• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
اجتماعیت اور منفی رویے — تحریر: رضوان غنیاجتماعیت اور منفی رویے — تحریر: رضوان غنیاجتماعیت اور منفی رویے — تحریر: رضوان غنیاجتماعیت اور منفی رویے — تحریر: رضوان غنی
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

اجتماعیت اور منفی رویے — تحریر: رضوان غنی

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • اجتماعیت اور منفی رویے — تحریر: رضوان غنی
کچّے دھاگے —— تحریر: ڈاکٹر پاچا
جنوری 3, 2019
قیادت میں ہیرو اِزم کا تصور
فروری 1, 2019
Show all

اجتماعیت اور منفی رویے — تحریر: رضوان غنی

سائنس ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اپنے بلند و بالا خیالات کا اظہار آئے دن کر رہی ہے جس میں ایک بات یہ بھی بتائی گئی ہے کہ انسان جب کسی اچھی چیز کو منفی اند ازسے دیکھتا ہے تو اس کے جسم سے ایک خاص قسم کی شعاعیں خارج ہوتی ہیں جو اس اچھی چیز پر منفی اثر کرتی ہیں عام زبان میں ہم اس کو نظر لگنا کہتے ہیں یہ ایک سادہ روز مرہ زندگی سے لی گئی منفی رویہ کی ایک قسم ہے۔
منفی رویے ایک یا دو دن میں نہیں بنتے بلکہ اس کے لیے وقت درکار ہوتا ہے انسان کو جب کوئی کام نفع نہیں پہنچاتا لیکن پھر بھی اس کو وہ کام کرنا پڑے تو انفرادی سطح پر وہ اس کو اپنے لیے ناسور سمجھتا ہے اور اس کے خاتمہ کے لیے ساری طاقت لگا دیتا ہے، یہ ہے انسان کی انفرادی سوچ کہ وہ ہر اس کام کو درد سر سمجھتا ہے جس میں اس کی ذات کا نفع نہیں، تو منفی رویہ پہ بات کرتے ہوئے ہم نے اس انفرادیت کے نظریہ کو رد کرنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو انفرادی سطح پر کیسے منوا سکتے ہیں جبکہ ہم اپنا پورا نام لکھنے کے لیے بھی والد کا نام ساتھ شامل کرنا پڑتا ہے کچھ تو اپنی ذات کا نام بھی لکھتے ہیں، کچھ سلسلہ کا ذکر کرتے ہیں جیسے بریلوی، دیوبندی، نقشبندی، سہروردی وغیرہ جو کہ ایک فکر کو پیش کرتا ہے جو ایک شخص کا نہیں بلکہ ایک اجتماعی سوچ ہے اور کچھ اپنے نام کے ساتھ عقیدت کے لیے محمد لکھتے ہیں جو پوری مسلم امہ کے لیے مشعل راہ اور بین الاقوامی لیڈر و اجتماعیت کے علمبردار ہیں۔
انسان واحد مخلوق ہے جو مثالوں کو صحیح نہج پر پرکھ کر بات کو سمجھ سکتا ہے اس لیے کچھ اور مثالیں پیش کرتا ہوں۔ ہمارے ارکان اسلام میں جتنی بھی عبادات ہیں اس میں اللہ کی ذات کو ایک مانا جاتا لیکن اور کوئی بھی عبادت انفرادیت پر مبنی نہیں ہے نماز کا حکم جماعت کے ساتھ روزہ سب رمضان میں رکھتے ہیں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں گرمی کے مہینے میں نہیں بلکہ موسم اچھا ہو اتو رکھ لوں گا ایسا ممکن نہیں ، حج ایک بین الاقوامی عمل ہے جس میں پوری دنیا کے سامنے اللہ کے یکتا ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے، زکوۃ سے پورے معاشرے کی معاشی حالت کو بہتر کیا جاتا ہے جو ایک اجتماعی عمل ہے۔
اگر ہم خود کو کسی اچھے عہدے پر دیکھتے ہیں تو وہ ایک ادارےکی طرف سے دیا ہوا عہدہ ہوتا ہے جس کے مطابق آپ اپنی قابلیت سے اس عہدےکو حاصل کرتے ہیں تو ایسا ممکن نہیں کہ آپ ہی ادارے کے مالک ہوں اور آپ اکیلے اس کو چلا رہے ہوں کیوں کہ کسی بھی ادارےکو چلانے کے لیے پوری ٹیم کی ضرورت پڑتی ہے۔پھر ادارےکو چلانے کے لیے ان کی تربیت کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے یہ سب کام انفرادی سطح پر نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر کیے جاتے ہیں۔
اب جب ان سب مثالوں کے باوجود ہم انفرادی سوچ کا رد نہیں کرتے تو ہمارے اندر منفی رویے جنم لیتے ہیں جو ہمیں اپنی ذات تک محدود کر کے معاشرے کے لیے  ناسور بنا دیتے ہیں بقول مولانا سندھی ” اگر تم اپنے لیے زندہ ہو تو دوسروں کے لیے ایک زندہ لاش ہو” یہ زندہ لاش پھر اپنے لیے تو فرشتہ بن جائے لیکن دوسروں کے لیے مفید ثابت نہیں ہو گی۔ انفرادی سوچ کے حامل جانور بھی اپنی ذات سے باہر نہیں نکلتے تو اللہ تعالٰی نے ہمیں اشرف المخلوق اور نائب بنایا ہے تو ضرور ہم پر کچھ ذمہ داریاں بھی ڈالی ہوں گی جن میں سے ایک اجتماعی سوچ بھی ہے۔
صرف اپنے آپ کو ٹھیک کرنا مقصد زندگی ہوتا تو وہ صحابہ جن کو جنت کی بشارت دی جا چکی تھی وہ پیٹ پر کبھی پتھر نہ باندھتے اصل میں وہ پتھر کل انسانیت کی فلاح کے لیے باندھے گئے تھے تا کہ پورا معاشرہ جنت بن جائے اور کوئی جنت کی لالچ میں غلط استعمال نہ ہو جائے۔اآج ہمیں اجتماعی شعور اور اجتماعیت کی اصل ضرورت ہے جس کا تاریخی تسلسل درست اور مقصد واضح ہو۔اس حوالے سے حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی کا  اس خطہ میں بہت اہم کردار ہے ان کو پڑھنے اور ان کی تعلیمات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

مناظر: 273
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