• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
تبدیلی کا ادھورا خوابتبدیلی کا ادھورا خوابتبدیلی کا ادھورا خوابتبدیلی کا ادھورا خواب
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

تبدیلی کا ادھورا خواب

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • تبدیلی کا ادھورا خواب
پاک بھارت کشیدگی اور مسئلہ کشمیر: لیاقت علی ایڈووکیٹ، لاھور
جولائی 1, 2020
جماعت اسلامی اپنی طبعی عمر پوری کرچکی! : لیاقت علی ایڈووکیٹ
جولائی 2, 2020
Show all

تبدیلی کا ادھورا خواب

پاکستان میں بسنے والی قوم کی اُمیدوں پر پانی پھرنے کی ایک پوری تاریخ ہے۔ کبھی ہم نے علاحدہ ملک بنانے پر سارے مسائل حل ہوجانے کی امیدیں باندھیں تو کبھی سرمایہ داروں کی جمہوریت کو اپنے دُکھوں کا مداوا سمجھا۔ کبھی مقتدر طبقوں کے انقلاب کو اپنے زخموں کا مرہم جانا اور اب تبدیلی نے ہمارے کَس بَل نکال دیے ہیں۔

حکمران پارٹی نے حکومت میں آنے سے پہلے تبدیلی کا ایسا شور مچایا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی اور جذباتی کارکن سنبھالے نہ سنبھلتے تھے کہ جی بس اگر اوپر ایک لیڈر ایمان دار آ جائے تو سب ٹھیک ہوجائیں گے۔ گویا نہ مضبوط کردار کی حامل جماعت کی ضرورت اور نہ نظام بدلنے کا جھنجٹ، یعنی وہ صدیوں کے سماجی اور تاریخی تجربات کو جھٹلانے پر مُصِر ہورہے تھے۔ پھر دورانِ الیکشن گانوں اور ترانوں کی دُھنوں پر تبدیلی کے متوالوں کے والہانہ رقص و سرود نے ایسا سماں باندھا کہ ایسی جذباتی فضا میں عقل و خرد کی بات کرنا ’’تبدیلی‘‘ سے دشمنی مول لینے کے مترادف سمجھا جانے لگا۔

پھرحکمران پارٹی نے Entry کچھ ایسے دی، یعنی شروعات ایسے کیں کہ وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیاں اور بھینسیں نیلام کردی گئیں۔ وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کر دینے کے چرچے ہونے لگے۔ کہیں تبدیلی گورنر ہاؤس کی دیواروں پرحملہ آور ہوئی اور کہیں حکمرانوں کے کمرشل فلائٹس میں سفر ، وزرا کی سادگیوں کے تذکرے اور نہ جانے کیا کیا کچھ نہ کہا گیا۔ یوں باور کروایا گیا کہ لو ’’تبدیلی آئی رے‘‘۔

پھر منتخب وزیراعظم نے اپنی پہلی تقریر میں جس طرح کمزور طبقوں کے حقوق اور انسانیت کی ہمدردی کا سہارا لیا، اس سے تو سالوں سے تبدیلی کی راہ تکنے والی قوم سمجھ بیٹھی کہ اب کے تو تبدیلی کی قرعہ اندازی میں ان کا نام نکل ہی آیا ہے۔ تبدیلی چاہنے والے اگر نظام کے اندر کی خرابی کا اِدراک رکھتے ہوتے تو شاید وہ تبدیلی کا یہ ادھورا خواب نہ دیکھتے۔ کیوںکہ نظام کی رکھوالی قوتیں جب دیکھتی ہیں کہ اب نظام چلانے کے لیے اس میں جتے ہوئے گھوڑے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تو وہ اس محدود تبدیلی کا ایجنڈا خود تیار کرتی ہیں۔ جیسے یہاں پرانی دو سیاسی پارٹیوں کی جگہ تیسری سیاسی قوت کا فلسفہ کھڑا کیا گیا اور اسے وقت کی ضرورت قرار دے کرمقبولِ عام بنانے کی باقاعدہ مہم چلائی گئی۔

ایسی محدود تبدیلی میں نظام کی مالک قوتوں کوباشعور سیاسی قیادت کے بجائے چابی والے کھلونے کی مانند کٹھ پتلی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے، جسے وہ حسبِ ضرورت استعمال کرسکیں۔ سیانے کہتے ہیں جب کوئی کسی کو استعمال کرتا ہے تو ضروری نہیں استعمال ہونے والے کو یہ شعور ہو کہ میں استعمال ہورہا ہوں۔ کسی زنجیر میں بندھے انسان کی زنجیر جتنی بھی لمبی ہو، بالآخر کھونٹے سے بندھی زنجیر ہی اس کی آزادی کی حدود کا فیصلہ کرتی ہے۔

