جنوری 2020ء میں ہم اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آخری سال میں داخل ہوچکے ہیں۔ نیا سال تاریخ کے دروازے پر دستک دے چکا ہے۔ جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے ہم زندگی کی دوڑ میں دنیا سے پیچھے رہتے جا رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ دنیا کے معاشرے لاقانونیت سے قانون کی پاسداری اور بہتر سولائزیشن کی طرف بڑھے ہیں، لیکن ہمارا سفر اَبھی بھی ترقیٔ معکوس کی طرف جاری ہے۔ ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے باہم دست وگریباں ہیں۔ ہمارے قومی ادارے ایک دوسرے کے سامنے تنے کھڑے اور خوف ناک تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ہر ادارہ اور طبقہ اصولوں سے ماورا اپنے ادارے اور طبقے کے لیے قبائلی دور کی عصبیت کا شکار ہے، جس کا وہ برملا اظہار بھی کررہا ہے اور بڑے فخرسے ان کی قربانیوں اور کارکردگی پر تقریریں اور بیانات داغے جارہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ طبقے اور مقتدر ادارے اتنے ہی پروفیشنل اور اپنی حدود کے پابند رہے ہیں تو پھر ملک اور معاشرے کے بگاڑ کا سبب کس ملک کے پروفیشنلز اور اداروں کو ٹھہرایا جائے؟
ایسی صورتِ حال میں ملک کی روایتی سیاست میں نہ تو کوئی قومی جماعت ہے اور نہ ہی کوئی ایسا قومی بیانیہ ہے، جو معاشرے کی ابتر حالت کو سدھارنے کی طرف قوم کی رہنمائی کرسکے۔ گزشتہ تیس سال سے سیاست کے قومی اُفق پر قابض رہنے والی اور عسکری اداروں کے کندھوں پر بیٹھ کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والی ایک سیاسی جماعت نے اقتدار کا لولی پاپ چھن جانے کے بعد قوم کو ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے سے سول بالادستی کا خواب دکھایا تھا۔ قوم سے کہا گیا تھا کہ ہم ’’نظریاتی‘‘ ہوگئے ہیں اور سول بالادستی کے لیے جدو جہد کریں گے، لیکن وہ ہمیشہ کی طرح ایک جھوٹا اور جعلی پلان ثابت ہوا۔ وہ قوم کو تنہا چھوڑکرعلاج کے بہانے ملک سے فرار ہوگئے۔ باقی رہ جانے والوں نے باہر جانے کے لیے عدالتوں میں درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ جنھوں نے اقتدار کی خاطر ووٹ کی عزت کو پامال کیا ہو، وہ ووٹ کو کیسے عزت دلواسکتے ہیں؟ ایسے لوگ ووٹ کی عزت کے لیے جدجہد نہیں کیاکرتے ہیں، بلکہ راہِ فرار کے لیے پھر سے ووٹ کی عزت برباد کیاکرتے ہیں، جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں۔
دوسری طرف وفاق کی علامت ہونے کی دعوے دار پارٹی اپنی کرپشن کے حیران کن طریقوں کے باعث عوام کے غیض و غضب کا شکار ہوکر ملک کے ایک کونے تک محدود ہوچکی ہے۔ وہ کوئی کارکردگی دکھانے کے بجائے صرف اپنے ’’شہیدوں‘‘ کا واویلا کرتے کرتے ’’شہیدوں‘‘ کی مجاور پارٹی بن چکی ہے۔ سیاست میں مذہب کے نام پر موجود قیادت کا اس سے بھی عجب تر حال ہے کہ دھرنے کو ساری بیماریوں کا علاج گرداننے والے بتائیں کہ دھرنے کے بعد قوم کے روگوں کا مداوا کیوں نہ ہوا؟ یا پھر انھوں نے قوم کو سچی بات کیوں نہ بتائی کہ معاشرے اور ملک دھرنوں سے ترقی نہیں کرتے۔ پڑوسی ملک کی شدت پسند قیادت نے جس طرح سے اپنے ملک کے مسلم عوام اور کشمیریوں کو اپنی دہشت اور جبر کا نشانہ بنارکھا ہے، اس کا کامیاب مقابلہ سفارتی محاذ پر ہونا چاہیے، لیکن ایک مذہبی حلقے کے امیر‘ حکومت کو جہاد کااعلان کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ وہ بھی بتادیں کہ پڑوسی ملک سے جنگ لڑکر آپ کیسے اپنے معاشرے کی بدحالی اور بگاڑ پر قابو پائیں گے؟
