اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے دین کی تبلیغ کیلئے پوری انسانیت میں سے کچھ مخصوص ہستیوں کو اپنے لئے منتخب فرمایا ، وہیں ان ہستیوں کے اصحاب و رفقاء کے انتخاب بارے بھی ایک معیار مقرر فرما کر معاشرے میں سے مخصوص افراد کو ہی ان کی خدمت پہ مامور کیا۔ ہمارے نبی مکرم ﷺ کی ذات ِ بابرکات بھی ان مخصوص ہستیوں میں سے ایک ہے ، تاہم آپ ﷺ نہ صرف خود اخص الخواص ہیں بلکہ ، آپ ﷺ کے رفقاء اور آپﷺ کا گھرانہ بھی ایک امتیازی شان اور حیثیت کا حامل ہے۔
کسی بھی انسان کیلئے دنیا کے اندر کسی کامیاب یا کسی بڑے انسان سے انتساب ایک قابل ِ فخر بات ہوتی ہے، چہ جائیکہ ایک انسان اللہ تعالیٰ کے حبیب ﷺ کا نہ صرف صحابی ہو بلکہ آپﷺ کے گھرانے کا ایک معزز رکن ہو۔ چنانچہ امیر المومنین ، خلیفہ چہارم ، داماد ِ پیغمبر ، خسر ِ فاروق ِ اعظم جناب سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی ذات دنیا کے تمام انسانوں سے اس لحاظ اور نسبت کی وجہ سے بلند ہے ، کہ آپ نہ صرف صحابی رسول ﷺ ہیں، بلکہ آپﷺ کے اہلبیت میں شامل ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذات کے اسلام پہ جہاں اور احسانات ہیں، وہاں ایک اہم احسان یہ بھی ہے کہ ہمارے نبی کریم ﷺ کی پرورش جس شخص نے کی وہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے والد ماجد اور حبیب ِ خدا ﷺ کے چچا جناب حضرت ابو طالب تھے۔ چنانچہ آپ ﷺ کبھی کبھی سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی والدہ ماجدہ بی بی فاطمہ کو یاد کرتے، تو فرماتے کہ وہ اپنے بیٹوں سے زیادہ میرا خیال فرماتیں تھیں، اور میری خوراک اور آرام کی طرف اپنے بیٹوں سے زیادہ ملتفت رہتی تھیں۔ اس لئے جب نبی کریم ﷺ نے سن شعور میں پختگی حاصل کی ، تو آپ ﷺ نے اپنے کریم چچا کی معاشی مجبوری کا احساس کرتے ہوئے ، سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی پرورش اور تربیت کا بار اپنے اوپر لے لیا۔ اور پھر یہ ساتھ ایسا نبھایا کہ قبول ِ اسلام سے لیکر آپﷺ کی وفات تک اس میں کوئی رخنہ نہ آپایا۔
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی ذات ِ مبارک جہاں بہت ساری صفات سے متصف تھی، ان میں سے علم و شجاعت آپ کا امتیازی وصف تھا۔ آپ کی انہی صفات کی بدولت تینوں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین نے اپنے اپنے دور کے اندر شعبہ قضا کا انتظام اسی عظیم ہستی کے سپرد فرما کر سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے اوپر اپنے غیر متزلزل اعتماد کا ثبوت فراہم کیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ خلفائے راشدین کی آپ سے قلبی محبت اور آپ کی رفعت ِ شان بھی پیش ِ نظر رہی اور ہمیشہ اہم امور پہ مشورہ کے وقت آپ کی رضامندگی کو مد نظر رکھا گیا۔آپ کس قدر عظیم شان کے مالک تھے کہ ، جب امیر المومنین سیدنا عمر رض نے مسلمانوں کا وظیفہ مقرر فرمایا تو سیدنا حسنین کریمین کو اصحاب ِ بدر کے برابر وظیفہ دینے کی منظوری فرمائی۔ اس موقع پر آپ کے فرزند ِ ارجمند حضرت عبداللہ بن عمر رض نے آپ سے اس کی توجیہہ مانگی ، تو حضرت عمر رض نے جواب میں فرمایا کہ تمہارا ان سے کیا مقابلہ، ذرا اپنے باپ کو بھی دیکھ، اور ان کے باپ کو بھی دیکھ، ذرا اپنی ماں کو بھی دیکھ، اور ان کی ماں کو بھی دیکھ، ذرا اپنے نانا کو بھی دیکھ اور ان کے نانا کو بھی دیکھ، کیا کسی مرتبے میں تم ان سے ہم پلہ ہو سکتے ہو؟ اس کے علاوہ سیدنا عمر رض اپنے دور ِ حکومت میں حضرت علی رض سے کی رائے کو کس قدر اہمیت دیتے تھے ، کہ جب بھی کسی اہم امر پہ فیصلے کا موقع آتا تو صاف صاف کہتے ابو الحسن کی رائے پہ اعتبار کرونگا، اور ایک ایسے ہی موقع کے اوپر جبکہ سیدنا علی رض مدینہ میں موجود نہ تھے، تو اپنی ران پہ بار بار ہاتھ مارتے اور کہتے جاتے کہ اتنا اہم امر پیش آگیا اور ابو الحسن (رض) ہم میں موجود نہیں۔
