پاکستان کا مطلب کیا ،سے لے کر مدینہ کی ریاست تک کے نعرے ،اور شخصیت کو بت بنا دینے تک کے سفر کا جائزہ لیں تو سیاسی شعور سے محروم جہالت ، گمراہی، بد اخلاقی ، فرقہ پرستی ، انفرادیت اور مایوسی کے اس گڑھے میں گرے عوام کواب یہاں سچ اور سچے لوگ اچھے نہیں لگتے ۔ تقسیم در تقسیم کے نظریے نے ہم سے ہماری اجتماعیت چھین لی مسلم وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے بعد ہمیں انگریز سامراج کی جھولی میں ڈال دیا گیا اس وقت بھی علماء حق نے اس بات کو مسلم کش سازش قرار دیا کہ جو نعرے تم لگا رہے ان سے نہ مسلمان محفوظ ہو گا نہ اسلام لیکن اس وقت بھی علماء حق کی آواز کو نہ سنا گیا، سرمایہ دار و ں اورجاگیر داروں کی جنت کوسامراج کے ہاں گروی رکھ دیا گیا۔
نعرہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ۔۔۔۔۔۔ پرکشش نعرہ اور پاکستان کے پر کشش وسائل و پر کشش محل وقوع جاگیردار و سرمایہ دار اور مغربی طاقتوں کے استعمال میں آئے ۔وسائل لوٹنے سے لے کر خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے تک سب نے اپنا اپنا حصہ بٹورا! آج یہ ارض وطن پاک سر زمین جس غربت و افلاس اور تنگی دہشت گردی کا شکارہے وہ نمونہ عبرت ہے۔
اس ملک کے قائم ہوجانے کے بعد ایک نیا دور شروع ہوتا ہے جس میں جہاد کے نام پر ہم ایک پرائی لڑائی میں کود گئے قوم کے باشعور حلقوں کو یاد ہوگا کہ پاکستان میں ولی اللہی فکر کے امین شاہ سعید احمد رائے پوری نے قوم کی راہنمائی اس وقت بھی جاری رکھی جو علماء کا شیوا ہوتا ہے کہ پرائی جنگ میں ایجنٹ کا رول ادا نہ کرو ورنہ سامراج امن کو تہہ و بالا اور وسائل کو لوٹنے کا وہ عمل شروع کرے گا جس کا روکنا محال ہو گا لیکن اس وقت بھی سچ اور سچے لوگوں کا انکار پہلے کی طرح کر دیا گیالیکن سچ سامنے آ کر ہی رہتا ہے۔چیف آف آرمی سٹاف نے یہ کہہ کر انقلابی کی بصیرت کو سیلوٹ کیا کہ ہم پرائی جنگ کا حصہ رہے جو ہماری سب سے بڑی غلطی تھی۔
وہ مذہبی جماعتیں اب کہاں ہیں جو اس وقت ان کے اوپر غدار و کفر کے فتویٰ لگا رہی تھیں اور ڈالر کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہی تھیں
” اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت” ۔
جس مذہب نے قوم و انسانیت کی راہنمائی کرنی تھی انسانیت کو وحدت کی لڑی میں پرو کر انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں دینا تھا اس مذہب سے شعور کو کاٹ کر قوم کے سامنے پیش کیا گیا۔بے شعور کو استعمال کر کے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا جاتا ہے آج ان مذہبی جماعتوں کو ایک سیٹ جیتنی ہو تو پانچ پانچ جماعتوں کا اتحاد کیا جاتا ہے اور وہ سرمایہ دار بھی پارلیمنٹ میں ثواب کے لیے ایک آدھ دانہ اٹھا لیتے ہیں کہ دعا کے لیے بھی کوئی ہونا چاہیے۔
نعرہ لا الہ الاللہ۔۔۔۔۔۔۔ کا ہو یا ریاست مدینہ کا دونوں اس کے فکر و نظریہ سے نابلدسماجی تشکیل کے نظریہ سے نابلد قرآنی فکر سے نا بلد لیکن دونوں نے مذہب کا ایسا کارڈ کھیلا نہ مذہبی قوم رہی نہ ہی مذہبی جماعتیں اس کا مقابلہ کر سکیں۔ کرپٹ نظام کا مقابلہ شعور کے ساتھ ہی کیا جاتا ہے۔ نبوی حکمت عملی ایک ایسا راستہ ہے جس کی روشنی میں قوم کے نوجوانوں کی ایسی اجتماعیت تیار کرنا کہ حدیث ” میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی اتباع کروگے فلاح پاؤ گے”۔ آج بھی ایسی جماعت کی ضرورت ہے جو تربیت یافتہ ہو شعور و دلیل کے اسلحہ سے لیس ہو اور قیادت نوجوان ہی کے ہاتھ ہو ۔ ولی اللہی فکر ہی اب ایک راستہ ہے۔ فک کل نظام” یعنی تمام بوسیدہ نظاموں کو توڑ دو ایک ایسا عدل کا نظام قائم کیا جائے جس کا مالک ایک عام پاکستانی ہو جس کی بنیاد انسان دوستی اور وحدت انسانیت ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان اپنے آپ کو جھوٹ اور جھوٹے لوگوں سے الگ کر کے اپنی شعوری اجتماعیت کو مضبوط کرکے اپنی ذمہ داری کو سمجھے اپنی اہمیت کو جانے اور حقیقی معنی میں مدینہ کی ریاست کی بنیاد رکھے ہمہ گیر سماجی تبدیلی کا یہی واحد حل ہے۔