وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کرنے والے اپوزیشن جماعتوں کے کچھ لوگ ایک مذہبی نیم سیاسی جماعت کی قیادت میں 27؍ اکتوبر 2019ء کو کراچی سے روانہ ہوئے تھے۔ جوسندھ اور پنجاب کے مختلف شہروں اور قصبوں سے ہوتے ہوئے 31؍ اکتوبر 2019ء کو جی ٹی روڈ کے راستے اسلام آباد پہنچے۔ 2014ء میں وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنے کو غیر آئینی قرار دینے والے اس مجمعے کو یہاں تک لانے والوں نے استعفے سے کم کسی بھی چیز پر راضی ہونے سے انکار کرتے ہوئے وزیراعظم کے استعفے کا اصرار جاری رکھا۔ پھر اچانک 13؍ نومبر کو وزیراعظم کا استعفیٰ لینے میں ناکامی کے بعد اسلام آباد میں تیرہ دنوں سے جاری دھرنا ختم کر کے پلان بی اور سی پر عمل شروع کردیا۔ اور اب APC (کل جماعتی کانفرنس) کی طرف چلے گئے۔ دھرنے سے متعلق یہ کوئی پہلا منظر نامہ نہیں تھا، بلکہ ہمارا ماضی اس طرح کے سیاسی داؤ پیچ سے بھرا پڑا ہے۔
یہاں پر تھوڑی دیر ٹھہر کر سوچنے کا مقام ہے کہ آخر پاکستان کی سیاست میں یہ پُتلی تماشے کیوں ہوتے ہیں؟ عوام اور کارکنوں کو خواب بیچے جاتے ہیں۔ انھیں یہ باور کروایا جاتا ہے کہ اب کی بار انقلاب ان کی دہلیز پر آچکا ہے۔ ان کے جذبے اور ولولے بیدار کیے جاتے ہیں۔ انھیں جلسوں اور دھرنوں میں بلا کر متحرک کیا جاتا ہے۔ ان سے قربانیاں مانگی جاتی ہیں۔ ان کو سر دھڑ کی بازی لگانے کو کہا جاتا ہے، لیکن پھر اچانک فیصلے بدل دیے جاتے ہیں کہ ع
انشا جی اٹھو اب کوچ کرو ، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
آپ اگر پاکستان میں احتجاج اور دھرنوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں، اس کے اسٹیجوں پر ہونے والی دھواں دھار تقریروں اور شعلے اُگلتے ’’قائدین‘‘ کے بیانات کو ذہن میں لائیں تو یہ حقیقت اُبھر کر سامنے آجاتی ہے کہ ان بیانات کا عوام کے مفاد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کیوں کہ یہ دھرنے نہ عوام کے مشورے اور مفاد کے لیے منظم کیے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کی مشاورت اور خواہش پر ختم ہوتے ہیں۔ یہ صرف سودے بازی کے لیے ہوتے ہیں۔ جب سودا طے ہوگیا تو نام نہاد قیادت یک طرفہ فیصلے سے ہجوم کو منتشر ہونے کے آرڈر کردیتی ہے۔ سٹیج کے سامنے بیٹھے ہجوم کے دماغ سٹیج پر بیٹھے چند افراد کی مٹھی میں ہوتے ہیں، جو اُن کو کٹھ پتلیوں کی طرح نچاتے ہیں۔ جماعتوں میں فیصلے جماعت کے اداروں کے بجائے شخصیات دوسری جماعتوں کی قیادت سے اپنے شخصی تعلقات کی بنیاد پر کرتی ہیں۔
ہمارا قومی المیہ ہی یہ ہے کہ ہمارے ہاں آج تک کوئی ایسی قومی سیاسی پارٹی وجود میں نہیں آسکی، جو اپنے اندرونی نظام کے باعث اتنی مضبوط ہو کہ وہ قومی مفاد کے فیصلے بیرونی پریشر اور نظام کے سٹیک ہولڈرز (نظام میں مشترکہ مفادات کی حامل قوتوں) کے دباؤ کے بجائے اپنی پارٹی پالیٹکس کی بنیاد پر پارٹی کے اندرونی اداروں کی مشاورت کے نظام کے تحت کرتی ہو۔ یہاں پارٹیاں چند سرکردہ افراد کی خواہشات اوران کے انفرادی شعور کی اسیر ہوتی ہیں۔ وہ اپنے کارکنوں کو اس قابل نہیں سمجھتیں کہ عام کارکنوں کے اجتماعی شعور سے پارٹی کا اندرونی نظام منظم کریں۔ ان کے ادارے اتنے مضبوط ہوں کہ وہ باہر کے کسی بھی دباؤ کا مقابلہ کرسکیں۔ بلکہ جماعتوں پر مسلط طبقہ صلاحیت و استعداد کے بجائے نیچے سے جی حضوری کے خوگر افراد کو تلاش کرتا ہے۔ پھر اپنے من پسند افراد پر مشتمل جماعتی اداروں میں بھرتی کرکے جعلی طور پر جماعتوں کو وقت کے تقاضوں پر پورا اُترنے کا ایک ڈھونگ رچاتا ہے۔ جس سے جماعتیں اپنے مصنوعی ڈھانچوں پر کھڑی گھاس پھوس کی جھونپڑیوں کی مانند ہوتی ہیں، جو آندھیوں اور طوفانوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتیں۔ ہمیشہ جبر کے نظاموں کا مقابلہ افراد کے بجائے مضبوط جماعتوں نے کیا ہے۔ جس جماعت کا نظام باصلاحیت اور باشعور افراد پراپنے جماعتی اداروں کی بنیاد پر کھڑا ہو، وہ نظام کے مقابلے پر ایک مضبوط عمارت کی مانند ہوتا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہ تضادات کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا تضاد اس کو چلانے والے افراد کے اپنے اپنے انفرادی مفادات کا تضاد ہوتا ہے، جو گاہ بہ گاہ سر اُٹھاتا رہتا ہے اور نظام کے اندر ایک جنگ کی سی کیفیت رہتی ہے۔ نظام کی محافظ قوتیں اپنے اپنے مفاد کی جنگ عوام کے نام پر لڑتی ہیں۔ عوام کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ تمھاری بھوک، افلاس اور مہنگائی کاسبب دوسرے فریق کا اقتدار میں ہونا ہے۔ تم ہمارا ساتھ دو، ہم تمھیں اس مہنگائی اور بے روزگاری سے نجات دلائیں گے۔ عوام بے چارے اپنی بے شعوری کے سبب ان کے نعروں پر جمع ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ نظام کی اس عارضی اور وقتی جنگ کو حقیقی جنگ سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس جنگ کے فریق عوام کو نظام کے خلاف حقیقی شعور کبھی نہیں آنے دیتے۔ ان کواپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے رہتے ہیں۔
ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس نظام میں تیسرے درجے کی شریک مذہبی نیم سیاسی پارٹیوں کی کبھی اپنی مستقل حکومت قائم نہیں ہوسکتی۔ کیوں کہ ان کے انتخابی حلقے انتہائی محدود ہیں، لیکن نظام کی اس اندرونی لڑائی میں وہ پہلے اور دوسرے درجے کی شریکِ اقتدار پارٹیوں کے لیے انتہائی سرگرم اور مستعد کرائے اور بھاڑے کے لوگوں کا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ اس سے عجیب تر یہ کہ وہ پارٹیاں جن کا سِرے سے کوئی حلقہ انتخاب ہی نہیں، ان کاایک آدھ لیڈر کنٹینر پر برابر کھڑا یہ تاثر دے رہا ہوتا ہے کہ حکومت کا خاتمہ ان کی لات کی ایک ٹھوکرکے فاصلے پر ہے۔ ان جماعتوں کا تعارف معاشرے میں حکومتیں گرانے اور تحریکیں چلانے کے سوا دوسرا نہیں ہے۔ بلکہ خود ان کا اپنا دعویٰ بھی یہی ہے: ’’ہمارے بغیر حکومتیں بنتی ہیں‘ نہ چلتی ہیں۔‘‘
ہمارا خیال یہ ہے کہ ان دھرنوں کا انعقاد سسٹم کی اندورنی لڑائی کا حصہ ہوتا ہے۔ ان دھرنوں میں اسلام آباد تک کوئی خود سے نہیں جاتا اورنہ ہی آج تک کوئی گیا ہے، بلکہ لے جایا جاتا ہے۔ بلکہ اب تو اس بیان کی گونج قومی میڈیا میں بھی سنائی دے رہی ہے کہ ’’نہ ہم ایسے ہی اسلام آباد گئے تھے اور نہ ہی ایسے واپس آ ئے ہیں۔‘‘ نظام میں سودے کروانے والی قوتیں بسا اوقات دوسرے فریق پر دباؤ بڑھانے کے لیے ملک میں موجود ایسے عناصر کو استعمال کرتی ہیں۔ ان کا بنیادی ہدف ’’حساب دو یا حصہ دو‘‘ ہوتا ہے۔ ان کی سیاست کا تمام تر دار و مدار محلاتی سازشوں اوراس فاسد، گلے سڑے اور عوام دشمن نظام کو بچانے پر ہوتا ہے۔ یہ سب سسٹم کی کٹھ پتلیاں ہیں، جو سیاسی منظر پر رقصاں رہتی ہیں۔ موجودہ حالات میں اوّل تو اقتدار پر براجمان فریق نے اس دھرنے کو سنجیدہ لیا ہی نہیں، بہ صورتِ دیگر اگر کوئی اِن ہاؤس تبدیلی کا سامان ہو بھی جاتا ہے تو فائدہ کس کو ہوگا؟ کرپشن کی دلدل میں پھنسی دوبڑی پارٹیوں کے سوا کسی اَور کی حکومت تو بن نہیں سکتی۔ تو پھر اس سارے قضیے کا کیا حاصل محصول ہے؟
اصل بات یہ ہے کہ جب تک اس ملک میں ایک باشعور قومی جماعت وجود میں نہیں آجاتی، جس کی خوبی اورصلاحیت کی بابت ہم اوپر عرض کرچکے ہیں، اس وقت تک یہ ملک حقیقی تبدیلی اور آزادی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور۔ شمارہ دسمبر 2019ء)