جیسا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ ہم دور زوال میں زندگی گزارہے ہیں. دور زوال کی بنیادی علامت یہ ہے کہ اس میں ہر ایک چیز اپنے مقصد اور حیثیت سے ناواقف ہوجاتی ہے. اور وہ ایک رسم کی شکل اختیار کرلیتی ہے. جیسا کہ ہمارے ساتھ بہت سی چیزوں میں ہوا بھی ہے.
ایسا ہی کچھ تعلیمی میدان میں بھی ہوا ہے. آج کل ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو تعلیم نے ایک بزنس کی حیثیت اختیار کیر لی ہے. اور خصوصا نجی اداروں کا تو مکمل منشور ہی مختلف ہے. بھاری بھاری داخلہ اور ماہانہ فیسوں کے باوجود ایک عمدہ تربیت اور سیکھنے کے بجائے دوران امتحان میں اسٹوڈنٹس کو مکمل طور پر فیسیلیٹیٹ کرتے ہیں خواہ وہ فوٹوسٹیٹ کی شکل میں ہو یا کسی اور دھندے سے . تاکہ ہمارے طالبعلم زیادہ نمبر لیں اور ہمارا سکول بورڈ میں یا ضلع میں پوزیشن لے اور آنے والے سال میں ہمیں تجارت کرنے کا ایک اور موقع ملے.
نمبروں اور گریڈز کے اس دوڑ میں ہم ایک چیز سے دور ہوتے جارہے ہیں وہ ہے تعلیم کا مقصد.
تعلیم کا مقصد کیا ہے ؟
تعلیم کا مقصد ہے زندگی کو بامقصد بنانا. یہ سیکھنا کہ سیکھنا کیسے ہے. تعلیم یافتہ بندے کو اپنے Potential کا پتہ ہوتا ہے. اپنا Plan of action یعنی عمل کی منصوبہ بندی واضح ہوتی ہے اور وہ اپنے خیالات پر مکمل طور پر عبور رکھتا ہے. اور سماج کے بہتری کیلئے ہر وقت عمل میں ہوتا ہے. اپنے لئے خدمت کے مواقع ڈھونڈتے ہیں کہ لوگوں کی خدمت کیسے کریں.
لیکن ہمارے ہاں کہانی الٹ ہے. تعلیم صرف نوکری کیلئے کرتے ہیں. ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں میں خودغرضی زیادہ ہوتی جارہی ہے.
ایسا کیوں ہے آئیں تاریخ کے روشنی میں دیکھتے ہیں.
جب 19 سنچری میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر میں قدم رکھا. تو اس کمپنی کیلئے کلرک, ملٹری فورسز, اور فیکٹری ورکرز کی ضرورت پیش آئی. کلرک ڈیٹا کولیکشن کیلئے, ملٹری فورسز اس کو حفاظت دینے کیلئے اور فیکٹری وکرز انڈسٹری میں کام کرنے کیلئے.
اس کیلئے انگریز نے ایک ٹریننگ یعنی ایجوکیشن سسٹم بنایا. جس کی زبان انگلش رکھی گئی تا کہ ان کو کمیونکیٹ اور ہدایات میں مسائل پیش نہ آئیں.
اگر ہم سوچیں تو ان تینوں چیزوں کیلئے تخلیقی ذہن کی ضرورت نہیں ہںے. مالک جیسا بولے ویسے کرنا ہوگا. اٹھنا ہںے تو اٹھ جاؤ بیٹھنا ہے تو بیٹھ جاؤ.
لیکن بدقسمتی سے وہی انگریزوں کا بنایا ہوا تعلیمی نظام ہم آزاد پاکستان کے بعد بھی استعمال کررہے ہیں. اور آج بھی ہمارے تخلیقی ذہن کے بجائے غیر جانبدار بن رہے ہیں.
بہت افسوس کی بات ہںے کہ ہمارے اداروں میں کہیں بھی “Ideas and Innovation” یعنی خیالات اور اس کے اوپر ایجادات کو انجام کرنے کی بات نہیں ہوتی ہے.
