اس وقت ملک کی مجموعی صورتِ حال تسلی بخش نہیں ہے۔ حکومت جن بلند و بانگ دعووں کے ساتھ آئی تھی، وہ ہنوز شرمندہ تعبیر نہیں ہوئے۔ کاروباری اور ملازمت پیشہ طبقے بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ جس تبدیلی سے وہ اپنے شب و روز بدلنے کی اُمید لگائے بیٹھے تھے، اب وہ سحر ٹوٹتا دکھائی دے رہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر گرد و پیش میں رونما ہونے والے واقعات و حادثات سے حکومت کی اہلیت ظاہر ہو رہی ہے کہ اس کا اس شکستہ حال معاشرے کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنا تو کجا، وہ تو روز مرہ کے امورِ سلطنت میں بھی اپنی ناتجربہ کاری اور بیوروکریسی کی روایتی چالوں کا شکار ہے۔جن لوگوں نے ایک مخصوص شخصیت سے رومانس کی بنیاد پر اپنی توقعات وابستہ کی تھیں اور وہ خود بھی قوم کے سامنے ایک مضبوط اور نظریاتی جماعت کے بجائے ایک لیڈر کی خصوصیات بیان کیا کرتے تھے اور اپنے کئی ایک انٹرویوز میں کہہ چکے ہیں کہ اگر لیڈر ٹھیک ہو تو نیچے لوگ خود بہ خود ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ ان کے ان خیالات کے سبب ان کے حامی کارکن قوموں کی حالت بدلنے کے لےے فرد کے بجائے جماعت کے فلسفے کی ضرورت و افادیت پر غور کرنے کے لےے تیار نہ تھے۔ وہ آج بھی شخصیت کے سحر کی وَجہ سے ان کے دفاع میں اپنی تمام توانائیاں صَرف کرتے نظر آتے ہیں۔
دراصل یہ ہمارا وہ مزاج ہے جو بدقسمتی سے ایک نظرےے کی شکل اختیار کرگیا ہے کہ ہم قوم کے مقدر کو اجتماعیت اور جماعت کے بجائے افراد اور ہیروز سے وابستہ سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وَجہ ہمارے وہ ناول نگار اور تاریخ نویس ہیں، جنھوں نے تاریخ اسلام کی اجتماعی کامیابیوں کو جماعت کے بجائے افراد کی مرہونِ منت سمجھا اور اپنی تحریروں میں اس تصویر کو راسخ کیا کہ جب معاشرے ظلم اور ناانصافی کا شکار ہوتے ہیں تو کوئی ایک شخص ہیرو کی شکل میں نمودار ہوتا ہے اور سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے اور پوری قوم سکھ کا سانس لینے لگ جاتی ہے۔ اس تصور سے ہماری نوجوان نسل ہیرواِزم کا شکار ہوچکی ہے۔ وہ ابتر قومی حالت کی تبدیلی کے لےے خود سے کسی اجتماعی جدوجہد کا حصہ بننے کے بجائے کسی ہیرو کے انتظار میں رہتی ہے۔ اور جیسے ہی قیادت ساز اداروں کے کارخانے سے کوئی لیڈر درآمد کیا جاتا ہے، وہ اندھا دھند ان کے پیچھے دوڑنا شروع کردیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعتوں کا اجتماعی ڈھانچہ باصلاحیت افراد پر کھڑا ہوتا ہے، جس کے ذریعے قوم کو باصلاحیت قیادت میسر آتی ہے، لیکن کسی ایک ہی فرد کی کرشماتی شخصیت کے سبب جماعت کی تاریخی اور سائنسی حقیقت کو نظرانداز کرکے سب کچھ ایک ہی فرد میں مرتکز کردینا خواہ وہ کتنا ہی باصلاحیت ہو، یہ وہ غلطی ہے جس کی شکار ہماری پاکستانی سیاست گزشتہ کئی دہائیوں سے رہی ہے اور ہم بہ حیثیت قوم اس کے نتائج بھی بھگت رہے ہیں۔ فرد کے مقابلے پر جماعت کی اثرپذیری اور ناگزیریت کو ہم آئندہ کسی شذرے کے لےے اٹھا رکھتے ہیں۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور۔ شمارہ فروری 2019ء)