جب دنیا ترقی و خوش حالی کے لیے جنگوں پر قابو پانے کے طریقوں پر غور و فکر کرکے امن اور خیر سگالی کے راستے تلاش کررہی ہو، ایسے دور میں قوم کے ذہنوں میں مذہب کے نام پر جنگوں کے بیج بونا ذ ہنی افلاس کے سوا کیا کہلا سکتا ہے؟ جس ملک کی دینی پارٹیوں کے شعور کا یہ عالم ہو کہ وہ اپنے معاشرے کے مسائل کاشعور اور ان کے حل کا اِدراک ہی نہ رکھتی ہوں، ایسے لوگوں کے ساتھ دینی بنیادوں پر جدو جہد کے کیا معنی ہوں گے؟
حکومتی پارٹی نے پاکستانی سیاست کے حسبِ روایت خوش نما وعدوں سے عوام کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا توعوام نے گزشتہ 20 سال سے مخصوص جماعتوں کی جاری سیاسی ڈکٹیٹرشپ اور اجارہ داری کے خلاف ووٹ دے کر انھیں کامیاب کیا۔ لیکن انھوں نے جس فرسودہ سیاست کے خلاف اعلان کیا تھا، وہ اسی کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔ گویا وہ بھی ’’ہر چہ در کان نمک رفت، نمک شد‘‘ کا مصداق ٹھہرے ہیں۔
پاکستان کے موجودہ ماحول میں سب سے سنجیدہ ترین سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتِ حال میں آخرکار راہِ عمل کیا ہے؟ کیوں کہ گزشتہ پون صدی میں یہاں جمہوریت، مارشل لا سمیت سبھی تجربات کرلیے گئے ہیں۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں؛ عدلیہ، فوج اور پارلیمنٹ کا کردار بھی ہمارے سامنے ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ اس وقت درپیش صورتِ حال اور اس کی اصل نوعیت کو سمجھنا سب سے اہم امر ہے، تاکہ موجودہ کشمکش میں کسی نعرے اور بڑھک کے‘ دھوکے سے بچا جاسکے۔ کیوں کہ بحرانوں اور تصادم کی فضا میں باہم مزاحم اور متصادم فریقوں کے بیانات اور نعرے سب سے زیادہ گمراہ کن ہوتے ہیں۔ وہ قوم کے لیے کسی بھی نئی سوچ اور راہِ عمل متعین کرنے کے راستے کا سب سے بھاری پتھر ہوتے ہیں۔
اس وقت ہم چکی کے دوپاٹوں میں پِس رہے ہیں؛ ایک طرف قوم بے رحم نظام کے شکنجے میں ہے اور دوسری طرف پاکستانی سیاست کا یہ عہدمخلص، باشعور قیادت اور درست نظریے کے بحران کا شکار ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک قومی درد رکھنے والا انسان ’’نہ جائے رفتن، نہ پائے ماندن‘‘ کی سی صورتِ حال سے دوچار ہے۔
ایسے میں قوم کی اجتماعی حالت کے حوالے سے فکرمند طبقے پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اوّل وہ عدلِ اجتماعی کے جامع نظریے کا شعوری علم حاصل کرے اور اس کے مطابق مطلوبہ سماجی و اَخلاقی تربیت کے حصول کا اہتمام کرے۔ ثانیاً تربیت یافتہ اجتماعیت قوم میں شعوری بیداری پیدا کرکے درست نظریے اور خطوط پر رہنمائی کرے، تاکہ اس جان لیوا نظام کے قلع قمع کی راہ ہموار ہو۔ اس کے سوا کوئی اَور حل نظر نہیں آتا۔ یہی راستہ ہمارے مسائل کا پائیدار حل ہے، جو مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور ۔ جنوری 2020ء)