سائنس ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اپنے بلند و بالا خیالات کا اظہار آئے دن کر رہی ہے جس میں ایک بات یہ بھی بتائی گئی ہے کہ انسان جب کسی اچھی چیز کو منفی اند ازسے دیکھتا ہے تو اس کے جسم سے ایک خاص قسم کی شعاعیں خارج ہوتی ہیں جو اس اچھی چیز پر منفی اثر کرتی ہیں عام زبان میں ہم اس کو نظر لگنا کہتے ہیں یہ ایک سادہ روز مرہ زندگی سے لی گئی منفی رویہ کی ایک قسم ہے۔
منفی رویے ایک یا دو دن میں نہیں بنتے بلکہ اس کے لیے وقت درکار ہوتا ہے انسان کو جب کوئی کام نفع نہیں پہنچاتا لیکن پھر بھی اس کو وہ کام کرنا پڑے تو انفرادی سطح پر وہ اس کو اپنے لیے ناسور سمجھتا ہے اور اس کے خاتمہ کے لیے ساری طاقت لگا دیتا ہے، یہ ہے انسان کی انفرادی سوچ کہ وہ ہر اس کام کو درد سر سمجھتا ہے جس میں اس کی ذات کا نفع نہیں، تو منفی رویہ پہ بات کرتے ہوئے ہم نے اس انفرادیت کے نظریہ کو رد کرنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو انفرادی سطح پر کیسے منوا سکتے ہیں جبکہ ہم اپنا پورا نام لکھنے کے لیے بھی والد کا نام ساتھ شامل کرنا پڑتا ہے کچھ تو اپنی ذات کا نام بھی لکھتے ہیں، کچھ سلسلہ کا ذکر کرتے ہیں جیسے بریلوی، دیوبندی، نقشبندی، سہروردی وغیرہ جو کہ ایک فکر کو پیش کرتا ہے جو ایک شخص کا نہیں بلکہ ایک اجتماعی سوچ ہے اور کچھ اپنے نام کے ساتھ عقیدت کے لیے محمد لکھتے ہیں جو پوری مسلم امہ کے لیے مشعل راہ اور بین الاقوامی لیڈر و اجتماعیت کے علمبردار ہیں۔
انسان واحد مخلوق ہے جو مثالوں کو صحیح نہج پر پرکھ کر بات کو سمجھ سکتا ہے اس لیے کچھ اور مثالیں پیش کرتا ہوں۔ ہمارے ارکان اسلام میں جتنی بھی عبادات ہیں اس میں اللہ کی ذات کو ایک مانا جاتا لیکن اور کوئی بھی عبادت انفرادیت پر مبنی نہیں ہے نماز کا حکم جماعت کے ساتھ روزہ سب رمضان میں رکھتے ہیں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں گرمی کے مہینے میں نہیں بلکہ موسم اچھا ہو اتو رکھ لوں گا ایسا ممکن نہیں ، حج ایک بین الاقوامی عمل ہے جس میں پوری دنیا کے سامنے اللہ کے یکتا ہونے کا ثبوت دیا جاتا ہے، زکوۃ سے پورے معاشرے کی معاشی حالت کو بہتر کیا جاتا ہے جو ایک اجتماعی عمل ہے۔
اگر ہم خود کو کسی اچھے عہدے پر دیکھتے ہیں تو وہ ایک ادارےکی طرف سے دیا ہوا عہدہ ہوتا ہے جس کے مطابق آپ اپنی قابلیت سے اس عہدےکو حاصل کرتے ہیں تو ایسا ممکن نہیں کہ آپ ہی ادارے کے مالک ہوں اور آپ اکیلے اس کو چلا رہے ہوں کیوں کہ کسی بھی ادارےکو چلانے کے لیے پوری ٹیم کی ضرورت پڑتی ہے۔پھر ادارےکو چلانے کے لیے ان کی تربیت کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے یہ سب کام انفرادی سطح پر نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر کیے جاتے ہیں۔
اب جب ان سب مثالوں کے باوجود ہم انفرادی سوچ کا رد نہیں کرتے تو ہمارے اندر منفی رویے جنم لیتے ہیں جو ہمیں اپنی ذات تک محدود کر کے معاشرے کے لیے ناسور بنا دیتے ہیں بقول مولانا سندھی ” اگر تم اپنے لیے زندہ ہو تو دوسروں کے لیے ایک زندہ لاش ہو” یہ زندہ لاش پھر اپنے لیے تو فرشتہ بن جائے لیکن دوسروں کے لیے مفید ثابت نہیں ہو گی۔ انفرادی سوچ کے حامل جانور بھی اپنی ذات سے باہر نہیں نکلتے تو اللہ تعالٰی نے ہمیں اشرف المخلوق اور نائب بنایا ہے تو ضرور ہم پر کچھ ذمہ داریاں بھی ڈالی ہوں گی جن میں سے ایک اجتماعی سوچ بھی ہے۔
صرف اپنے آپ کو ٹھیک کرنا مقصد زندگی ہوتا تو وہ صحابہ جن کو جنت کی بشارت دی جا چکی تھی وہ پیٹ پر کبھی پتھر نہ باندھتے اصل میں وہ پتھر کل انسانیت کی فلاح کے لیے باندھے گئے تھے تا کہ پورا معاشرہ جنت بن جائے اور کوئی جنت کی لالچ میں غلط استعمال نہ ہو جائے۔اآج ہمیں اجتماعی شعور اور اجتماعیت کی اصل ضرورت ہے جس کا تاریخی تسلسل درست اور مقصد واضح ہو۔اس حوالے سے حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی کا اس خطہ میں بہت اہم کردار ہے ان کو پڑھنے اور ان کی تعلیمات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