ہماری ساری حکومتیں چیخ چیخ کر اپنی آزادی اور خود مختاری کے تذکرے کرتی رہی ہیں، لیکن ان کے کام کے نتائج عالمی زنجیر سے بندھے نظام کے تحت ہی نکلتے رہے ہیں۔ مثلاً ہمارے وزیراعظم لاک ڈاؤن کے حامی نہ ہونے کے باوجود کیوں لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور ہوئے؟ اگر وہ خود ہی بتائیں تو زیادہ بہتر ہے۔

پرانی حکومتوں کو بیرونی ایجنڈے پر چلنے کے طعنے دینے والی اس حکومت نے ’’کرونا وبا‘‘ کے نام پر جس طرح عالمی ایجنڈے پر عمل پیرا ہوکر انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیری ہیں، وہ دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی کی بدترین مثال ہے۔ آج ہرسُو موجودہ حکومت کے تبدیلی کے دعوے کی ناکامی کی وجوہات زیر بحث ہیں۔ یعنی اسباب و وجوہات میں تو اختلاف ممکن ہے، لیکن ناکامی پر سب متفق ہیں۔ ناکامی کا یہ تأثر اب صرف حکومت مخالف حلقوں کی آواز نہیں رہی، بلکہ اب اندر سے بھی اس سے ملتی جلتی آوازیں گاہ بہ گاہ اُٹھتی رہتی ہیں۔ ایسی تبدیلی کے پُر جوش حامیوں کو پورا موقع دیا گیا کہ وہ اپنی خواہش پوری کرلیں، تاکہ ان کی یہ حسرت باقی نہ رہے کہ اگر ایک بار موجودہ قیادت کو موقع مل جاتا تو وہ ضرور پاکستان کو ان کرائسس سے نکال کر پاکستان کی تقدیر بدل دیتی۔ تبدیلی سرکار کے حوالے سے یہ تبدیلی بھی مقتدر قوتوں کی صدائے بازگشت ہی لگتی ہے۔ شاید اس سے اُن کا یہ مطلب ہو کہ نظام کے پُرانے خدمت گزاروں کو دوبارہ موقع دے دیا جائے۔ ان حالات میں پرانی پارٹیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جیسے ہم نظام کی حقیقی تبدیلی کے بغیر تیسری سیاسی قوت کے فلسفے کو قوم سے دھوکا سمجھتے ہیں، ایسے ہی پرانی سیاسی قوتوں کو بھی اس نظام کی محافظ قوتیں سمجھتے ہیں، جو چلا ہوا کارتوس تو ہیں، لیکن کسی حقیقی تبدیلی کے لیے قطعاً بھی موزوں نہیں۔

قوم کی کسی مایوسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں دوبارہ قوم پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کی جائے اور نہ ہی مستقبل کے لیے ریزرو (reserve) قیادت میں سے کسی نئے نوخیز لیڈر کو سامنے لاکر قوم سے مذاق کیا جائے۔ موجودہ تبدیلی نے جو کچھ اب تک قوم سے مذاق کرلیا ہے، وہ کافی ہے۔ اس کا قرض بھی قوم نے یہ کہتے ہوئے ادا کردیا کہ ؎

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے

اب تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قوم کے نوجوان اس ظالمانہ نظام کی کٹھ پتلیوں کا آلہ کار بننے کے بجائے درست نظریے کا شعوری ادراک، پُرخلوص جدوجہد اور نظم و ضبط کے تقاضوں کی تکمیل کریں۔ ہمارے ملک کے باشعور نوجوانانِ ملک و ملت دینی شعور کی اَساس پر خود اپنے اوپر اعتماد کریں۔ قومی کردار ادا کرنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائیں۔ وقت ایسا آن پہنچا ہے کہ وہ قوم کو اس بوسیدہ ،گلے سڑے نظام سے نجات کے لیے شعوری بنیادوں پر کوئی انقلابی حکمتِ عملی طے کریں۔

(اداریہ ماہنامہ رحیمیہ لاہور، جولائی 2020ء)

مناظر: 243
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جولائی 11, 2022

عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