استبداد کیاہے
استبداد کی لفظی معنی ہے اپنے آپ کو سب پر ترجیح دینے کا عمل یا رجحان جبکہ مجازی طور پر یہ لفظ ظلم کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اصطلاحی طور پر حکومت کی ایک ایسی شکل جس میں ملکی طاقت و اختیار صرف ایک فرد کے پاس ہوتاہے جس کو با الفاظ دیگر شخصی سلطنت ، مطلق العنانی یا غیر جمہوری بالا دستی بھی کہتے ہیں۔
چنانچہ اگر ایک گروہ /طبقہ تمام تر اختیارات اپنے پاس رکھے اور اپنے عوام یا ماتحتوں پر ظلم کرے ، ان کو بنیادی حقوق سے محروم رکھے استبدادی طبقہ کہلاتا ہے ۔ اور ایسے نظام کو استبدادی نظام کہتے ہے تاریخ میں فرعونی نظام کو استبدادی نظاموں کا ایک نمونہ قرار دیا گیا ہے اوراس طرز پر جو حکمران بھی عمل پیرا ہو اِسی زمرے میں آتے ہیں۔
اگر کوئی یہ معلوم کرنا چاہے کہ اس کے ملک میں رائج نظام استبدادی ہے یا عادلانہ ہے تو اس کو پہچاننے کے لیے اس نظام کے کردار کو دیکھنا ہوگا۔
استبدادی نظام کا کردار اور اس کے نقصانات :
- استبدادی نظام اپنی بالا دستی کو قائم رکھنے کے لیے ہمیشہ عوام کو بے شعور رکھتا ہے تاکہ ان میں کبھی بھی یہ سوچ پیدا نہ ہو جائے کہ ان کے حقوق پر یہ طبقہ قابض ہے۔ طبقاتی نظام تعلیم رائج ہوتا ہے امیر کے بچوں کے لیے الگ تعلیمی ادارے ہوتے ہیں جبکہ غریب کے بچوں کے لیے الگ ۔ جن میں زمین اور اسمان کا فرق ہوتا ہے۔
- استبدادی نظام تقسیم کے فلسفے پر عمل پیرا ہوتا ہے اور عوام کو مختلف گرہوں میں تقسیم کرکے اپس کے اختلافات میں الجھا دیتا ہے۔ قران کریم نے یہی خصلت فرعون کی بتلا ئی ہے کہ اس نے لوگوں کو مختلف گروہ میں تقسیم کیا تھا۔
- حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں کے حصول کے لیے عوام پر بے جا ٹیکس لگاتے ہیں چنانچہ معاشی لحاظ سے عوام کی اکثریت بدحال ہوتی ہے اور اکثریتی عوام بنیادی حقوق سے محروم ہوتے ہیں جبکہ ملکی وسائل، زر اور زمین پر چند لوگ قابض ہوتے ہیں اور یہی لوگ حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔
- سیاسی لحاظ سے ملک بد آمنی کا شکار ہوتا ہے ہر طرف خوف کا ماحول گرم ہوتا ہے، کسی عام انسان کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں ہوتی۔
- ملکی اختیارات چند ہاتھوں میں ہوتے ہیں اور غیر فطری اصولوں پر ملکی قوانین بنائے جاتے ہیں ، غریب کے لیے الگ قانون ہوتاہےجبکہ امیر کےلیے الگ۔ قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کے لیے قوانین بنائے جاتےہیں۔
موجودہ دورمیں سرمایہ دارانہ طرزِ حکومت ، استبدادی نظام ہی کا کردار ادا کررہا ہے ۔ جن ممالک میں سرمایہ دارانہ نظا م رائج ہے ان میں ہمیشہ یہ دیکھنے کہ ملا ہے کہ جس کے پا س سرمایہ ہوتاہے وہی حکومت کا حصہ ّ بن سکتا ہے ۔ پھر یہ سرمایہ دار طبقہ حکومت میں آ کر اپنے سرمایہ کی بقا اور مزید سرمایہ جمع کرنے کے لیے نئے نئے طریقوں سے عوام کو لوٹنے کے پلان بناتے ہیں۔ ملکی وسائل کے اکثریت حصہ پر 1 فیصد لوگ قابض ہو تے ہیں اور عوام کی اکثریت غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ یہ استبداد نہیں تو اور کیا ہے؟
استبدادی نظام اور حقیقی جمہوری نظام کا جائزہ:
حقیقی جمہوری نظام میں:
- عوام باشعور ہوتے ہیں۔ ان کی بہترین طریقے سے تربیت کی جاتی ہے، اور ملک میں یکساں نظام تعلیم رائج ہوتاہے ۔
- عوام کی رائے آزاد ہوتی ہے ان کی رائے کسی خان، وڈیرے یا جاگیردار ، سرمایہ دار کے ہاتھوں مصلوب نہیں ہوتی۔
- ان کے پارلیمنٹ میں معاشرے کے ہر شعبے کے نمائندہ گان بیٹھے ہوتے ہیں اور اس شعبے کو ترقی دینے کے لیے قانون سازی کرتے ہیں، پارلیمنٹ پر سرمایہ کا تسلط قائم نہیں ہوتا۔ اور قانون سازی قومی مفاد کے تناظر میں کی جاتی ہے۔
- سماجی انصاف سب کو میسر ہوتا ہے، امیر و غریب کے لیے ایک ہی قانون ہوتا ہے ۔
- سیاسی لحاظ سے ملک مین امن و اماں کی فضاء قائم رہتی ہے اور معاشی لحاظ سے لوگ خوشحال ہوتے ہیں،
- ملکی وسائل پر کسی جاگیردار کا قبضہ نہیں ہوتا بلکہ وہ ملک کے ترقی کے لیے استعمال میں لائے جاتےہیں۔
- عوام کو بنیادی ضروریات باعزت طریقے سے میسر ہوتے ہیں
- قومی لحاظ سے عوام متحد ہوتے ہیں اور ہر قسم کی طبقات سے پاک ہوتےہیں۔
استبداد شکن نظریے کی ضرورت:
استبدادی نظام کو ختم کرنے کے لیے استبداد شکن نظریے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ایک ایسا نظریہ جس میں کل انسانیت کی گنجائش موجود ہو ، جو ہر قسم کی فرقہ واریت اور تقسیم سے پاک ہو، پھر اس نظریے پر ایک اعلیٰ جماعت تیار کی جاتی ہے جس کے ذریعے عوام میں حقیقی شعور اجاگر کیا جاتاہے، جب تک سوسائٹی کے لوگوں میں یہ شعور اجاگر نہ کیا جائے کہ ان کے تمام مسائل کی جڑ یہ استبدادی نظام ہے تب تک اس نظا م کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
مناظر: 224