پاکستان امریکہ ابتدائی تعلقات: عرفان یونس بٹ
جون 30, 2020تبدیلی کا ادھورا خواب
جولائی 1, 2020
کیا پاکستان اور بھارت کے مابین مستقبل قریب میں پرامن اوردوستانہ تعلقات قائم ہوسکتے ہیں۔ اگر تو آپ رجائیت پسند ہیں اورامن وانسانیت آپ کا مطمع نظرہے تو آپ کا جواب ہوگا کہ یقیناًآج نہیں تو کل دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنا ہوگا اور دونوں کو پرامن بقائے باہمی اورایک دوسرے کی علاقائی خود مختاری اور سلامتی کا احترام کرتے ہوئے تعلقات قائم کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ ایسے کئے بغیر دونوں ممالک اوران کے سوا ارب کے قریب شہری ترقی اور خوشحالی کےثمرات سے مستفید نہیں ہوسکتے۔
لیکن اگرزمینی حقائق اوردونوں ریاستوں کی حکومتوں کی پالیسیوں اورجنگجویانہ طرزعمل کو پیش نظررکھا جائے تو لگتا ہے کہ مستقبل قریب توکیا مستقبل بعید میں بھی دونوں ممالک کے مابین پرامن باہمی تعلقات کے قائم ہونے کا دوردورتک کوئی امکان نہیں ہے۔یہ دونوں ممالک کوئی معنی خیز مکالمہ کرنے کی بجائے سرحدوں پر گولی باری کی پالیسی جاری رکھیں گے اوربھوک اور ننگ دونوں ممالک کے عوام کا مقدر بنے رہے گی
پاکستان کا موقف ہے کہ دونوں ممالک کے مابین کورایشو کشمیر ہےاور اس مسئلے کو حل کئے بغیردونوں ممالک کے مابین پرامن تعلقات قائم نہیں ہوسکتے۔ بھارت کا موقف ہے کہ کشمیر کوئی ایشوہی نہیں ہے بنیادی ایشو دہشت گردی ہے جس کو پاکستانی ریاست کی مدد اور تعاون حاصل ہے۔ اگر تو بات چیت ہونی ہے تو وہ کشمیر پر نہیں دہشت گردی پر ہوگی۔دونوں ممالک اپنی بیان کردہ پوزیشن سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں لہذا ان کے مابین مذاکرات کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا کشمیر کا مسئلہ مستقبل قریب میں حل ہوسکتا ہےبالخصوص اگست 2019 کے بعد جب بھارت نے کشمیر کے خود مختارسٹیٹس کو ختم کرکے اس کو ضم کرلیا ہے۔ بھارت کا یہ اقدام بھلے ہی غیر جمہوری، جابرانہ اور بین الاقوامی اصولوں سے متصادم ہو لیکن اب بھارت کے ساتھ کشمیر کے اس انضمام کے پیچھے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ گذشتہ ستر سالوں میں پاکستان کشمیر کا ایک انچ رقبہ حاصل نہیں کرسکا لیکن کشمیر کی اس جنگ میں اپنے ملک کا آدھا حصہ ضرور گنوا چکا ہے۔کمشیر میں جاری مزاحمت سری نگر ویلی تک محدود ہے۔جموں اور لیہہ کے علاقے خاموش اور بھارت سرکار کے ساتھ ہیں۔ سری نگر ویلی میں بھارت انتہائی متشدد ہتھکنڈے استعمال کرکے کشمیر مزاحمت کو دبانے میں مصروف ہے۔ قراین سے لگتا ہے کہ جلد بدیر بھارت کشمیر کی اس مزاحمت کی کرم توڑنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ کیونکہ یہ مزاحمت کوی بڑے پیمانے پر مسلح نہیں ہے اور اس کو بین الاقوامی سطح پر کوئی حمایت اور پذیرائی بھی حاصل نہیں ہے۔ پورپ اور امریکہ تو کجا خود مسلمان ممالک کی اکثریت بھی کشمیر بارے زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ امارات جو اسلامی ممالک کی تنظیم کے مالی سرپرست ہیں کمشیر بارے ملفوف انداز میں بھارت کے موقف کے حامی ہیں یہی وجہ ہے کہ او آئی سی بھارت مخالف سخت موقف اختیار کرنے کو تیار نہیں ہے۔
پاکستان نے اپنے وسائل کا بہت بڑا حصہ کشمیر کے لا حاصل مسئلے کی نذرکر رکھا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کشمیر کے نام پر جاری اس لڑائی سے باہرآجائے اور بھارت کے ساتھ معنی خیز مذاکرات کے سلسلے کاآغاز کرئے لیکن ایسا ہونا ممکن نظرنہیں آتاکیونکہ پاکستان کی ریاست پر قابض عسکری اشرافیہ بھارت کے ساتھ پرامن تعلقات قائم کرنے کے حق میں نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے پاکستان کی ریاست پر اس کی گرفت کمزور ہوتی ہے اور اس نے وسائل کے جس بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا ہے اس سے ہاتھ دھونا پڑیں گے جو وہ کسی قیمت پر نہیں چاہتی لہذا پاکستان اور بھارت کے مابین صلح اور امن قایم ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور سرحدوں پر گولی باری کا سلسلہ جاری رہے گا اور دونوں ممالک کے عوام بھوک اور ننگ کا شکار رہیں گے
مناظر: 82