گزشتہ دنوں وزیر اعظم نے اپنے منصوبے ’احساس آمدن پروگرام‘ کا باقاعدہ لیہ شہر سے افتتاح کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس پروگرام کے ذریعے غربت پر قابو پا لیا جائے گا۔ اور یہ کہ احساس پروگرام غریبوں کی محرومیوں کے خاتمے کا آغاز ہے۔
جیسا کہ ہر باشعور پاکستانی جانتا ہے کہ یہ پروگرام اپنی نوعیت میں کوئی منفرد پروگرام نہیں ہے۔ اس سے قبل پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے والی ہر جماعت نے اپنی حکومت قائم ہوجانے کے بعد غریبوں کو نام نہاد سپورٹ کرنے کے اس طرح کے پروگرام لانچ کیے، لیکن اصل بات غربت جیسے موذی مرض کا کامیاب علاج تلاش کرنا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ان عارضی بیساکھیوں کے ذریعے سے پاکستان کی معیشت کو درپیش چیلنجز کو مستقل طورپر حل کیا جا سکا ہے؟ پاکستان کی تاریخ تویہ بتاتی ہے کہ ان مہنگے منصوبوں سے یہ چیلنجز مزید گہرے ہوتے چلے گئے ہیں۔ پھر ہر نئی آنے والی حکومت گزشتہ حکومت کے اس طرح کے منصوبوں میں بے ضابطگیوں اور کرپشن کی نشان دہی کرتی رہی ہیں۔ جیساکہ موجودہ حکومت گزشتہ حکومت کے غربت کے خاتمے یا عوامی بہبود کے منصوبوں میں وسیع پیمانے پرہونے والے فراڈ کی نشان دہی کر چکی ہے۔
اس طرح کے پروگراموں کو ہر حکومت کو میسر آنے والے معاشی بقراط بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے رہے ہیں۔ وہ پاکستانی معیشت کو لاحق سارے امراض کا واحد حل اسی طرح کے عارضی اور وقتی منصوبوں کو قرار دیتے رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے معاشی صلاح کار بھی چند ایک ہی ہیں، جو نئی حکومت کو قرضوں کے ساتھ ہی وراثت میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ حکومت بدلنے کے ساتھ ہی وہ بھی اپنی وفاداریاں بدل لیتے ہیں اور ہر حکومتِ وقت کی معاشی پالیسیاں انھیں کی مرہونِ منت ہوتی ہیں۔ یہ لوگ حکومت اور پاکستان سے زیادہ عالمی مالیاتی اداروں کے طرف دار ہوتے ہیں۔ ہمارے یہ معاشی منتظمین، جو دراصل عالمی مالیاتی اداروں کے مالیاتی وائسرائے کا کردار ادا کررہے ہوتے ہیں، ہماری ہر حکومت کو آئی ایم ایف کے دورازے پر لے جاتے ہیں۔ ان کے ہاں معیشت کو مضبوط کرنے کا واحد ذریعہ قرض کی معیشت ہوتی ہے۔ یہ حکومتوں کو قرض کی ایسی لت ڈال دیتے ہیں کہ ہر آنے والی حکومت اپنی پیش رو حکومت سے کسی اَور میدان میں سبقت لے جائے یا نہ لے جائے، لیکن قرضوں کے معاملے میں ضرور سبقت لے جانے کی کوشش کرتی ہے۔ ہمارے ان معاشی بقراطوں نے ہمیشہ حکومت کی اُنگلی پکڑ کر آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دی ہے۔ انھوں نے حکومتوں کو قرضوں کی پالیسیوں میں ایسا پھنسایا ہے کہ اب یہ جال ہماری ریاست کے چاروں طرف بُنا جا چکا ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1988ء سے لے کر 2009ء تک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تمام گورنر اس عہدے پر فائز ہونے سے پہلے آئی ایم ایف کے کل وقتی ملازم اور مشیر رہ چکے ہیں۔ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ ان میں سے تین گورنرز نے تو آئی ایم ایف میں بڑی بڑی تنخواہوں والے عہدے چھوڑ کر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کا عہدہ قبول کیا۔ درحقیقت آئی ایم ایف کے منصوبہ سازوں اور چھوٹے ممالک میں پائے جانے والے ان بقراطوں کے آپس میں گہرے تعلقات ہوتے ہیں۔ کیوںکہ یہ لوگ انھی عالمی مالیاتی اداروں کے تیار کردہ اور ان کے اہداف پر کام کررہے ہوتے ہیں۔ یہ تیسری دنیا کے ممالک کی مالی اور اقتصادی پالیسیوں پر اس طرح سے اثرانداز ہوتے ہیں کہ ان ملکوں کی معیشت اور مالی نظام کو یہ عالمی مالیاتی اداروں کے معاشی مفادات کے مطابق ڈھالنے کا کام کرتے ہیں۔
آئی ایم ایف تیسری دنیا کے ممالک میں معیشت کی بحالی کا جو نسخہ تجویز کرتا ہے، وہ دراصل اس ملک کے معاشی بحران کے خاتمے کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ وہ اس ملک کے معاشی وسائل کو نچوڑنے اوراس کی آمدن پر اپنی گرفت کو مزید مضبوط کر نے کے لیے ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف جیسے عالمی ساہوکاروں کوعوام کی تکلیف اور مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، بلکہ ان کو اپنے سود سے غرض ہوتی ہے۔ بلکہ المیہ یہ ہے کہ یہ جدید دور کے عالمی ساہوکار نہ صرف اپنے سود ہی سے دلچسپی رکھتے ہیں، بلکہ یہ اپنے قرض خواہ ممالک کو ڈکٹیشن بھی دیتے ہیں اور قرض دار ملک کی عوام کی چمڑی اُدھیڑنے، ٹیکسوں اور بلز میں اضافے اور ٹیکسوں کی وصولی کے جدید ترین نظام بھی بنا کر دیتے ہیں۔ جن ملکوں نے بھی آئی ایم ایف سے قرض لیا، وہ اس کے چنگل میں پھنس چکے ہیں۔ کیوںکہ وہ سود در سود کے جال میں ایسا پھنس جاتے ہیں کہ آئی ایم ایف انھیں جتنا قرضہ فراہم کرتا ہے، اس سے بہ مشکل وہ اپنے پہلے بیرونی قرضوں کی اقساط ادا کرپاتے ہیں۔ ایشیا کے بہت سے ممالک اپنے اخراجات پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے قرضہ لیتے لیتے نہ صرف مقروض ہو چکے ہیں، بلکہ وہ اپنی خودمختاری بھی داؤ پر لگا چکے ہیں۔ پاکستان 1950ء میں آئی ایم ایف کا رُکن بنا۔ اس وقت سے پاکستان کی معیشت اور اس کی پالیسیاں مکمل طور پر آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں میں آئی ایم ایف نے پاکستان میں موجود اسی طبقے کے ذریعے سے _ جو ہر حکومت کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے مشاورت فراہم کرتا ہے _ یہاں کے بنیادی معاشی ڈھانچے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ ہماری تجارت، بینک، معاشی ادارے اور صنعتی ڈھانچہ مکمل طور پر آئی ایم ایف کے معاشی مفادات کے مطابق ڈھل چکا ہے۔ اب اس سے آزادی کے لیے کسی بڑے فیصلے کی ضرورت ہے، جو ہماری ان حکومتوں کے بس کا روگ نہیں۔ اس کے بغیرآئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنا دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ نہیں۔
موجودہ حکومت کے وزیراعظم سابقہ حکومتوں کے خلاف اپنے دھرنوں میں آئی ایم ایف کے خلاف بہت تقریریں کیا کرتے تھے، لیکن بالآخر ان کے معاشی بقراطوں نے انھیں آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے گھیرہی لیا۔ موجودہ حکومت اب تک اِس سے 6.73 بلین ڈالرز قرضہ لے چکی ہے اور قرضوں کی معیشت سے وہ ملک کو خوش حال بنانے کے خواب بھی دیکھ رہی ہے۔ بہ قول غالب ؎
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور، مارچ 2020ء)