• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
الیکشن کا فتنہ خیز ہنگامہ ۔۔۔ تحریر: محمد علی عمیرالیکشن کا فتنہ خیز ہنگامہ ۔۔۔ تحریر: محمد علی عمیرالیکشن کا فتنہ خیز ہنگامہ ۔۔۔ تحریر: محمد علی عمیرالیکشن کا فتنہ خیز ہنگامہ ۔۔۔ تحریر: محمد علی عمیر
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

الیکشن کا فتنہ خیز ہنگامہ ۔۔۔ تحریر: محمد علی عمیر

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • الیکشن کا فتنہ خیز ہنگامہ ۔۔۔ تحریر: محمد علی عمیر
استبدادی نظام کی پہچان اور اس کا کردار
جولائی 25, 2018
دوست اور دشمن کون؟ کون سی لیگ غدار ہے وغیرہ وغیرہ۔ ۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان
جولائی 25, 2018
Show all

الیکشن کا فتنہ خیز ہنگامہ ۔۔۔ تحریر: محمد علی عمیر

  • کسی بھی ملک کیلیے اس ملک میں ہونے والا سیاسی عمل بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ کیونکہ یہی سیاسی عمل اس بات کا تعین کرتا ہے کہ اب کی بار کیسی قیادت اقتدار میں آئے گی ۔ قوموں کا مستقبل ان کی قیادت کے منصب پر فائز جماعتوں کے اخلاص اور علمی اور عملی قابلیت پر منحصر ہوتا ہے۔پاکستان جب سے معرض وجود میں آیا، اسکے سیاسی منظر نامے پر دو طرح کی قوتیں ہی قابض رہیں: ایک جاگیردار اور دوسرا سرمایہ دار اور پھر 70 سال سے انہیں خاندانوں کی اگلی نسلیں اقتدار کے ایوانوں کے مزے لوٹتی رہی ہیں۔ سیاسی عمل میں فوج اور بیوروکریسی کی مستقل دخل اندازی کی بنیادی وجہ ہماری سیاسی قیادت کی نااہلی اور خودغرضی رہی ہے.ہر پانچ سال بعد ہونے والے الیکشن کوایک جمہوری عمل قرار دیا جاتا ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم ہر اچھے عنوان کے پیچھے اندھادھند چل پڑتے ہیں اور اس میں چھپے مکرو فریب کو نہیں پہچانتے۔ جمہوریت کا بنیادی مفہوم عوام کی حکومت، عوام کیلیے ، عوام کی طرف سے ہے(govt of people, for the people, by the people).لیکن اگر ہم اسکی بنیادی تعریف پر غور کریں اور پھراسکا موازنہ اپنے موجودہ سیاسی نظام سے کریں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ یہاں عمل بلکل اسکے برعکس چل رہا ہے۔ یہاں پر سرمایہ دار کی حکومت، سرمایہ دار کیلیے، سرمایہ دار کی طرف سے ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ جاگیردار کی حکومت،  جاگیردار کی طرف سے، جاگیردار کیلیے ہے۔پاکستانی سیاست کے افق پر ایک خاص طبقہ پچھلے 70 سالوں سے براجمان ہے۔ یہ طبقہ بڑے بڑے جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور صنعتکاروں پر مشتمل  ہے۔

    پاکستان میں الیکشن کا نظام کچھ ایسا ہے کہ یہی مخصوص طبقہ  ہردفعہ الیکشن میں حصہ لیتا ہے، عوام کی محرمیوں کو پورا کرنے کا وعدہ کرتا ہے، سادہ لوح انسانون کے جذبات کے ساتھ کھلیتا ہے،  کبھی بنیادی ضروریات روٹی کپڑا مکان کے نام کے ساتھ، کبھی موٹر وے اور صنعتی ترقی کے عنوان کے ساتھ، کبھی مذہب اور اسلام کے عنوان کے ساتھ اور کبھی تبدیلی اور نئے پاکستان کے جام پرعوام کو اس بات پر قائل کیا جاتا ہے کہ اس مکروہ عمل میں حصہ لیں اور اسی مخصوص طبقہ میں سے اپنے لیے نمائندے منتخب کر کے اگلے چند سالوں کیلئے اپنی قومی تقدیر کا مالک انہیں بنا دیں۔

    یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہاری اور مزارع کا نمائندہ ایک جاگیردار کیسے ہو سکتا ہے’ ایک مزدور اور دیہاڑی دار کا نمائندہ ایک صنعتکار و بزنس میں کیسے ہو سکتا ہے؟ کیونکہ دونوں طبقوں کے مفادات ایک دوسرے سے متضاد ہیں، ایک کا فائدہ دوسرے کا نقصان ہے۔اور پاکستان میں اکثریتی طبقہ مزدور، ہاری، دیہاڑی پیشہ پر مشتمل ہے۔ تو ایک اقلیتی طبقہ ایک اکثریتی طبقہ کا نمائندہ کیسے ہو سکتا ہے اور اس کو جمہوریت کا عنوان کیسے دیا جا سکتا ہے؟
    دوسری بات جو کہ بہت غور طلب ہے قانون ساز اسمبلی میں جس طبقہ کی اکثریت ہوتی ہے وہی طبقہ اپنی مرضی کی قانون سازی کرتا ہے۔ چونکہ پاکستانی سیاسی منظر نامہ میں جاگیردار اور سرمایہ دار ہی چھایا ہوا ہے تو اسمبلیوں میں بھی اسی طبقہ کے نمائندے براجمان ہوتے ہیں۔ یہاں ایک سنجیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ طبقہ کوئی بھی قانوں اپنے یا اپنے طبقہ کے خلاف بنائے گا؟ جیسا کہ جاگیرداریت کا خاتمہ کر کے کسانوں کو حقوق دلائے جانا اور مزدوروں کے کام کے اوقات کم کر کے ان کی تنخواہوں کو بڑھان،نظامتعلیم کو ایک کر کے قوم میں فکری وحدت کو پیدا کرنا  وغیرہ شامل ہیں. تو کیا یہ طبقہ عوام کے حقوق کی بات کرے گا؟

  • تو ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ ہمیں ماضی میں جتنی بھی ہنگامہ آرائی اور عدالتی فیصلے ہوتے نظر آتے ہیں وہ اس طبقہ کی باہمی چپقلش کا نتیجہ ہیں. جب چپقلش ایک حد سے بڑھ جاتی ہے تو اسی طبقہ کے ایک حصہ کو پیچھے کر کے نئے اور تازہ دم گروہ کو آگے کردیا جاتا ہے تاکہ عوام بھی ذائقہ کی تبدیلی سے مطمئن ہوجائے اور نظام کو خون چوسنے والی نئی جونکیں بھی میسر آجائیں. ۔اسمبلیوں میں ہونے والی قانونی ترامیم میں بھی یہی چیز کار فرما ہوتی ہے۔
  • پاکستان کی موجودہ سیاست اور اس کے ذیل میں ہونے والے الیکشن سے کسی بھلائی کی توقع رکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی مخنث سے تولید نسل کی توقع رکھنا ہے۔ کیونکہ جس میں بھلائی کا مادہ ہی نہیں وہاں پر بھلائی تلاش کر نا پاگل پن ہے.
  • بقول شاعر،
  • ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
  • جو نہیں جانتے وفا کیا ہے!
    پاکستان میں پھر سے الیکشن کے نام پر سادہ لوح عوام کی محرومیوں کا فائدہ اٹھا کر ایک مکروہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ تاکہ نظام کی خرابی کی وجہ سے عوام میں پیدا ہونے والے غصے، نفرت اور اضطراب کو خارج کردیا جائے. ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اوپر دیے گئے دلائل کی روشنی میں الیکشن کے اس عمل، اس میں سرمائے، جاگیر اور اختیارات پر قبضے کے جبر کا بھرپور جائزہ لیں۔ اور اپنے لیے صحیح راہ کا انتخاب کریں۔حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا۔ ہم کیوں سرمایہ داری اور جاگیرداری کے اسی ایک سوراخ سے 70 سال سے مسلسل ڈسے جا رہے ہیں!
    قافلے دلدلوں میں جا ٹھہرے..
    رہنما پھر بھی رہنما ٹھہرے۔۔
مناظر: 250
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