کھلیتا ہے، کبھی بنیادی ضروریات روٹی کپڑا مکان کے نام کے ساتھ، کبھی موٹر وے اور صنعتی ترقی کے عنوان کے ساتھ، کبھی مذہب اور اسلام کے عنوان کے ساتھ اور کبھی تبدیلی اور نئے پاکستان کے جام پرعوام کو اس بات پر قائل کیا جاتا ہے کہ اس مکروہ عمل میں حصہ لیں اور اسی مخصوص طبقہ میں سے اپنے لیے نمائندے منتخب کر کے اگلے چند سالوں کیلئے اپنی قومی تقدیر کا مالک انہیں بنا دیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہاری اور مزارع کا نمائندہ ایک جاگیردار کیسے ہو سکتا ہے’ ایک مزدور اور دیہاڑی دار کا نمائندہ ایک صنعتکار و بزنس میں کیسے ہو سکتا ہے؟ کیونکہ دونوں طبقوں کے مفادات ایک دوسرے سے متضاد ہیں، ایک کا فائدہ دوسرے کا نقصان ہے۔اور پاکستان میں اکثریتی طبقہ مزدور، ہاری، دیہاڑی پیشہ پر مشتمل ہے۔ تو ایک اقلیتی طبقہ ایک اکثریتی طبقہ کا نمائندہ کیسے ہو سکتا ہے اور اس کو جمہوریت کا عنوان کیسے دیا جا سکتا ہے؟
دوسری بات جو کہ بہت غور طلب ہے قانون ساز اسمبلی میں جس طبقہ کی اکثریت ہوتی ہے وہی طبقہ اپنی مرضی کی قانون سازی کرتا ہے۔ چونکہ پاکستانی سیاسی منظر نامہ میں جاگیردار اور سرمایہ دار ہی چھایا ہوا ہے تو اسمبلیوں میں بھی اسی طبقہ کے نمائندے براجمان ہوتے ہیں۔ یہاں ایک سنجیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ طبقہ کوئی بھی قانوں اپنے یا اپنے طبقہ کے خلاف بنائے گا؟ جیسا کہ جاگیرداریت کا خاتمہ کر کے کسانوں کو حقوق دلائے جانا اور مزدوروں کے کام کے اوقات کم کر کے ان کی تنخواہوں کو بڑھان،نظامتعلیم کو ایک کر کے قوم میں فکری وحدت کو پیدا کرنا وغیرہ شامل ہیں. تو کیا یہ طبقہ عوام کے حقوق کی بات کرے گا؟
- تو ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ ہمیں ماضی میں جتنی بھی ہنگامہ آرائی اور عدالتی فیصلے ہوتے نظر آتے ہیں وہ اس طبقہ کی باہمی چپقلش کا نتیجہ ہیں. جب چپقلش ایک حد سے بڑھ جاتی ہے تو اسی طبقہ کے ایک حصہ کو پیچھے کر کے نئے اور تازہ دم گروہ کو آگے کردیا جاتا ہے تاکہ عوام بھی ذائقہ کی تبدیلی سے مطمئن ہوجائے اور نظام کو خون چوسنے والی نئی جونکیں بھی میسر آجائیں. ۔اسمبلیوں میں ہونے والی قانونی ترامیم میں بھی یہی چیز کار فرما ہوتی ہے۔
- پاکستان کی موجودہ سیاست اور اس کے ذیل میں ہونے والے الیکشن سے کسی بھلائی کی توقع رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی مخنث سے تولید نسل کی توقع رکھنا ہے۔ کیونکہ جس میں بھلائی کا مادہ ہی نہیں وہاں پر بھلائی تلاش کر نا پاگل پن ہے.
- بقول شاعر،
- ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
- جو نہیں جانتے وفا کیا ہے!
پاکستان میں پھر سے الیکشن کے نام پر سادہ لوح عوام کی محرومیوں کا فائدہ اٹھا کر ایک مکروہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ تاکہ نظام کی خرابی کی وجہ سے عوام میں پیدا ہونے والے غصے، نفرت اور اضطراب کو خارج کردیا جائے. ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اوپر دیے گئے دلائل کی روشنی میں الیکشن کے اس عمل، اس میں سرمائے، جاگیر اور اختیارات پر قبضے کے جبر کا بھرپور جائزہ لیں۔ اور اپنے لیے صحیح راہ کا انتخاب کریں۔حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ ہم کیوں سرمایہ داری اور جاگیرداری کے اسی ایک سوراخ سے 70 سال سے مسلسل ڈسے جا رہے ہیں!
قافلے دلدلوں میں جا ٹھہرے..
رہنما پھر بھی رہنما ٹھہرے۔۔
مناظر: 109