پاکستان اپنی عمر کی پون صدی مکمل کرنے کوہے، لیکن اسلام اور عوام کے نام پر بننے والے اس ملک میں اسلام اور عوام آج بھی سیاست دانوں اور حکمرانوں کے ہاتھوں بازیچۂ اَطفال بنے ہوئے ہیں۔گزشتہ 73 سالوں سے اقتدار کی پارٹیاں، ان کی ہم نوا جماعتیں اور سرپرست‘ اتحادوں اور دھرنوں کی سیاست کا کھیل کھیل رہے ہیں۔پون صدی بعد پاکستان کے عوام ان سے یہ پوچھنے میں حق بہ جانب ہیں کہ جس ملک کے قیام کی اساس اسلام اور عوام بتائے جاتے رہے ہیں، جس میں اقتدار کی پارٹیاں اور حزبِ اختلاف دونوں ہی اسلام کا نعرہ لگاتی رہی ہیں، جس ملک کا آئین اور دستور اسلامی ہو، جہاں کی عدالتیں، اسمبلیاں، فوج اور عدلیہ اسلام کو اپنا دین قرار دیتی ہوں، جہاں انتظامیہ، پولیس اور بیوروکریسی اسلام کی دعوے دار ہو اور جس ملک کے ننانوے فی صد عوام بھی مسلمان ہوں، آخر اس ملک میں گزشتہ 73 سالوں سے اسلام کو کس نے روکا ہوا ہے؟ اورعوام کو ان کے حقوق سے کس نے محروم رکھا ہوا ہے؟ آج بھی ہمارے کوچہ و بازار سے لے کر قومی شاہراہیں دھرنوں، احتجاجوں، جلسوں اور جلوسوں کی آماجگاہیں بنی ہوئی ہیں۔ کس کا کس سے مطالبہ ہے ؟ آخر تم ہی تو گزشتہ پون صدی سے اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ہو۔ پاکستان کے 73 سالہ دورِ اقتدار کی مالک ساری پارٹیاں حکومت مخالف اتحاد کا حصہ ہیں اور وہ اسلام اور عوام کے نام پر وہ مطالبات لے کر شہرِ اقتدار میں پہنچی ہیں، جن کو انھوں نے اپنے دورِ اقتدار میں کبھی اہمیت نہیں دی۔ بس یہی پاکستان کی سیاست ہے! اگر پاکستان کے سیاسی ڈھانچے اور حکومتی نظام کا بہ غور جائزہ لیا جائے تو در اصل یہاں کی تمام جماعتیں پاکستان میں موجود بحرانوں اور اس کو لاحق خطرات کی ذمہ دار قرار پاتی ہیں۔
پاکستان میں جب بھی حکومتیں گرانے کی تحریکیں چلتی ہیں، اقتدارکے حریف دو طاقت ور فریقوں کے درمیان لڑائی ہوتی ہے۔ ایک فریق ایوانِ اقتدار میں بیٹھا ہوتا ہے اور دوسرا اقتدار سے باہر ہوتا ہے۔ ایوانِ اقتدار میں بیٹھا فریق جمہوریت کو بچانے کی دُہائی دیتا ہے اور سڑکوں پر زور آزمائی کرنے والا فریق اسلام اور عوام کے نام کو استعمال کرکے اپنے لیے اقتدار کی راہ ہموار کرتا ہے۔ درحقیقت یہ دو طاقت ور فریقوں کی لڑائی ہوتی ہے، جن کا اسلام اور عوام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا، بالآخر ان کی اس جنگ کا خاتمہ نظام کو بچانے کے سمجھوتے پر ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ دونوں کی زندگیاں نظام کے دم سے قائم ہوتی ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو تیسری قوت سے ڈراتے دھمکاتے بغل گیر ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں اس نوع کی تحریکوں کے مطالعے سے یہاں سرمایہ درانہ نظام کے زیرِ سایہ پروان چڑھنے والی طرز ِسیاست کے طور طریقوں کو سمجھا جاسکتا ہے کہ جہاں حکومتوں اور اپوزیشن پارٹیوں دونوں کے پیچھے طاقت کے مراکز آ کھڑے ہوتے ہیں اور ان دونوں کی ڈوریاں وہیں سے ہل رہی ہوتی ہیں۔ یہ طاقت کے مراکز خواہ قومی سطح کے ہوں یا بین الاقوامی سطح کے، ان کا بنیادی منشا ملک میں سیاسی عدمِ استحکام کی فضا کو قائم رکھنا ہوتا ہے، تاکہ یہ ملک قومی ترقی کی سیدھی راہ پر نہ چل نکلے۔
