یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان آزادی کے فوری بعد نہ صرف دنیا میں موجود دو دھڑوں میں سے سرمایہ دار بلاک کا حصہ بنا، بلکہ اس نے بہ طور سیاسی و معاشی نظام کے کیپٹل اِزم کو ریاست کے نظام کے طور پر اپنا بھی لیا۔ اب یہاں مختلف جماعتوں نے اسلام کے ساتھ اپنے من پسند لاحقے اور سابقے لگا کر اسلام پسند مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا جیسے اسلامی سوشلزم، اسلامی جمہوریت، اسلامی انقلاب، بلکہ ایک دور میں تو مارشل لاء کو بھی اسلامی جواز بخشنے کے لیے ایک فوجی آمر کی تائید کی گئی تھی۔ چناں چہ ایک مدرسے کے شیخ الحدیث نے اسلامی تاریخ میں پہلے مارشل لاء کی نسبت حضرت ابوبکر صدیقؓ کی طرف کی تھی، تاکہ ملک میں موجود فوجی آمریت کے لیے اسلامیانِ پاکستان کے ہاں راستہ ہموار کیا جاسکے۔
موجودہ حکومت نے سابقہ حکمران جماعتوں کی بے پناہ کرپشن کے نتیجے میں پاکستان میں بڑھتے ہوئے معاشی بحران کے آگے بند باندھنے کے لیے جو سخت اقدامات کیے ہیں، وہ ریاست کے وجود کو بچانے کے لیے ضروری تھے، لیکن اس سے یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہیے کہ آج سے ملک سے سرمایہ داری کی جڑکاٹ دی گئی ہے اور دوبارہ اس کے برگ وبار نہیں نکلیں گے۔ جیسا کہ حکومت ایک نئے سلوگن ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کو بڑے تسلسل کے ساتھ استعمال کرکے یہ تأثر دے رہی ہے اور آہستہ آہستہ کچھ مذہبی آوازیں بھی ان کی ہم نوا ہوتی چلی جارہی ہیں اور یوں پاکستانی قوم کے لیے ’’ٹرک کی ایک نئی بتی‘‘ تخلیق کرنے کا عمل جاری ہے۔
پاکستان کی گزشتہ تاریخ سے یہ تلخ حقیقت جاننا بالکل بھی مشکل امر نہیں ہے کہ یہاں یہ ساری تحریکیں ردِ سرمایہ داریت (Anti-capitalistic) کی کسی کوشش کے بغیر چلائی گئی ہیں، بلکہ یہاں تو اسلام کے نام پر اشتراکیت کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں بھی ردِ سرمایہ داریت کا عنصر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا تھا۔ جس سے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ سرمایہ داربلاک اپنے حریف کو شکست دینے کے لیے اسلام کے نام کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا رہا ہے۔
یہاں اسلامی نظام کی تحریک کے دعوے داروں نے کبھی بھی سرمایہ داری کو اپنا ہدف بناکر کوئی ایسی تحریک نہیں چلائی، جس سے جاگیردار اور سرمایہ دار طبقوں کی سیاست و معیشت پر گرفت کمزور ہوجاتی اور عوام کو درپیش اقتصادی و معاشرتی مسائل کو حل کرنے میں مدد ملتی، بلکہ مزعومہ اسلامی انقلاب کے سیاسی داعی نے پچاس کی دہائی میں ’’مسئلہ ملکیتِ زمین‘‘ نامی کتاب میں اپنے مزعومہ خیالات کے مطابق قرآن و سنت سے زمین کی لامحدود ملکیت کے حق کو ناقابلِ تنسیخ قرار دیا تھا، اور یوں مغربی پاکستان میں پائے جانے والے جاگیردار طبقوں کے تحفظ کی خدمت سرانجام دی گئی۔ ملک میں سرمایہ دارانہ نظام کی موجودگی میں اس نظام کے ساتھ اسلام کی کسی بھی نام سے پیوند کاری محض ایک فریب ہے، چاہے وہ ریاست کی آڑ میں حکمران طبقہ کرے یا کوئی نام نہاد اسلامی دانشور۔ جیسے ماضی میں یہاں اسلام کے نام سے دھوکہ دیا جاتا رہا ہے، اب ایک نئے نام ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کے نام سے لوگوں کو بہلایا جائے گا۔ اس حوالے سے اس مغالطے کو دور کرلینا انتہائی اہم ہے کہ سرمایہ داری کی کسی شکل کو اسلام میں قبولیت کا راستہ دیا جاسکتا ہے۔
