ریاست ِمدینہ اور ولی اللّٰہی فکر کا امتیاز
جنوری 1, 2019اجتماعیت اور منفی رویے — تحریر: رضوان غنی
جنوری 24, 2019
پچھلے دنوں ہمارے علاقے گبین جبہ کے خوبصورت پہاڑوں پر چڑھنے کا موقع ملا. ایک خوبصورت وادی کے گِرد اُونچے اُونچے پہاڑوں کے چوٹیاں جو آسمان کے بلندیوں کو چوم رہے تھے بادلوں کی ہمت پرواز اتنی کمزور تھی کہ اُن پہاڑوں کے اوپر سے نہیں اڑسکتے تھے اور یوں لگ رہا تھا کہ یہ بلند اجسام قدرت کے نشے میں مست ہیں اور یہ بادل ان کے نشے کا دُھواں ہے بادلوں سے نیچے سارے پہاڑ درختوں سے ڈھکے ہوے ہیں اور اوپر کے پہاڑ جو بادلوں میں اپنے خالی چٹانوں کو چھپا رہے ہیں اور ان پہاڑوں کے بیچ میں ہموار سبزہ زار کھلے میدانوں کے طرح لگ رہے تھے اور اونچے پہاڑوں کے سینے کو چھیر کر شفاف پانی کی آبشار ان سبزہ زاروں سے دور نظر آرہے ہیں. ہر وقت ہلکی ہلکی بارش کی بوندیں اور ٹھنڈی ہوا کی لہریں چلتی رہتی ہے. پہاڑوں کے اس سخت ترین راستے سے پہنچ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ قدرت کی وہی انتہا ہے جہاں پر انسان کی روح کو سکون ملتا ہے اور انسان ساکت بن کر بس فطرت کے نظارے کا تماشا دیکھنے میں مگن رہ جاتا ہے.
لیکن ایک اور حقیقت یہ ہے کہ اس حسن وجمال کے نیچے کئ گاؤں آباد ہیں جہاں پر ہزاروں لوگ اپنے زندگی گزار رہے ہیں ان گاؤں میں نہ تو زندگی کی بنیادی ضروریات موجود ہیں اور نہ ان کیلئے قدرت کے حسن کے علاوہ کوئی اور سہولت سردی اور سخت ترین راستوں سے لڑنے والے ان لوگوں کیلئے نہ ہسپتال نہ اسکول نہ بجلی حتیٰ کہ ان کے کھانے کیلئے بنیادی غذا بھی موجود نہیں ہے. پھٹے پرانے کپڑوں میں اپنے مہمانوں کے خاطر تواضع کرکے ان کو صرف اخلاص اور محبت کا سبق یاد دلاتے ہیں لوگ ایک دو دن کیلئے آجاتے ہیں ان خوبصورت علاقوں سے مزے لیکر واپس چلے جاتے ہیں لیکن جن کا ادھر سال ہا سال قیام ہیں ان کے سختیوں اور مشکلات کا کسی کو اندازہ نہیں ہے قدرت کی بیچ میں اگر انسانیت اپنی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم مررہی ہیں تو کیا ہوا آباد اور بڑے بڑے شہروں میں انسانیت کونسی اعلیٰ تمدن، امن اور خوشحالی سے رہ رہے ہیں.
سیر و تفریح سے واپسی کے وقت میری ذہن میں یہی کچھ چل رہا تھا. پھر خیال آیا کہ یہ وہی لوگ ہیں جو اتنی سختی سے زندگی گزار کر بڑے بڑوں کے مقابلے میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور اکثر اپنی آپ کو ان کی برابر کر لیتے ہیں گھر نہ ہونے کے باوجود بنیادی صحت اور تعلیم سے محروم نہ ان پر کسی اعلٰی تعلیم یافتہ کے نگرانی نہ ان کے آباؤں کے اس مد میں کوئی دلچسپی، بجلی اور ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے ساتھ ساتھ اگر یہاں سے کوئی اعلٰی مقام تک پہنچ جاتا ہے تو یہ ان صلاحیت کی کمال ہیں اور ہمیں ان کی صلاحیت کی قدر کرنی چاہیے. لیکن کیا ہے ہمارے اوقات جو بڑے بڑے گھروں میں آرام وسکون کے ساتھ بڑے بڑے سکولوں اور کالجوں میں پڑھ لیتے ہیں اور جب ایسے لوگوں کے سامنے آتے ہیں تو ان کو نیچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں. ان سے غیر ضروری چیزوں میں مقابلہ شروع کردیتے ہیں. وہی بات یاد آگئی جو کسی کہانی میں سُنی تھی کہ مقابلے کے اصول تو یہ ہے کے دوڑ کو ایک ہی لکیر سے شروع کرلو تب دیکھ لینگے کس میں کتنا دم ہے. وہی بے چارہ محبت اخلاص اور سچائی سیکھ کر شہروں میں دور کچھ بننے کیلئے اجاتا ہے اور ہم ان سے چالاکی کرکے ان کی سچائی کو بےوقوفی بنا کر ان کے اخلاص اور محبت سے اپنے فائدے نکال لیتے ہیں. ہمارے اندر اتنا احساس نہیں ہوتا اور ہم ہر چیز کو اپنے ترازو میں تولتے ہیں ہاں یہ ٹھیک ہوگا کہ کسی کیلئے چند گنے چنے پیسے کی کوئ اہمیت نہیں ہوگی لیکن کسی کیلئے ایک روپیہ بھی بڑی اہمیت رکھتی ہوگی لیکن ہم اپنے اندازے سے دوسروں پر بوجھ ڈالتے ہیں کسی کی چھوٹی سی چھوٹی چیز کی نقصان ان کیلئے بہت بڑا ہوگا اور ہمارے لئے وہ کوئی اہمیت کا حامل نہیں ہوگا لیکن ہم کیا کرتے ہیں کہ ان بے چاروں کیلئے اپنے کتاب کھول لیتے ہیں ان کی صلاحیت اور مجبوری کو نظرانداز کر کے اپنے اندازے سے ان کیلئے جینے کا تعین کرتے ہیں ان کے وہی کچھ چیزیں جو انہوں نے بڑے مشکل سے جمع کئے ہوتے ہیں ہم اگر ان کو نقصان پہنچادیں تو اپنے رویے کی مطابق ان کو چھوٹی نقصان تصور کرلیتے ہیں اگر ان کے کچھ قرض رہ جاتے ہیں پہلے تو ان کو دیتے نہیں ہے اور اگر دیتے بھی ہیں تو بہت عرصہ کے بعد دیتے ہیں جب ان پر مشکل گزر جائے اسی طرح بغیر کسی کو جانے ہم ان بے چاروں سے بہت سارے توقعات رکھتے ہیں عام معاشرے کے طرح ان کے مہمان بن جاتے ہیں چاھے ان کے پاس اس کی طاقت ہو کہ نہیں حتیٰ کہ کسی کا گھر بھی نہیں ہوتا اور ہم ان سے ہجرے کے امید رکھتے ہیں اگر بمشکل وہ ہمارے کام کرلیتے ہیں تو ان کیلئے طرح طرح کے مشکلات بنجاتے ہیں اور اگر نہیں کر پاتے تو ان کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے. ہمارے لئے بہت سارے کام معمولی ہوتے ہیں لیکن ان کیلئے وہی کام غیر معمولی ہوتے ہیں اور اگر کہیں وہ ان اظہار کرلیتا ہیں تو ہم اپنے تجزیہ سے ان کا تشخیص کرلیتے ہیں ہم ان کی مجبوری کو نہیں دیکھ سکتے ہیں حتیٰ کہ ان کو محسوس بھی نہیں کر سکتے ہمارے اندر احساس نام کی چیز ختم ہوچکی ہے.
اور یہ صلاحیت اور مجبوری صرف روپے پیسے اشیاء اور مہمان نوازی تک محدود نہیں ہمیں ایک دوسری کی مزاج جس کے پیچھے انسان کی پوری زندگی نقش ہوتی ہے وقت کی اہمیت جس میں ان پر ہم سے کئی زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے حتیٰ کے علوم جو اس نے اپنے اوقات کے مطابق حاصل کئے ہوتے ہیں ان سب میں ہمیں ان کی صلاحیت اور مجبوری کو جاننا چاھئے تاکہ ہم کسی پر بوجھ نہ ڈالیں کسی پر اپنی فضول خدمات اور دوسرے توضع نہ ڈالیں. کہیں ایک دوست تذکرہ کررہا تھا کہ اگر کوئ کمزور کسی کیلئے ہزار ہاں خدمات کیوں نہ کرلیں آخر میں ان سے کہتے ہیں کہ فلانے نے یہ کام آپ سے اچھا کیا تھا لیکن اگر کوئی صاحب ثروت صرف سلام کریں تو یاد رکھتے ہیں کہ انہوں نے مجھے سلام کیا تھا. کسی کی اخلاص اور محنت کی تائید کرنی چاہیے ان کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے.
اور ان میں کچھ نہ رکھنے کے باوجود معاشرے کے رسم و رواج کو مد نظر رکھ کر اپنے آپ کو ایک نقلی اوور کوٹ میں ڈھانپ لیتے ہیں اپنے کمزوریوں کو چھپاتے ہیں اور یہی ان کی مجبوری بن جاتی ہے کیونکہ اس معاشرے میں اگر ان کی کمزوریاں کسی کو معلوم ہو جائے تو ان کیلئے اور مشکل بن جاتا ہے یہی ہوتے ہیں کچے دھاگے جو مضبوط دھاگوں کی بیچ میں رہتے ہیں اور یہ بڑے دھاگے اپنے سُستی سے اپنا بوجھ بھی ان پر ڈال لیتے ہیں یہ ہے وہ کچے دھاگے جو اپنے طاقت سے کئی گُنا زیادہ کام کرتے ہیں اپنی صلاحیت کے بلبوطے پر وہ اپنی مقام تک پہنچ جاتے ہیں لیکن ان کو وہ سہولیات میسر نہیں ہے جو ہم کو میسر ہے وہ ہمارے طرح نہیں ہوتے ان کے معمولی شئے ان کیلئے کروڑوں کی معنی رکھتے ہیں ان کے ہاں گھر اور ہجرہ نہیں ہے لیکن مہمان نوازی سے انکار نہیں کر تے ان کی وقت بہت قیمتی ہوتا ہے لیکن ہم ان کے مجبوریوں کو نہیں دیکھ سکتے ان کے طاقت سے زیادہ ان سے کام لینا چاہتے ہیں ان کو مشکل میں ڈال لیتے ہیں لیکن ہم ہیں کہ پہلے تو ہم محسوس نہیں کرسکتے اوراگر کر بھی لیتے ہیں پھر بھی اپنی ذمّہ داری کا احساس نہیں ہوتا اور غیر ذمہ دار ہوکر ہم کئ لوگوں کیلئے باعث ضرر بن جاتے ہیں.
مناظر: 115