یہ آپس میں برسرِ پیکار پارٹیاں اسی نظام کی پارٹیاں ہیں، جو اس نظام کی چھتری تلے آپس میں دست و گریبان بھی ہوتی ہیں اور اس نظام کو بچاتی بھی ہیں۔ اب اس ملک کی تقدیر عوام کے کسی حقیقی اتحاد کی راہ تک رہی ہے۔ موجودہ دھرنوں اور جلسوں سے عوام کے مقدر اور قسمت کو نہیں بدلا جاسکتا۔ ہم نے ستمبر 2014ء میں بھی اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھی پارٹی جو آج حکمران پارٹی بھی ہے، کے متعلق بھی یہی کہا تھا کہ:
’’اس موقع پر ان سیاسی قوتوں کا تجزیہ بھی ضروری ہے جو عوام کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کی دعوے دار ہیں اور عوام بھی ان پر اعتماد کرکے اپنے گھر بار اور کاروبار کو چھوڑ کر ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔ وہ اسلام آباد میں اپنے ساتھ شریک عوام کو آزادی، انقلاب اور نئے پاکستان کا سنہرا سپنا دکھا رہی ہے۔۔۔۔۔ یہ ان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کے مطابق کسی بڑی تبدیلی کو ممکن بنا سکیں۔ الغرض! موجودہ کشیدگی اور کشمکش کا اونٹ جس کروٹ بھی بیٹھے، سرِدست نظام کی مکمل تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ اگر کچھ ہوا بھی تواس گلے سڑے کلاسیکل سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ ایک نیا مغربی ملکوں کی طرز پر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ نظام کا جدید ماڈل لانے کے لیے یہ قوتیں استعمال ہو جائیں گی، لیکن پہلے راؤنڈ میں یہ بھی ممکن نظر نہیں آتا۔ اس کی بڑی وَجہ نئے نظام کو چلانے کے لیے جس استعداد اور صلاحیت کی ضرورت ہے، موجودہ تبدیلی کی دعوے دار جماعتیں اس سے یکسر خالی نظر آتی ہیں۔ یہ قوتیں اسی نظام کے ساتھ کسی مشترکہ مفادات کے ایجنڈے پر صلح کرلیں گی، یا بعض شخصیات کے استعفے پر یہ تحریک اپنے انجام کو پہنچ جائے گی۔ مکمل تبدیلی کا خواب ادھورا رہ جائے گا، جو کسی انقلابی پارٹی کی مکمل تیاری کا مرہونِ منت ہی ہوگا۔‘‘
آج کے دھرنوں کے بارے میں بھی ہمارا یہی خیال ہے کہ اس کے ذریعے اقتدار کی اپنی حریف قوت کو کسی سمجھوتے پر تو مجبور کیا جاسکتا ہے، لیکن اس سے کسی قومی سطح کی تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ 2014ء کے دھرنے میں موجودہ حکمران پارٹی اپنی ایک مختصر اتحادی کزن پارٹی کے ساتھ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے خیمہ زن تھی اور موجودہ حزبِ مخالف کی ساری پارٹیاں آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ کے تحفظ کی دعوے دار تھیں۔ اب کے یہ ساری پارٹیاں ایک نیم مذہبی سیاسی جماعت کی بغل میں بیٹھی ہیں اور پارلیمنٹ سے باہر وہی کچھ کہہ رہی ہیں، جو کل یہاں کھڑی آج کی حکمران پارٹی کہہ رہی تھی اور آج پارلیمنٹ میں کل کی احتجاجی پارٹی وہی کچھ کہہ رہی ہے جو اس وقت کی حکمران پارٹی کہہ رہی تھی۔ باتیں وہی ہیں، صرف چہرے، زبانیں اور حلق تبدیل ہوئے ہیں۔ یہی اس نظام کی حقیقت ہے۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور۔ شمارہ نومبر 2019ء)