مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے افکار و اعمال کا مختصر جائزہ
جماعت اسلامی کا ہمارے ملک کی مذہبی نیم سیاسی جماعتوں میں شمار ہوتا ہے ۔ یہ ایک لمبے عرصے سے ہمارے معاشرے میں سرگرم عمل ہے لیکن آج تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی اس کی ناکامی کی بہت سی وجوہات ہیں زیر نظر تحریر میں چند ایک وجوہات کی نشاندھی کی گئی ہے۔
1. اسلامی معاشرہ کا قیام بنیادی ہدف ہے، اس مقصد کے حصول کا طریقہ کار اور نمونہ کے معاشرےکی جزئیات نامعلوم ہیں۔
2. جماعت کے اکثر کارکن متوسط اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن جماعت کا جھکاؤ ہمیشہ اعلیٰ طبقے کی طرف رہا ہے. متوسط اور نچلے طبقے کے مسائل سے کوئی سروکار نظر نہیں آتا.اسی لیے اس کی جڑیں کبھی عوام میں نہ پنپ سکیں.
3. مولانا مودودی کے افکار میں شروع سے ہی نجی اور غیر محدود ملکیت پر زور دیا گیا. سماجی اور معاشی اونچ نیچ کو فطرت کے عین مطابق قرار دیا اور اس کو حکم خداوندی قرار دیا گیا(اس سوچ نے جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ ذہنیت کو فروغ دیا اور عوام کی غربت اور مجبوری جیسے مسائل کی جڑ کو نظر انداز کر کے خدا تعالیٰ کو ذمہ دار قرار دیا گیا). 1970 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے ان افکار میں جز وقتی تبدیلی کی گئی تاکہ جاگیرداری کے خلاف لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جاسکے.
4. لوگوں کے موجودہ مسائل کو حل کرنے کی کبھی کوئی خواہش یا کوشش شدت سے نظر نہیں آئی، جس کی وجہ سے عام لوگوں نے کبھی بھی اس جماعت کی طرف کشش محسوس نہیں کی. جبکہ اس کے مہاجر قومی موومنٹ موجودہ متحدہ قومی موومنٹ لوگوں کے مسائل کو اجاگر کر کے عوام میں اپنی جگہ بنانے بہت حد تک کامیاب رہی.
5. عوامی سطح پر موجود معاشی جبر، نا انصافی، طبقاتی جبر اور ظلم استحصال کے خلاف کوئی بے چینی نظریاتی یا عملی سطح پر ناپید ہے.ان ناہمواریوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اخلاقی برائیوں کو ضرور برا سمجھا گیا ہے.
6. عورت کا دائرہ کار اس کا گھر ہے، عورت کا گھر سے نکلنا ناپسندیدہ فعل ہے. عورت کو برقع پہننا ضروری ہے. جماعت اسلامی کی اپنی کارکن خواتین الیکشن لڑنے، عوامی دفتر سنبھالنے سے لیکر سیاسی احتجاجی جلوس تک میں شامل ہوتی ہیں.(اس عملی اور نظریاتی تضاد کی وجہ نامعلوم ہے)
7. عائلی قوانین کی سخت مخالف ہے.
8. ہاتھ کاٹنے، سنگسار کرنے، کوڑے مارنے جیسی سزاؤں کی پر جوش حامی ہے.
