لاک ڈاؤن کے ان دنوں میں میں کتابیں پڑھتے وقت گزارتا ہوں یا کتاب چہرہ دیکھ کر ، کتاب چہرہ سے میری مراد فیس بک ہے ۔ یہ ایک نئی دریافت ہے ، جس پر ہم دوستوں سے رابطے میں رہ سکتے ہیں اور نئے دوست بھی بنا سکتے ہیں ،ان سے باتیں کر سکتے ہیں ، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہو سکتے ہیں ، ان سے علم و دانش کے حوالے سے تبادلہ ٔ افکار بھی کر سکتے ہیں ، تبادلۂ خیالات بھی ۔ ان دنوں ہم زیادہ وقت کتاب چہرہ پر دوستوں سے باتیں کرتے گزارتے ہیں ۔ اپنے قریبی عزیزوں اور پیاروں سے کتاب چہرے کے ذریعے راطہ رکھتے ہیں یا فون کے ذریعے ۔ ان کے لیے آنا جانا مشکل ہے اور میرے لیے بھی ۔ کتاب چہرہ ایک سرگرمی ہے، ایک فرار بھی اور ایک نجات کا راستہ بھی ۔ اسی لیے اس میں جو دلچسپی ہے ، وہ بندے کا زیادہ تر وقت لے لیتی ہے ۔ ڈاکٹر انوار احمد نے کہا تھا ۔ بچے کو دودھ چھڑانا آسان ہے ۔ مگر بوڑھے سے فیس بک ( کتاب چہرہ ) چھڑوانا مشکل ہے ۔
میں نے کتاب چہرہ کے ذریعےبہت سے گمشدہ دوستوں کو دریافت کیا اور بہت سے ہم خیال اور ہم فکر لوگوں سے رابطے میں آیا ۔ دوردراز کے ہم خیال لوگ اس کے ذریعے مجھے اپنی سرگرمیوں سے آگاہ رکھتے ہیں ، اپنے فکر وخیال سے باخبر کرتے ہیں ۔ اور مجھ سے میری سرگرمیوں اور سرگرانیوں کا حال پوچھتے ہیں ۔ اتنے بہت سے دوست ہیں جن کی سرگرمیاں دیکھ کر مجھے کام کا حوصلہ ملتا ہے اور بہت سی نئی کتابوں کی خبر ملتی ہے ۔ نئے مصنفین کا پتا چلتا ہے اورنئے شاعروں سے تعارف ہوتا ہے ۔ میں ایسے نئے تابندہ اور پایندہ شعروں سے آشنا ہوتا ہوں جو صدی دو صدی پہلے کے شاعر نے کہے تھے ،انہیں پڑھ کر احساس ہوتا ہے جیسے یہ آج ، بلکہ ابھی لکھے گئے ہیں ۔ بعض اوقات ایسے شعر بھی پڑھتا ہوں جو پچیس سال کی عمر کے شاعر نے کہے ہیں ، مگر وہ ایک سو پچیس سال پرانے ہیں ۔
کتاب چہرہ کے ذریعے میں بہت سے لوگوں سے واقف ہوا ہوں ۔ مگر آج کی نششت میں صرف دو لوگوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں ۔ میں انہیں اب تک دیکھ نہیں سکا ، صرف کتاب چہرہ پر ان کا چہرہ دیکھا اور فون پر آواز سنی ۔ مگر سچ یہ ہے کہ یہ دو حضرات میرے دل کے بہت قریب ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں ، دونوں کی بنیادی دلچسپی کتابوں سے ہے ، یہ کتابی لوگ ہیں اور کتاب چہرے کے ذریعے کتاب کا ذوق عام کرتے اور شوق کو پھیلانے بلکہ شوق جگانے کا کام کیے جاتے ہیں ۔ یہ دو لوگ ہیں ، علی نواز شاہ اور مخدوم عدیل عزیز ۔
سید حسن نواز شاہ نڑالی تحصیل گوجر خان کے باسی ہیں ۔ اور سلسلۂ سہروردیہ سے متعلق ایک روحانی خانوادے کے چشم وچراغ ہیں ۔ یہ بزرگ زادےہیں انہیں وراثت میں مسند ارشاد ملی ہے، مگر یہ خود بھی صوفی ہیں ، سر تا پا صوفی ،صوفی کا ہر پل دوسروں کی بھلائی میں گزرتا ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارا یہ صوفی صافی ہر وقت دوسروں کی بھلائی کے لیے وقف ہے ۔ اسے کسی کام سے عار نہیں ،گندم کی فصل لگتی ہے تو یہ درویش فقیر سر پر رومال باندھ کر اور ہاتھوں میں درانتی تھام کر گندم کی فصل میں جا بیٹھتا ہے ۔ ایک دوست نے بتایا یہ تھوڑی سی زمینداری رکھتے ہیں ، ان کی زمینداری اتنی ہی ہے کہ یہ آسانی سے گزر بسر کرسکیں ۔ ان کااصل کام یہ ہے کہ یہ ایک بڑی لائبریری رکھتے ہیں ۔ لائبریری کا نام دادی کے نام پر مخدومہ امیر جان لائبریری ہے ، اس میں بہت سے علوم و فنون کی کتابیں ہیں ۔ یہ نئی آمدہ کتابوں کو فیس بک پر لگاتے تو ہیں، پرانی کتابوں کے چہرے بھی کتاب چہرے پر دکھاتے رہتے ہیں ۔ یہ کتابوں کی رونمائی بھی کرتے ہیں ،اور ان سے آشنائی بھی بڑھاتے ہیں ۔ کتابوں سے محبت کے باوجود دل اس قدر فراخ پایا ہے کہ کسی نے طلب کر لی یا ایسا جملہ کہہ دیا جس میں حسن طلب ہو ،یہ فورا کتاب کا پیکٹ بنا کر اسےبھی حوالۂ ڈاک کر دیتے ہیں اور کچھ ہی دنوں میں نئی کتابیں چاہنے والوں کے پاس پہنچ جاتی ہیں ۔ شکر کا یہ اندازہے کہ ان کا ذخیرہ بڑھتا رہتا ہے، دوست احباب اس ذخیرے میں حصہ ڈالتے ہیں ۔ تو یہ کھلے دل سے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں ، اور شکر کے جذبے سے سرشار ہوکر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ یہ کتابوں کی تلاش میں لاہور اور راولپنڈی تک کا سفر کرتے ہیں اور قدیم کتابوں کے ذخائر تک پہنچتے ہیں۔ اور قدیم کتابوں کو رزق خاک ہونے سے بچاتے رہتے ہیں ۔ یہ اپنے اسفار میں کتابیں خریدتے بھی ہیں اور کتابوں کا تبادلہ بھی کرتے ہیں ۔
حسن نواز شاہ ایک گاؤں میں بیٹھے ہیں یہ بھی صوفیوں کا طریقہ ہے یہ لوگ کہاں ہجوم میں جاتے ہیں ۔ نمایاں ہونا اور دوسروں کو دکھائی دینا ان کا وتیرہ نہیں ہے ۔اس کے باوجودمیں نے دیکھا ہے کہ لاہور اور اسلام آباد کے بہت سے اہل علم ان سے محبت کرتے ہیں ۔ میں محترم ومکرم جناب پروفیسر عبدالعزیز ساحرؔ ، پروفیسر ارشد محمود ناشاد ؔ اور بہت سے اہل علم سے ان کے لیے تحسین کے کلمات سن ہی چکا ہوں ۔ میرے محترم معین نظامی سے بھی ان کی دوستی ہے ۔ تصوف ،فارسی اور اردو ادب کا ذوق انہیں بہت سے اہل علم کے قریب لا چکا ہے ۔ پچھلے دنوں میں نے کتاب چہرہ پر ان کا ایک مضمون دیکھا ۔ مگر وہ مضمون پورا نہ پڑھ سکا تھا کہ اٹھنا پڑا ، دوبارہ مضمون کی تلاش کی تو ڈھونڈنا مشکل ہو گیا ، میں نے انہیں پیغام لکھا کہ یہ مضمون وٹس ایپ کردیں ۔ تھوڑی ہی دیر میں ان کا محبت بھرا فون آیا ۔ یہ محبت اور عجز و نیاز سے بتارہے تھے کہ یہ میری خواہش کی تکمیل کر چکے ہیں ۔ فون پر میں نے محسوس کیا یہ نستعلیق لہجے میں اردو بول رہے تھے ۔ یہ لمحہ ان کا اپنا لہجہ تھا اور اردو کے لہجے سے مختلف نہیں تھا ۔ ان کے بے عیب تلفظ نے کانوں میں رس گھول دیا ۔ میں سوچتا ہوں کن لفظوں میں ان کا شکریہ ادا کروں ۔
حسن نواز شاہ کی کتاب چہرہ پر نوازشات کا ذکر بہت طویل ہے اسے مختصر کرتا ہوں ۔ ان کا ایک میدان تصنیف و تالیف کا ہے ، ابھی میں نے ان کے جس مضمون کا ابھی تذکرہ کیا ہے وہ گوجر خان میں قادیانیت اور اس کے رد پر تھا ۔ اس مضمون میں انہوں نے مولوی فضل محمد چنگوی کا قادیانیت کے فتنے میں مبتلاء ہونے اور نجات پانے کا تذکرہ کیا ہے ۔ فون پر گفتگو ہوئی تو میں ان کی باتیں سن کر حیران ہوگیا ۔ کہنے لگے :
ان صاحب کو قادیانی ہونے سے پہلے بھی الہام کا دعویٰ تھا ، قادیانی ہونے کے دنوں میں بھی اور قادیانیت سے تائب ہونے کے بعد بھی ، دیکھنا یہ ہے کہ ان کے الہامات کا منبع کیا تھا ۔
میں یہ سن کر حیران ہوگیا ۔ اب ایک صاحبِ حال اور اہل ِ دل شخص ہی ان سوالوں پر غور کر سکتاہے ۔ اور ان کا جواب تلاش کر سکتا ہے ۔
