• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
جماعت اسلامی؛ فکر وعمل ایک جائزہ: راؤ عبدالحمیدجماعت اسلامی؛ فکر وعمل ایک جائزہ: راؤ عبدالحمیدجماعت اسلامی؛ فکر وعمل ایک جائزہ: راؤ عبدالحمیدجماعت اسلامی؛ فکر وعمل ایک جائزہ: راؤ عبدالحمید
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

جماعت اسلامی؛ فکر وعمل ایک جائزہ: راؤ عبدالحمید

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • جماعت اسلامی؛ فکر وعمل ایک جائزہ: راؤ عبدالحمید
ہم 22 کروڑ لوگ، کیا اپنی کھیر نہیں پکا سکتے؟ : ڈاکڑ ممتازخان بلوچ
جولائی 28, 2020
اسلام کے حقیقی خدوخال اور ہمارے سلگتے مسائل
اگست 1, 2020
Show all

جماعت اسلامی؛ فکر وعمل ایک جائزہ: راؤ عبدالحمید

مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے افکار و اعمال کا مختصر جائزہ

جماعت اسلامی کا ہمارے ملک کی مذہبی نیم سیاسی جماعتوں میں شمار ہوتا ہے ۔ یہ ایک لمبے عرصے سے ہمارے معاشرے میں سرگرم عمل ہے لیکن آج تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی اس کی ناکامی کی بہت سی وجوہات ہیں زیر نظر تحریر میں چند ایک وجوہات کی نشاندھی کی گئی ہے۔
1. اسلامی معاشرہ کا قیام بنیادی ہدف ہے، اس مقصد کے حصول کا طریقہ کار اور نمونہ کے معاشرےکی جزئیات نامعلوم ہیں۔
2. جماعت کے اکثر کارکن متوسط اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن جماعت کا جھکاؤ ہمیشہ اعلیٰ طبقے کی طرف رہا ہے. متوسط اور نچلے طبقے کے مسائل سے کوئی سروکار نظر نہیں آتا.اسی لیے اس کی جڑیں کبھی عوام میں نہ پنپ سکیں.
3. مولانا مودودی کے افکار میں شروع سے ہی نجی اور غیر محدود ملکیت پر زور دیا گیا. سماجی اور معاشی اونچ نیچ کو فطرت کے عین مطابق قرار دیا اور اس کو حکم خداوندی قرار دیا گیا(اس سوچ نے جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ ذہنیت کو فروغ دیا اور عوام کی غربت اور مجبوری جیسے مسائل کی جڑ کو نظر انداز کر کے خدا تعالیٰ کو ذمہ دار قرار دیا گیا). 1970 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے ان افکار میں جز وقتی تبدیلی کی گئی تاکہ جاگیرداری کے خلاف لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جاسکے.
4. لوگوں کے موجودہ مسائل کو حل کرنے کی کبھی کوئی خواہش یا کوشش شدت سے نظر نہیں آئی، جس کی وجہ سے عام لوگوں نے کبھی بھی اس جماعت کی طرف کشش محسوس نہیں کی. جبکہ اس کے مہاجر قومی موومنٹ موجودہ متحدہ قومی موومنٹ لوگوں کے مسائل کو اجاگر کر کے عوام میں اپنی جگہ بنانے بہت حد تک کامیاب رہی.
5. عوامی سطح پر موجود معاشی جبر، نا انصافی، طبقاتی جبر اور ظلم استحصال کے خلاف کوئی بے چینی نظریاتی یا عملی سطح پر ناپید ہے.ان ناہمواریوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اخلاقی برائیوں کو ضرور برا سمجھا گیا ہے.
6. عورت کا دائرہ کار اس کا گھر ہے، عورت کا گھر سے نکلنا ناپسندیدہ فعل ہے. عورت کو برقع پہننا ضروری ہے. جماعت اسلامی کی اپنی کارکن خواتین الیکشن لڑنے، عوامی دفتر سنبھالنے سے لیکر سیاسی احتجاجی جلوس تک میں شامل ہوتی ہیں.(اس عملی اور نظریاتی تضاد کی وجہ نامعلوم ہے)
7. عائلی قوانین کی سخت مخالف ہے.
8. ہاتھ کاٹنے، سنگسار کرنے، کوڑے مارنے جیسی سزاؤں کی پر جوش حامی ہے.
9. سوشلزم کا نعرہ لگانے والوں کی “زبان گدی سے کھینچ لینے” کی دھمکی لگائی (شائد اس لیے کہ اس نظریہ میں عوامی معاشی مسائل کے حل موجود تھا، جبکہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی عوامی مسائل کے حل کو ضروری قرار نہیں دیتے تھے، اس پر ان کی عملی یا نظریاتی کاوش نظر نہیں آتی)
