امریکی نظام عالم کے کمزور ہونے سے دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ وہ موقع ہے جس میں کمزور اقوام دنیا میں اپنا مقام حاصل کر سکتی ہیں ، اگر وہاں کی قیادت خوددار اور غیرت مند ہو۔ غیرت کا لفظ ہمارے معاشرے میں عام طور پہ انفرادی درجے میں ہی استعمال ہو تا ہے، لیکن ایک قومی غیرت ہوتی ہے۔ قومی غیرت کا مظاہرہ قوم سے وفادار قیادت ہی کر سکتی ہے۔ ان بین الاقوامی حالات کا فائدہ اٹھا کر ایران نے چین سے دفاعی اور معاشی تعلقات پیدا کر لیے ہیں۔ ترکی بھی اپنے راستے پہ الگ ہو سکتا ہے۔ لیکن ہماری قیادت اب ایک نیا آقا تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ کبھی ہمیں ارتغرل دیکھا کر سعودی عرب کی جگہ ترکی کا بت تلاش کر رہی ہے اور امریکہ کی جگہ چین کو اپنا قبلہ بنانے کا سوچ رہی ہے۔ لیکن اس قیادت میں ذرا بھی شرم نہیں کہ اپنا خودداری کا راستہ تلاش کرے۔ یہ ہمیں دوسروں کی کھیر ہی کھلانا چاہتے ہیں۔ ایک طرف بوڑھے سامراج کی پروردہ قیادت ہے، جو ابھی بھی باوجود مغرب کے کمزور ہونے کے ، انہیں کے زیر اثر رہنا چاہتی ہے، جبکہ دوسری قیادت چین کو اپنا خدا بنانا چاہتی ہے۔ ہم 22 کروڑ لوگ، کیا اپنی کھیر نہیں پکا سکتے؟
قوموں کی تقدیر تبھی بدلتی ہے، جب اس کے اپنے خطے سے نظریہ اور سیاسی جماعت پھوٹے، کم از کم وفادار سیاسی جماعت تو ضروری ہے۔ لیکن پچھلے 70 سالوں میں جو جماعتیں مشہور ہوئی ہیں، ان کا وجود بیرونی مٹی سے بنایا گیا ہے۔ جھوٹے نظریات اور انفرادی مقاصد کی حامل قیادت نے کبھی بھی قوم کی درست رہنمائی نہیں کی اور نہ ہی ان کے لیے بین الاقوامی حالات کو سازگار بنایا ہے، بلکہ ہر معاملے میں ڈرایاضرور ہے، ہندو اکثریت کا خوف اس کی ایک مثال ہے۔ ہمارے سماج کو مسلسل کمزور اور لاغر رکھ کر اس کو اس حالت میں لا یا گیا ہے کہ اس سے اپنی مرضی کے فیصلے کروالیے جاتے ہیں۔
اب آتے ہیں پاکستان کی قیادت کی سوچ کی طرف۔ ایک آزاد قوم کی تعمیر کے لیے اپنے آپ کو منفرد بنانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ قوم کیسے منفرد بنتی ہے ،اس کے لیے ایک سیاسی جماعت جس کی اپنی فکرہو، اس فکر کو قائم کرنے کے لیے تعلیمی نظام، معاشی نظام، زراعت اور زمین کا نظام، صنعت اور دولت کی تقسیم کا طریقہ کار اور یہ سارا ادارہ جاتی عمل اپنی ہی زبان میں ہو۔ یہ ایک قوم بنانے کی طرف پہلا مرحلہ ہے۔ دوسرے مرحلے میں قوم کو دوسری اقوام کی طرف سے نئے چیلنج آ سکتے ہیں، ان کو حل کرنے کے لیے قیادت نئے طریقے، سیاسی اتحاد اور دشمنوں کے دشمنوں کو دوست بناتی ہے۔ ان مراحل میں ان کو مشکلات بھی آتی ہیں، لیکن وہ قیادت اپنی قوم کو اعتماد میں لے کر ان کو حل کر لیتی ہے۔
بدقسمتی سے وطن عزیز میں ایسا کوئی پلان ہی نہیں ہے۔ کوئی سیاسی جماعت ہی نہیں ہے۔ نظریہ ضرورت کی حامل ایک قوت تو موجود ہے، جس کے کئی چہر ے ہیں۔کوئی فکر نہیں ، کوئی تعلیمی نظام نہیں۔ بیرون ملک پڑھی لکھی افرادی قوت سپلائی کرنے کے لیے بیکن ہاؤس بدستور اپنا کا م کر رہاہے۔ امریکہ کی جگہ چین آگیا ہے۔ ڈالر کی جگہ اور سکے آ جائیں گے۔ انگریزی کے ساتھ چینی چلے گی، نئی طرز کی ڈیجیٹل سرمایہ داری چلے گی، زمین اور زراعت مزید استحصال کا شکار ہوگی، صنعت اب چینی کمپنیاں چلا کر دیں گی۔ پرانی غلامی کےآثار ابھی ختم نہیں ہوئے تھےاور ایک نئی بھیڑ چال شروع ہو گئی ہے۔یہ سب ختم کرنے کے لیے اپنا راستہ اختیار کرنا ہوگا، اس کے لیے ذرا دم چاہیے۔ نئی سوچ کی حامل جماعت چاہیے کیونکہ موجودہ نظریہ ضرورت کےسیاسی اتحاد تو محدود درجے کی سوچ کے حامل ہیں۔ یہ نظام کوئی دور رس نتائج کے لیے پلان نہیں کر پاتا اور 70 سال کے تجربوں سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اب یہ ناخدا ٹھیک نہیں ہے۔