اللہ تعالیٰ کی یہ مشیت ازل سے جاری ہے کہ ، جس انسان کا رتبہ جتنا بلند ہوتا ہے اس پر آزمائش بھی اتنی ہی بڑی آتی ہے۔ چنانچہ آپ رض نے جب عنان ِ خلافت سنبھالی تو مسلمانوں میں دو گروہ پیدا ہوگئے ، جن کے اختلاف کی بنیاد امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رض کی شہادت کا قصاص تھا۔ مسلمانوں میں ایک گروہ اس بات کا داعی تھا کہ حضرت عثمان رض جس مظلومانہ طریقے سے شہید کیے گئے ، ان کی شہادت کا قصاص سب سے زیادہ مقدم ہے، جبکہ دوسرا گروہ جو سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے اصحاب پر مشتمل تھا ان کے نزدیک خلافت کے امر کو استقلال بخش کر پھر قصاص لینا زیادہ ضروری تھا۔ تاہم باغی اور مفسد پرداز لوگوں کے ناپاک منصوبے تمام امور پہ غالب آگئے اور ایک ہی نبی کا کلمہ پڑھنے والی یہ دونوں جماعتیں آپس میں برسر ِ پیکار ہوگئیں۔ تاریخ میں اسے جنگ ِ جمل کا نام دیا جاتا ہے ، جس میں سیدنا طلحہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہم جیسے دو جلیل القدر صحابی جو عشرہ مبشرہ میں شامل تھے شہید ہوگئے۔ جب یہ جنگ ختم ہوگئی اور سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نعشوں کا معائنہ فرمارہے تھے، تو جب سیدنا طلحہ رض کی نعش ِ مبارک پہ پہنچے تو ان کا سر اپنی ران پہ رکھ لیا، اور کہا کہ کاش! میں آج سے بیس برس قبل دنیا سے جا چکا ہوتا اور اس کے بعد اس قدر روئے کہ ڈاڑھی مبارک تر ہوگئی۔ اسی جنگ میں سیدہ عائشہ رض بھی شریک ہوئیں تھیں، تاہم جنگ ختم ہونے کے بعد حضرت علی رض نے نہایت عزت اور احترام کے ساتھ ان کو مدینہ منورہ پہنچا دیا۔
ابھی اس آزمائش کا زمانہ پوری طرح ختم نہ ہوا کہ ، سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم کے ساتھ آپ کا معرکہ شروع ہوگیا۔ اس معرکے کا محرک دراصل سیدنا علی رض کا وہ فیصلہ تھا جس کے تحت آپ رض نے سیدنا معاویہ رض کو شام کے گورنر کے عہدے سے معزول کردیا تھا۔ جونہی یہ اطلاع سیدنا معاویہ رض تک پہنچی ، آپ نے اپنی معزولی کو قصاص ِ عثمان رض کے ساتھ مشروط کردیا۔ چنانچہ اس موقع پر حالات ایک دفعہ پھر کشیدہ ہوگئے اور اطراف کی فوجیں صفین کے مقام پر آمنے سامنے آگئیں۔ اس موقع پر دونوں طرف سے سنجیدہ اصحاب نے صلح کیلئے تگ و دو شروع کی، مگر ایک رات کو مفسد پردازوں اور باغیوں کے اسی گروہ نے جس نے جنگ ِ عمل کا معرکہ برپا کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا، اس نے اچانک دونوں طرف سے تیر پھینکنا شروع کردیے اور یوں لڑائی کا آغاز ہوگیا۔ یہ لڑائی کافی عرصہ جاری رہی جس میں اطراف کا بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا، تاہم آخر میں اس لڑ ائی کا انجام صلح پر ہوا جس کو تاریخ میں واقعہ تحکیم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس لڑائی کے بعد مسلمانوں کے دو مراکز بن گئے جن میں سے ایک کا پایہ تخت دمشق اور دوسرے کا دارالخلافہ کوفہ مقرر ہوا اور یوں ایک بہت بڑی آزمائش کا دور ختم ہوگیا۔ تاہم ان دونوں لڑائیوں کے اندر اہلسنت و الجماعت کا یہی موقف ہے کہ ان دونوں مواقع پر سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی ذات ہی حق کے قریب تھی، تاہم دوسری جماعت باغی نہیں بلکہ ایک اجتہادی غلطی کا شکار ہوگئی تھی۔ اس کے علاوہ ان دونوں لڑائیوں کے مقتولین کے متعلق سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول موجود ہے کہ آپ نے ان دونوں جماعتوں کے مقتولین کو نہ صرف شہداء کہا بلکہ بنفس ِ نفیس سب کی نماز ِ جنازہ پڑھائی۔ تاہم اس واقعہ تحکیم کے موقع پر آپ رض کی جماعت ہی میں سے ایک جماعت آپ رض سے اس بات پر ناراض ہوگئی ، کہ آپ نے فریق ِ مخالف کے ساتھ صلح کیوں کی۔ اس جماعت کے نزدیک سیدنا معاویہ رض کی جماعت باغی تھی اور ازروئے قرآن باغی کی سزا قتل ہے، لہذا ان لوگوں نے آپ سے اختلاف کرتے ہوئے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور ساتھ ہی آپ پہ العیاذ باللہ کفر کا فتوی لگا دیا ۔ تاریخ میں اسی جماعت کو خوارج کہتے ہیں۔ جب آپ رض کی حضرت معاویہ رض سے صلح ہوگئی تو آپ نے خوارج کی جانب توجہ مبذول فرمائی، اور ان کو راست بازی کی تلقین کی، مگر اس جماعت نے انکار فرمایا۔ چنانچہ ان کی سرکوبی کیلئے آپ رض کو ایک بار پھر میدان ِ جنگ میں اترنا پڑا اور خوارج سے جنگ لڑی جس کو آج جنگ ِ نہروان کے نام سے جانا جاتا ہے لہذا اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ آپ رض کی خلافت راشدہ کا سارا دور جنگوں کے اندر ہی گزرگیا اور یوں امت کو جس طرح آپ سے فیض حاصل کرنا چاہیے تھا، وہ اس سے محروم رہ گئی۔
امت ِ مسلمہ کے اندر ایک ایسے وقت میں جب سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی ذات ِ مبارک اور سیدنا معاویہ رض جیسی زیرک ہستی موجود ہو، یہ بات بھلا ان لوگوں کو کیسے گوارا ہوسکتی تھی جو اسلام کے خلاف بغض اور عناد سے بھرے ہوئے تھے، جن کا سربراہ مشہور ِ زمانہ یہودی منافق عبداللہ بن سبا تھا۔ لہذا ایک نئی چال کا جال اس جماعت نے بنا اور یوں ایک خاص دن یعنی انیس رمضان المبارک کو منتخب کیا کہ جس دن تین اصحاب کبار سیدنا علی رض کو کوفہ میں، سیدنا معاویہ رض کو شام میں اور سیدنا عمروبن العاص رض کو مصر میں شہید کردیا جائے گا۔ چنانچہ اس کے تحت ٹھیک انیس رمضان کو یہ سازش منظر عام پر آئی اور سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے اوپر کوفہ میں حملہ کیا گیا، سیدنا معاویہ رض کے اوپر دمشق میں حملہ کیا گیا ، تاہم حضرت عمرو بن العاص رض ناسازی طبیعت کے باعث مسجد نہ جاسکے لیکن قاتل نے ان کی جگہ پہ کھڑے امام پہ حملہ کیا۔ ان حملوں کے نتیجے میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اور دوسرے شخص تو شہید ہوگئے ، تاہم حضرت معاویہ رض زخمی ہوئے اور بعد میں شفایاب ہوگئے۔ آپ رض اس حملے کے بعد تین دن زندہ رہے اور اکیس رمضان المبارک کو شہادت کے مرتبے پہ سرفراز ہونے کے بعد اپنے خالق ِ حقیقی سے جاملے۔ آپ رض سے انہی آخری ایام میں اگلے خلیفہ کے طور پہ حضرت حسن مجتبی رض کا نام پیش کیا گیا، مگر آپ نے فرمایا کہ نہ تو میں تمہیں اس کے متعلق منع کرتا ہوں اور نہ ہی تاکید کرتا ہوں ، بلکہ اس کی صوابدید کا اختیار تمہارے اوپر چھوڑتا ہوں۔ چنانچہ آپ رض کی شہادت کے بعد آپ کی جماعت نے نواسہ رسول ﷺ سیدنا حسن ِ مجتبی کو خلیفہ منتخب فرماکر اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔ مگر باغیوں کی وہی جماعت اس موقع پر پھر ابھر کر سامنے آئی اور سیدنا حسن رض کو اس قدر تکالیف پہنچائیں کہ آپ نے بالآخر زمام ِ خلافت سیدنا معاویہ رض کو دینے کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ آپ رض نے امیر شام سیدنا معاویہ رض کی جانب صلح کا پیغام بھیجا، جس کے جواب میں سیدنا معاویہ رض نے ایک خالی پرچہ سیدنا حسن ِ مجتبی کی جانب بھیج دیا ، کہ اس پہ آپ جو بھی شرائط لکھ کر بھیجیں گے ، مجھے منظور ہونگی۔ چنانچہ اس کے بعد دونوں جماعتوں کے اندر سیدنا حسن ِ مجتبی کی عظیم الشان سیرت اور فقید المثال بصیرت کی بدولت صلح ہوئی جس کا نام ” عام الجماعۃ” پڑگیا۔ اور یوں سیدنا حسن مجتبی رض کی بابت نبی کریم ﷺ کا وہ ارشاد پورا ہوگیا جس کے مفہوم کے مطابق آپ کی پیدائش پہ نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ ، یہ میرا بیٹا سید (سردار) ہے اور اس کی بدولت اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح فرمائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالی ٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں اسلام کو سمجھنے، اصحاب ِ رسول ﷺ کا مرتبہ پہچاننے اور حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت عطا فرمائے اور ان تمام ہستیوں کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائے۔