گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی جماعت کے امیر نے یہ انکشاف کرکے کہ ’’افغان جہاد امریکا اور مغرب کی خواہش پر ہوا تھا۔ ‘‘ ایک طرح سے انھوں نے نہ صرف اعترافِ جرم کر لیا ہے، بلکہ تاریخ کے بہت سے سوالات بھی حل کردیے ہیں۔ وہ یوں گویا ہوئے: ’’نوجوانوں کو جہاد کی طرف لے جانا، اس کی ترغیبات دینا، افغان جہاد کے دوران امریکا اور مغرب کی خواہشات پر ہوا تھا۔ وہ اپنے مفادات کے لیے جہاد کے نام پر مذہبی طبقے کی قربانیاں چاہ رہے تھے، جس سے ہمارے مدارس میں یہ رُجحان بڑھا۔ مدارس نے کنٹرول کیا ہے اب۔ جمعیت علمائے اسلام نے اس کو کنٹرول کیا۔ اس حلقے کو پاکستان کے ساتھ وابستہ رکھنے، قانون اور آئین کے ساتھ وابستہ رکھنے، جمہوریت کے ساتھ وابستہ رکھنے میں ہمیں 15-16 سال لگانے پڑے ہیں۔ ہماری محنت ہے۔ اور اگر کوئی بندوق والا ہے بھی تو، ذرا وقت ہے، تھوڑا انتظار کیجیے۔ یہ بھی تاریخ آپ کو واضح طور پر بتا دے گی کہ پاکستان میں طالبانائزیشن، اسلحے کی طرف رغبت دینا، اس کے پیچھے مدرسہ تھا یا ہماری اسٹیبلشمنٹ تھی؟ یہ وقت بتائے گا۔ میں ابھی کسی پر الزام نہیں لگاتا، لیکن آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ذرا تھوڑا سا انتظار کریں، حالات خود تصدیق کریں گے کہ اس کا محرک کون تھا؟ کیا مقاصد تھے ان کے؟ کیا وہ achieve (حاصل) کرنا چاہتے تھے؟ یہ سب آنے والے حالات میں چمکتے ہوئے روشن پانی کی طرح واضح ہوجائے گا۔‘‘ (پریس کانفرنس، بتاریخ 16؍ جنوری 2020ء، بمقام جامعہ اسلامیہ، کشمیر روڈ، راولپنڈی)
تاریخ‘ جرائم اور کارناموں‘ دونوں کے ریکارڈ کو محفوظ رکھتی ہے۔ پھر وہ اپنے ریکارڈ کا تعاقب بھی کرتی ہے۔ بہت قریب کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب ملک میں ’’جہاد‘‘ کے بارے میں موسم خوش گوار بنایا گیا تھا تو یہی طبقہ اپنے جہادی کارناموں کو قوم کے سامنے بڑے فخر سے پیش کیا کرتا تھا۔ اسی جماعت کے ترجمان پرچے کا یہ حوالہ تاریخ میں آج بھی محفوظ ہے۔ملاحظہ ہو: ’’افغانستان میں سب سے پہلے جہاد کا فتویٰ مولانا مفتی محمود نے دیا تھا۔ یہ فتویٰ انھوں نے اکتوبر 1979ء میں دیا تھا اور اپنی علالت کے باعث بڑے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن کو جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں منعقدہ علما کے جرگے میں بھجوا کر وہاں افغانستان میں جہاد و مزاحمت اور ہجرت کے باقاعدہ شرعی جواز کا اعلان کیا گیا تھا۔‘‘ (ماہنامہ ’’الجمعیۃ‘‘ راولپنڈی، اکتوبر 1999ء)
علاوہ ازیں قاری محمد عثمان ناظمِ اطلاعات جمعیت علمائے اسلام صوبہ سندھ، افغانستان کے ایک سفر کی رپورٹ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’امیر موصوف جب افغانستان کی سپریم کونسل کے سربراہ ملا محمد ربانی کے انتقال پر 50 سے زائد مرکزی و صوبائی عہدے داران کے ساتھ ملا محمدعمر سے تعزیت کے لیے 28؍ اپریل 2001ء کو کراچی سے قندھار گئے۔ قندھار پہنچنے پر ملاعمر نے اس وفد سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’جمعیت علمائے اسلام ہی جہادِ افغانستان کی بنیاد اور پشتیبان رہی ہے۔ قائد ِجمعیت، مفکر ِاسلام، حضرت مولانا، مفتی محمود نے سب سے پہلے جہادِ افغانستان کا تاریخ ساز فتویٰ دیا تھا، جس کی بنیاد پر افغانستان میں جہاد شروع ہوا اور اسلامی اَمارت میں عالمِ اسلام کے اس مفتیٔ اعظم کے تاریخ ساز فتویٰ کی برکت سے اسلام نافذ ہے۔ اور عالمی دیوبند کانفرنس سے طالبان کا آفاقی اور جہادی پیغام بھی عالمی سطح پر پہنچانے کا اعزاز بھی فرزند ِمحمود مولانا فضل الرحمن کو حاصل ہوا۔‘‘ بعد ازاں قندھار میں جمعیت علمائے اسلام کے ویلفیئر پروگرام کے سیکرٹریٹ میں خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا: ’’جہادِ افغانستان کا پہلا تاریخی فتویٰ قائد ِجمعیت مولانا مفتی محمود نے دیا تھا۔ آج جمعیت علمائے اسلام امارتِ اسلامی افغانستان کا ہاتھ بٹا رہی ہے۔‘‘ (سفر افغانستان کی رپورٹ، ’’الجمعیۃ‘‘، ص: 14,15,16، جون 2001ء)
یہ ایک بہت ہی شرم ناک تاریخی حقیقت ہے کہ یہ سب کچھ اسلام کی ضرورت نہیں، بلکہ سرد جنگ میں اپنے حریف کو ہرانے کے لیے وقت کے طاغوت اور سامراج کی ضرورت تھی، جس سے ذیل کے دو بیانات پردہ سِرکاتے ہیں اور یہ بھی تاریخی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے اعتراف کیا ہے کہ:
“Let’s remember here… the people we are fighting today we funded them twenty years ago… let’s go recruit these mujahideen. And great, let them come from Saudi Arabia and other countries, importing their Wahabi brand of Islam so that we can go beat the Soviet Union.”