9. سوشلزم کا نعرہ لگانے والوں کی “زبان گدی سے کھینچ لینے” کی دھمکی لگائی (شائد اس لیے کہ اس نظریہ میں عوامی معاشی مسائل کے حل موجود تھا، جبکہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی عوامی مسائل کے حل کو ضروری قرار نہیں دیتے تھے، اس پر ان کی عملی یا نظریاتی کاوش نظر نہیں آتی)
10. مولانا مودودی کی پیدائش سے وصال تک یہ خطہ سامراج اور استعماریت کی تجربہ گاہ بنا رہا. 1947 تک براہ راست سامراج انگریزوں کی شکل میں اور اس کے بعد بالواسطہ اس خطے پر قابض ہیں. مولانا مودودی کی قلم سے سامراج اور استعماریت کے خلاف کوئی تحریر یا ردعمل کبھی سامنے نہیں آیا. بلکہ امریکہ بلاک میں شمولیت پر 1954 میں جماعت اسلامی نے قرار داد منظور کی کہ پاکستان کو امریکہ پر انحصار کم کر کے خود مختاری پر گامزن ہو. اس وقت مولانا مودودی جیل میں قید تھے. جب ان کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے ناصرف ناگواری کا اظہار کیا بلکہ قید سے آزاد ہوتے ہی اس قرارداد کے مخالف ایک قرارداد پاس کروا کر پرانی امریکہ مخالف قرار داد کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش کی (اس عجیب منطق نے جماعت کے کردار کو پاکستان میں ہمیشہ مشکوک رکھا ہے)
11. اسلام کے قرن اول میں خلافت کو ملوکیت کا رنگ دینے والوں کے خلاف انتہائی سخت تنقید رویہ اختیار کیا( اس پر ایک مفصّل کتاب تحریر کی، جو اسلام کے ابتدائی دور بارے سادہ اذہان میں شکوک و شبہات کے فروغ کا باعث بنی) خود بھی جمہوریت اور شورائیت کے علمبردار رہے. اس کے باوجود جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے خصوصی تعلقات ایسے عرب ملک سے استوار رہے جو استعمار (امریکہ) کے مستقل حلیف، ملوکیت کے علمبردار، اسلام کے نظام شورائیت اور جمہوری تصورات سے کوسوں دور ہے. متوقع نفرت کی بجائے انہوں نے بادشاہوں کے نام سے منسوب ایوارڈ لینے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی.
12. جماعت اسلامی میں مجلس شوریٰ ہونے کے باوجود مولانا مودودی بطور امیر کسی بھی فیصلہ کے خلاف فیصلہ کرنے کا اپنے آپ کو مجاز سمجھتے تھے. جبکہ جماعت کی شوریٰ میں ہمیشہ ہزاروں ارکان شامل رہے ہیں. مولانا اپنے نظریات سے مختلف بات سننا گوارا نہیں کرتے تھے. 1956 میں ماچھی گوٹھ میں جاری جلسہ میں ہونے والے اختلاف کو اس کی عمدہ مثال کہا جاسکتا ہے. جب کچھ لوگوں نے اس بات پر توجہ دلائی کہ جماعت کو سیاسی احتجاج چھوڑ کر یا کم کر کے معاشرے اور دنیا میں
موجود مسائل کا اسلامی حل پیش کرنا چاہیے تاکہ جماعت کی فکری تعمیر بہتر ہو اور جماعت کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہو. مولانا نے اس تجویز کے خلاف مزاحمت کی اور اس مکتب فکر کو جماعت سے علیحدہ ہونے پر مجبور کیا. مجبوراً ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی گئی. جس نے پورے ملک کے ارکان سے تجاویز لےکر اپنی رپورٹ پیش کی. اس کمیٹی نے بھی اسی طرح کی تجاویز کی حمایت کی. مولانا مودودی نے اس رپورٹ کو اپنے مخالف پراپیگنڈا قرار دیا اور جب کچھ بات نا بنی تو امارت سے اس طرح استعفا کی پیشکش کی کہ جیسے مولانا اس دنیا میں نہیں ہیں. تب جماعت مجبوراً پیچھے ہٹی اور مولانا نے اپنی امارت برقرار رکھی. (اس کی مثال ایم کیو ایم کے الطاف حسین والی دی جاسکتی ہے، جیسے وہ ہر آنلائن خطاب میں جماعت سے دستبرداری کا اعلان کرتےاور اپنے کارکنوں کے اسرار پر باز آجاتے، علمی اور جماعتی انداز کا فرق کے باوجود بطور امیر اپنی بات منوانے کا انداز ایک جیسا ہی نظر آیا)
13. جماعت اسلامی کی ذیلی طلبہ تنظیموں میں تشددکا عنصر نمایاں ہوتا گیا ہے…