ولی اللّٰہی فکرسرمایہ داری کو کسی بھی شکل میں قبول نہیں کرتا اور اس کے مفکرین کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے فکر میں بالکل واضح ہیں۔ یہی وَجہ ہے کہ ولی اللّٰہی فکر اپنے طالبِ علموں کو کہیں بھی فکری تلبیس اور نظریاتی دھوکے کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ اسلام کی اجتماعی حکومت کا نظریہ ہو، یا ریاستِ مدینہ کا نظام، ولی اللّٰہی لٹریچر میں اس پر دو ٹوک رہنمائی موجود ہے کہ وہ کن اصول و مبادی پر قائم ہوتا ہے اور اس کی بنیادی روح اور پیغام کیا ہے۔
چناں چہ امام عبیداللہ سندھیؒ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نبوت سے تحریکِ حنیفیت کے جن بنیادی اصولوں کی نشان دہی کرتے ہیں، ان میں توحید یعنی ایک خدا کی عبادت اور سرمایہ شکنی (Anti-capitalist) ہے۔ وہ ان اصولوں کو انسانیت کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ وہ قرآن کو سرمایہ شکن نظریے کی حامل کتاب قراردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: ’’اب جب کہ دنیا کے کسی خطے میں بھی سرمایہ شکن خدا پرست طاقت برسرِ اقتدار نہیں ہے، ضروری ہے اور انسانیت کاطبعی تقاضا ہے کہ سرمایہ شکنی اور خدا پرستی کے مجموعی پروگرام پر انقلاب برپا ہو۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ: ’’قرآن حکیم جس انقلاب کی طرف دعوت دیتا ہے، وہ ساری انسانی نوع کے لیے مفید ہے۔ اورآج بھی جب انسانی سوسائٹی رأسمالی (Capitalist) اور غیر رأسمالی (Anti-capitalist) کیمپوں میں بٹی ہوئی ہے، قرآن کریم ہی کی تعلیم صحیح معاشیات پیدا کر کے پائیدار امن پیدا کرسکتی ہے، تاکہ اسلام کا مکمل نظام دنیا میں نافذ ہو۔‘‘
وہ حکومت و نظام کی دو بنیادیں واضح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ: ’’حکمتِ ولی اللّٰہی کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اجتماعی (Social) ہوگی اور مشورے سے کام کرے گی۔ اور غیر رأسمالی (Anti-capitalist) ہوگی اور لوگوں کو اس بات کی ہرگز اجازت نہ دی جائے گی کہ وہ دوبارہ رأسمالیت یا سرمایہ داری (Capitalism) پیدا کرلیں۔‘‘ کسی بھی دور میں سرمایہ داری سے اسلامی فکر کو محفوظ رکھنے کی حکمتِ عملی بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے کہ: ’’دوسرے درجے کا قانون (Law) مکمل کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ جب حکومت دیکھے کہ لوگوں نے قانون کی صورت قائم رکھتے ہوئے رأسمالیت یا سرمایہ داری (Capitalism) پیدا کرنی شروع کر دی ہے تو وہ نیا سرمایہ شکن (Anti-capitalist) قانون بنا دے۔‘‘ (اقتباسات از قرآنی شعورِ انقلاب)
پاکستان میں ریاستِ مدینہ کے نظام کو اپنانے کا لازمی نتیجہ سرمایہ داری سے نجات ہونا چاہیے۔ سرمایہ داری کا بُت توڑے بغیر یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ ریاستِ مدینہ اور اسلام کی اجتماعی حکومت کی سب سے نمایاں خوبی ردِ سرمایہ داریت ہے۔ اگر یہ ہے تو ٹھیک ع
گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور۔ شمارہ جنوری 2019ء)