10. مولانا مودودی کی پیدائش سے وصال تک یہ خطہ سامراج اور استعماریت کی تجربہ گاہ بنا رہا. 1947 تک براہ راست سامراج انگریزوں کی شکل میں اور اس کے بعد بالواسطہ اس خطے پر قابض ہیں. مولانا مودودی کی قلم سے سامراج اور استعماریت کے خلاف کوئی تحریر یا ردعمل کبھی سامنے نہیں آیا. بلکہ امریکہ بلاک میں شمولیت پر 1954 میں جماعت اسلامی نے قرار داد منظور کی کہ پاکستان کو امریکہ پر انحصار کم کر کے خود مختاری پر گامزن ہو. اس وقت مولانا مودودی جیل میں قید تھے. جب ان کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے ناصرف ناگواری کا اظہار کیا بلکہ قید سے آزاد ہوتے ہی اس قرارداد کے مخالف ایک قرارداد پاس کروا کر پرانی امریکہ مخالف قرار داد کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش کی (اس عجیب منطق نے جماعت کے کردار کو پاکستان میں ہمیشہ مشکوک رکھا ہے)
11. اسلام کے قرن اول میں خلافت کو ملوکیت کا رنگ دینے والوں کے خلاف انتہائی سخت تنقید رویہ اختیار کیا( اس پر ایک مفصّل کتاب تحریر کی، جو اسلام کے ابتدائی دور بارے سادہ اذہان میں شکوک و شبہات کے فروغ کا باعث بنی) خود بھی جمہوریت اور شورائیت کے علمبردار رہے. اس کے باوجود جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے خصوصی تعلقات ایسے عرب ملک سے استوار رہے جو استعمار (امریکہ) کے مستقل حلیف، ملوکیت کے علمبردار، اسلام کے نظام شورائیت اور جمہوری تصورات سے کوسوں دور ہے. متوقع نفرت کی بجائے انہوں نے بادشاہوں کے نام سے منسوب ایوارڈ لینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی.
12. جماعت اسلامی میں مجلس شوریٰ ہونے کے باوجود مولانا مودودی بطور امیر کسی بھی فیصلہ کے خلاف فیصلہ کرنے کا اپنے آپ کو مجاز سمجھتے تھے. جبکہ جماعت کی شوریٰ میں ہمیشہ ہزاروں ارکان شامل رہے ہیں. مولانا اپنے نظریات سے مختلف بات سننا گوارا نہیں کرتے تھے. 1956 میں ماچھی گوٹھ میں جاری جلسہ میں ہونے والے اختلاف کو اس کی عمدہ مثال کہا جاسکتا ہے. جب کچھ لوگوں نے اس بات پر توجہ دلائی کہ جماعت کو سیاسی احتجاج چھوڑ کر یا کم کر کے معاشرے اور دنیا میں
موجود مسائل کا اسلامی حل پیش کرنا چاہیے تاکہ جماعت کی فکری تعمیر بہتر ہو اور جماعت کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو. مولانا نے اس تجویز کے خلاف مزاحمت کی اور اس مکتب فکر کو جماعت سے علیحدہ ہونے پر مجبور کیا. مجبوراً ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی گئی. جس نے پورے ملک کے ارکان سے تجاویز لےکر اپنی رپورٹ پیش کی. اس کمیٹی نے بھی اسی طرح کی تجاویز کی حمایت کی. مولانا مودودی نے اس رپورٹ کو اپنے مخالف پراپیگنڈا قرار دیا اور جب کچھ بات نا بنی تو امارت سے اس طرح استعفا کی پیشکش کی کہ جیسے مولانا اس دنیا میں نہیں ہیں. تب جماعت مجبوراً پیچھے ہٹی اور مولانا نے اپنی امارت برقرار رکھی. (اس کی مثال ایم کیو ایم کے الطاف حسین والی دی جاسکتی ہے، جیسے وہ ہر آنلائن خطاب میں جماعت سے دستبرداری کا اعلان کرتےاور اپنے کارکنوں کے اسرار پر باز آجاتے، علمی اور جماعتی انداز کا فرق کے باوجود بطور امیر اپنی بات منوانے کا انداز ایک جیسا ہی نظر آیا)
13. جماعت اسلامی کی ذیلی طلبہ تنظیموں میں تشددکا عنصر نمایاں ہوتا گیا ہے…

مناظر: 324
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