۲۰۰۹ میں جب فیس بک جائن کیا اپنی فیسبکی مصروفیات کا ریکارڈ رکھنے کے لیئے اپنے فیس بک کو XMAPP سرور پر چلا رہا ہوں اس میں مجھے یہ سہولت رہتی ہے کہ میری ساری فیس بک ایکٹیویٹی ڈیٹا بیس میں ریکارڈ ہوتی رہتی ہے میری پوسٹس ان پر آنے والے کومنٹس اور چنیدہ دوستوں کی پوسٹیں. ساتھ میں پچھلے گیارہ سال کی میسنجر چیٹ بھی.کچھ دوسرے سخن ہائے نا گفتنی بھی ہیں مگر خوف فساد خلق کے باعث اس کا تذکرہ نہیں کرتا میرے پاس تقریبا سولہ GB ریکارڈ جمع ہو چکا ہے
پچھلے کئی روز سے دیکھ رہا ہوں میرے جو دوست ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کو بدری صحابہ کے برابر مقام دیتے نہیں تھکتے تھے وہ آج کل پشتون قوم پرست بنے ہوئے ہیں ستم ظریفی یہ کہ وہ جو اسلامسٹ کہلوانے پر فخر محسوس کر رہے تھے آج ایک “ملحد اخون زادے” کو اپنا قبلہ و کعبہ اور عقل کل سمجھ رہے ہیں ان کی فکری قلابازی دیکھ کر آج ڈیٹا بیس سرچ کیا تو ان کی ایسی ایسی شاھکار پوسٹیں اور کومنٹس پڑھےکہ غش کھاتے کھاتے بچا ہوں
ایسے ہی فکری نابالغ اور جذباتی مریض ہر انقلابی نعرے پر لبیک کہہ کر اس کی گندگی کو اپنے چہرے پر ملتے رہے ہیں. پھر جب کوئی دوسرا نعرہ فیشن بن جائے تو اس کے پیچھے ہو لیتے ہیں۔
قوم پرستوں کی اس بیچارگی کی شدت افغانستان میں محترم اشرف غنی اور بھارت کی پوزیشن سے مربوط ہے انہیں اب یہ فکر لاحق ہے کہ اگر اشرف غنی اور بھارت کا ہاتھ سر پر نہیں رہا تو ان کا کیا بنے گا ۔اب یہ لوگ محترم اشرف غنی کے چرنوں میں بیٹھ کر جو دلدوز و جگر سوز دہائیاں دے رہے ہیں اس پر سینہ شق ہوتا ہے مگر جب کمپیوٹر آن کرکے ان کا سابقہ ریکارڈ دیکھتا ہوں تو سر پیٹنے کو جی کرتا ہے۔