حسن نواز شاہ کا مضمون پڑھ کر احساس ہوا کہ وہ صوفی کا دل اور محقق کا دماغ رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے مضمون میں روایات کو حسنِ ظن کی بنیاد پر قبول نہیں ، دلیل کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں ۔ انہوں نے مولوی فضل محمد کے بارے میں موجود ممکنہ مصادر و مراجع سے رجوع کیا ہے ۔ اور انہوں نے مولوی فضل محمد کے پوتے منیرالدین کی کتاب سے استفادہ کیا ہے اور منیر سے بحث مباحثہ بھی ، تب جاکر یہ مضمون لکھا ہے ۔ ان کاسفر یہاں ختم نہیں ہوا ، مضمون چھپ گیا مگر ان کی تحقیق کا سفر جاری رہا ۔ وہ مواد اور مزید مصادر کی تلاش کرتے رہے اور آخر کو اپنے مطلوبہ مراجع تک پہنچ گئے ۔ وہ بتارہے تھے ۔ کہ اب یہ مضمون ۱۲۸ ؍ صفحات تک پھیل چکا ہے،گویا مضمون کتاب بن چکا ہے ۔ انہوں نے اس کے علاوہ مضامین بھی لکھے ہیں ، کتابیں بھی ۔ بعض دوست انہیں کتاب چھپنے سے پہلے اپنی کتابیں پیش کرتے ہوئے سوچتے ہیں : حق بحق دار رسید ۔
حسن نواز کے بعد ایک اور نوجوان سے تعلق خاطر استوار ہوا ہے ۔ وہ ہیں مخدوم عدیل عزیز ۔ یہ نوجوان ہیں اور لاہور ہی میں رہتے ہیں ۔ میں حیران ہوں ، اب تک ان سے ملاقات کیوں نہیں ہوئی ؟ یہ یو ۔ ایم ۔ ٹی میں پڑھتے ہیں، اور ایم ۔ فل اور پی ۔ ایچ ۔ ڈی کرنے والے عموماً ڈگری کو منزلِ مقصود جانتے ہیں مگر یہ ایسے شخص ہیں کہ کتابیں ان کی منزلِ مراد ہیں ۔ کتاب چہرہ پر ان سے شناشائی ہوئی، ان کے متعلق پتا چلا کہ یہ پڑھے لکھے خاندان کے چشم و چراغ ہیں، ننھیال میں ترقی پسندی کی روایت بھی موجود ہے اور آزادی خواہی کی روایت بھی ۔ ان کے کسی بزرگ نے تحریکِ خلافت سے تحریکِ آزادی تک چھپنے والی کتابیں ، پمفلٹ اور رسائل جمع کر رکھے تھے ، ان کے ذوق کو دیکھتے ہوئے انہیں یہ ساری کتابیں عنایت کردیں ۔ اب یہ لاک ڈاؤن کے دنوں میں کتابوں کو سکین کرتے اور دوستوں کو بے مول کتابوں پیش کر رہے ہیں ۔ ان کی لائبریری خانقاہ بن گئی ہے ۔ جہاں کتابیں لنگر بن کر تقسیم ہو رہی ہیں ۔ یہ اپنے نام کے ساتھ مخدوم لکھتے ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے بڑے صوفی سنت تھے ، اسی لیے تو ان کا خاندانی ٹائیٹل مخدوم ہے ۔
عدیل عزیز ابوالکلام آزاد اور عبیداللہ سندھی کے مکتبۂ فکر سے وابستہ ہیں ۔ اس مکتبۂ فکر میں ہر روشن خیال اور روشن فکر شخص کو باآسانی پناہ مل سکتی ہے ۔ یہ روشن فکر شخص ہیں اور سمجھتے ہیں تاریخ میں تقلید نہیں تحقیق ہوتی ہے ۔ عدیل عزیز نہ صرف خود تحقیق کی راہ اپنائے ہوئے ہیں ، دوسروں کو بھی تحقیق کا راستہ دکھاتے ہیں ۔ اس راہنمائی کے مقصد کے تحت یہ تاریخ سے متعلق ماخذ اور مصادر کو دوستوں تک پہنچا رہے ہیں ۔ کتاب چہرے پر ان کا قرطاسِ شخصیت ایک کتب خانے کا منظر پیش کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہمت اورحوصلہ عطاء کرے۔
مخدوم عدیل عزیز نے خود مجھے تلاش کیا ۔ کہیں سے میرا نمبر لیا اور مجھ سے ہم کلام ہوا ۔ کرونا کے دنوں میں ہم فون پر باتیں کر لیتے ہیں ۔ دیکھیے کب کرونا کی وباء ختم ہو ۔ ہم لوگ محبت سےایک دوسرے کو مل سکیں اور ایک دوسرے کی خدمات پر انہیں خراجِ تحسین پیش کر سکیں ۔ فی الحال میں ان کے لیے دعا کرتا ہوں ۔