صرف مارکس کے اوپر اہمیت دی جاتی ہے.کہ مارکس لائو. چاہئے رٹہ مار کے لو یا کوئی اور طریقہ پر. لیکن اہمیت صرف مارکس کی ہوگی.
آجکل کے طالبعلم سوشل میڈیا پر اکٹیو تو ہے لیکن اس کے پاس کوئی ایسا نہیں ہںے کہ وہ اپنے مسائل شئیر کر پائے . طالبعلم ڈگری ہولڈرز تو ہے لیکن بااعتماد نہیں ہے. تو کیا ہم ایسے تعلیمی نظام کو معنی خیز بول سکتے ہیں . ہمارے ہاں تو 70 فیصد ڈگری والے بے روزگار گھومتے ہیں. اس بےروزگاری ہی کے نتیجہ میں تو سٹوڈنٹس خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں .یا کوئی اور ناجائز حرکت پر اترآتے ہیں.
ہیمش مادان ( انڈین موٹیوشنل سپیکر) اپنے ایک شارٹ ویڈیو کلپ میں بتاتا ہںے کہ ہم انسان اس دنیا کے کروڑوں میں سے ایک ہیں. لیکن جو بات ہمیں ان سب سے الگ بناتی ہے وہ ہے ہمارا دماغ.
وہ دماغ جو کائنات کے پیچیدہ مسائل کو حل کرسکتے ہیں. ہم سوچ سکتے ہیں, محسوس کرسکتے ہیں.
ہم سوچ سکتے ہیں, محسوس کرسکتے ہیں, سمجھ سکتے ہیں. لیکن اس کو سوچنے کیلئے, سمجھنے کیلئے ایک Will formed mind نہ کہ Will filled mind.
ہم اپنے دماغ کو بھرنے لگے ہوئے ہیں.
Will formed mind
نہ ہونے کی وجہ سے جب طالبعلم تعلیم مکمل کرتے ہیں, ڈگری ہولڈر بن جاتے ہیں تو پھر وہ دباؤ کا شکار ہوجاتا ہیں. معاشی مسائل کا سامنا کرتا ہیں اور بالآخر اپنے فیلڈ سے ہٹ کرکے ڈبل ڈبل جابز شروع کرتے ہیں, گویا کہ پرسکون زندگی سے مکمل طور پر ناواقف ہوجاتے ہیں. اور خصوصا وہ لوگ جس کے ڈگری پر ٹاپ گریڈ لگا ہوتا ہے, اور اس کے امیدیں بہت زیادہ ہوتی ہیں اور آخر میں ایسے مسائل پیش آجائیں تو وہ ایک نفسیاتی مریض بن جاتا ہے, اور سماج پر ایک بوجھ بھی.
اور ٹیچرز جو کہ سماج کے بہتری اور اس کو قائم رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے. بچوں کی نشونما کرنے اور ان کی صلاحیتوں کو ابھارنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں. لیکن ان ٹیچرز کو بھی نظام نے باندھ کے رکھا ہوا ہے. نظام مارکس پر فوکس کرتا ہے. سلیبس پرانا ہے. اور اساتذہ بھی طالب علموں کو رٹہ لگانے پر مجبور کرتے ہیں.
اسی کی وجہ سے ہمارا ملک تحقیق اور ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے ہے.
ہمارے ملک کا ریسرچ آوٹ پٹ لگ بھگ 2.0 ہے یعنی نہ ہونے کے برابر ہے.
پس ان مسائل کو ہم تب ختم کرسکتے ہیں جب ہم اپنا دماغ کا استعمال شروع کریں. اپنے ذہن کو Will formed بنائیں. تعلیمی نظام کو الگ زاویہ سے دیکھیں. اس کی بہتری کیلئے مختلف ریسرچ کرنا شروع کریں.
ایک الگ زاویہ سے مطالعہ وقت کا تقاضہ ہے.
اور ایک نوجوان ہونے کے ناتے اس فرسودہ نظام تعلیم کے ایک ایک پہلو کو سمجھیں اور اس کی بہتری کیلئے اپنے صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں.
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو.
مناظر: 160