https://www.globalresearch.ca/hillary-clinton-we-created-al-qaeda/5337222
(ہمیں یہاں یاد رکھنا ہے ۔۔۔ آج ہم جن لوگوں سے لڑ رہے ہیں، ہم نے انھیں بیس سال پہلے مالی اعانت فراہم کی تھی۔۔۔ جائیں اور ان مجاہدین کو بھرتی کریں۔ ۔۔۔ اور بہت اچھا ہے کہ انھیں سعودی عرب اور دوسرے ممالک سے آنے دیں، تاکہ یہاں وہابی برانڈ اسلام درآمد کریں، تاکہ ہم سوویت یونین کو شکست دے سکیں۔) سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 29مارچ 2018ء کو واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’سرد جنگ کے دور میں مغرب کی درخواست پر سعودی عرب نے دنیا بھر میں شدت پسند اسلام پھیلانے کے لیے فنڈز فراہم کیے، تاکہ سوویت یونین کا مقابلہ کیا جا سکے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ: ’’سعودی عرب کے مغربی اتحادیوں نے سرد جنگ کے دور میں درخواست کی تھی کہ مختلف ملکوں میں مساجد اور مدارس کی تعمیر میں سرمایہ لگایا جائے، تاکہ سوویت یونین کی جانب سے مسلم ممالک تک رسائی کو روکا جا سکے۔‘‘
سرد جنگ کے آغاز کی دہائی میں ایسے سرمائے سے پوری ایک معیشت وجود میں آگئی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس جنگ سے فائدہ اٹھانے والے طبقے کے ہاں ڈالروں کی ریل پیل شروع ہوگئی۔ مذہب کے نام پر فساد کروانے والے طبقے برسرِ روزگار ہوگئے۔ جہادی جلسے، تقریریں، کانفرنسیں، کتابیں اور لٹریچر سرِعام چھپنے اور فروخت ہونے لگے۔ گویا پورے دین کی تعبیر جہاد اور جنگ و جدل کے گرد گھومنے لگی۔
اس فنڈنگ نے دینی مدارس اور سادہ طرز علما کی طرز ِمعاشرت تک بدل کر رکھ دی۔ مدارس اور مسجدوں کی سادہ عمارات‘ بلند و بالا پلازوں میں تبدیل ہوگئیں۔ پجارو، لینڈکروزرز مسلح افراد کے جھرمٹ میں مذہبی قائدین کو لیے قومی شاہ راہوں پر سرپٹ دوڑتی نظر آتیں۔ یہ سب کچھ دین کی برکت نہیں، بلکہ سامراج کی نظرِ کرم کا نتیجہ تھی۔ آج وقت کی دھول چھٹنے کے بعد سب کچھ نظر آنے لگا ہے تو یہ شرمندہ ہوکر قوم سے اس جرم پر معافی مانگنے کے بجائے اپنے پرانے حلیفوں اور موجودہ حریفوں کو دھمکانے کے لیے راز فاش کرنے کی غرض سے یہ بیانات داغنے لگے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان بیانات و اعترافات کی روشنی میں اس گنگا میں نہانے والوں کے بھی اثاثوں کا حساب ہونا چاہیے کہ اس ’’جہاد‘‘ میں ان کے اپنے خاندان کا تو کوئی نوجوان جان سے نہیں گیا، لیکن غریب نوجوانوں کے خون کو ڈالروں کے عوض بیچا گیا، اس کا اس دنیا میں بھی حساب ضروری ہے، تاکہ اس ناحق دولت کی لائی مزید کسی مصیبت سے قوم محفوظ رہ سکے۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ فروری 2020ء)