ایک چیلنج جو پاکستانی سوسائٹی کو ہمیشہ سے درپیش رہا ہے، وہ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک میں اسلام کے حقیقی چہرے، مہرے اور حُلیے کی پہچان ہے۔ اس نئے ملک کی خالق سیاسی قوتوں نے اگست 1947ء میں قوم کو اسلام کے نام پر اس راستے پر ڈالا کہ ہمیں اسلام کے لیے ایک الگ وطن چاہیے، لیکن وہ اس عالَم گیر مذہب کی وسعتوں اور جامعیت کے مطابق قوم کے ذہن کو تیار نہ کرسکے، بلکہ اس کے برعکس افکار و خیالات پر قوم کی ذہن سازی کرتے رہے، جس کے نتائج آج ملکِ عزیز میں ہر چار سُو پھیل چکے ہیں۔ اگر آج بھی ہم اس حوالے سے سنجیدہ ہو جائیں تواس کا صرف ایک ہی آسان حل ہے کہ ہم اسلام کو نعروں، وقتی جذبات اور اپنی خواہشات کے بجائے اس کی ابدی سچائیوں اور لازوال حقائق کی بنیاد پرسمجھنے کی شعوری کوشش کریں۔
ہمارے ہاں چیزوں کو ان کے اصل روٹس کے بجائے جذباتی پیمانوں سے ناپا جاتا رہا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارا ملک ’’پاکستان‘‘ سے زیادہ ’’مسائلستان‘‘ کا نقشہ پیش کررہا ہے۔ کوئی ایک بھی ایسا مسئلہ نہیں، جسے ہم نے عقل و دانش کی بنیاد پر بغیر کسی تنازعے اور اُلجھاؤ کے حل کرلیا ہو۔ ہم مسائل کو حل کرتے کرتے نئے مسائل کا شکارہوتے رہے ہیں۔ ملک بناتے وقت ہم نے ہندو مسلم نفرت کا پارا اتنا اوپر چڑھایا، جسے واپس لانا ممکن نہ رہا۔ جس نے بعد ازاں ہمارے خطے کے لیے باقاعدہ ایک خطرے کی شکل اختیار کرلی اور ہم اپنی پس ماندگی دور کرنے کے بجائے فوجی ساز و سامان جمع کرنے میں لگے رہے اور ہمارا پورا معاشرتی ڈھانچہ جنگی نفسیات کا شکار ہوکر رہ گیا۔ اب ہم ایک ایٹمی قوت تو ہیں، لیکن اپنی بجلی کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتے۔ ایسے ہی مختلف سمتوں میں بٹے پاکستان میں تہذیبی ہم آہنگی پیدا کرتے کرتے ہم دونوں حصوں کوالگ الگ کربیٹھے اور اس پر ہماری نام نہاد سیاسی لیڈرشپ کی ڈھٹائی قابلِ دید تھی، جو کہہ رہے تھے کہ ہم نے ملک کوتباہ ہونے سے بچالیا ہے۔
الغرض! کشمیر ایشو ہو یا عبادت گاہوں کی آبادکاری یا ان پر کسی کا حق تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ ہو،ہم نے سب ہی عارضی ایشوز کو مستقل ایشوز میں بدل دیا۔ حتیٰ کہ فلسفۂ ختم نبوت جیسے حکمت آموز، انسانیت گیر اور تاریخ ساز مسئلے کو بھی ہم نے جذبات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ملک کے اندر مذہب کے نام پر قانون سازی میں بھی ہم جذباتی اور فرقہ وارانہ فضا سے اوپر اٹھ کر سوچنے کے اہل نہیں رہے۔ اسلام کے ہر عظیم نظریے کے ابلاغ اور اظہار میں جذباتیت اور علمی بے شعوری ہماری راہ کی سد ِسکندری بن کررہ گئی ہے اور ہم ہر مسئلے کو مذہبی رنگ دے کر فرقہ وارانہ نوعیتوں میں تبدیل کردیتے ہیں۔
اسلام کی عظمت و رفعت کے ہزار امتیازات میں سے سب سے نمایاں پہلو اس کی امن پسندی، رواداری، فتنہ و فساد کا خاتمہ، انسانیت نوازی اور عقل و خرد کو استعمال میں لانا ہے، جس سے بدقسمتی سے ہم دن بہ دن محروم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اسلامی فکر و نظریے کا دوسرا اہم امتیاز معاشرے سے طبقاتی تقسیم کا خاتمہ، معاشی خوش حالی کا نظریہ اور بلاامتیاز مذہب، رنگ و نسل‘ عدل و انصاف کا قیام ہے۔ اسے ہماری سوسائٹی کا المیہ کہیے یا حادثہ، یا پھر سازش کہہ لیجیے کہ ہمارے قومی و مذہبی پیشواؤں کے ہاں یہ دونوں چیزیں ڈھونڈے سے نہیں ملتیں۔ ان کی زبانوں کے ترکش اپنے مخالفوں کے لیے آتش کے پرکالے چھوڑتے ہیں۔ نفرت، فرقہ واریت، ہمہ قسم گروہیت ان کے ’’نصب العین‘‘ کا جزلاینفک ہے۔ ان نفرتوں کے الاؤ جلانے کے لیے جذبات کا بے جا استعمال بڑا وافر ہے۔ ملکِ عزیز کی مختصر سی قومی تاریخ میں پیش آنے والے مسائل کو ہمارے اَن داتاؤں نے گہری بصیرت کے بجائے جذبات کی ناؤ پر بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ مذہبی فرقوں کے درمیان تناؤ، مسئلۂ کشمیر، جہاد پالیسی اور بین الاقوامی تناظر میں کسی مربوط قومی پالیسی کا نہ ہونا ہمارے طرز ِفکرکی ناکامیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مسائل کے مستقل اور پائیدار حل کے لیے جس گہرے قومی اور انسانی شعور کی ضرورت ہوتی ہے، اس سے ہمارے نام نہاد لیڈر ہمیشہ تہی دست رہے ہیں۔ ملک میں مختلف مسائل کی موجودگی میں اسلام کے انسان دوست اور امن پسند نظریے سے انھیں حل کرنے کے بجائے مذہبی جذبات بھڑکا کر پورے ملک کو سلگتے ہوئے الاؤ میں تبدیل کردینا مذہب کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟
ملک میں ایک بار پھر اُبھرتی ہوئی شدت پسندی کی نئی لہر کسی نئے خطرے کا الارم ہوسکتی ہے۔ کیوںکہ اب شدت پسندی اور اس سے جڑے جذباتی مسائل کو دنیا میں جنگی حکمتِ عملی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ روایتی جنگ سے زیادہ ان غیرروایتی جنگی ہتھکنڈوں کو تیسری دنیا کے ملکوں میں استعمال کرکے عدمِ استحکام پیدا کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے مذہب و سیاست کے نام پرمقامی قوتوں کا استعمال روز افزوں ہے۔ اس حوالے سے ہمارے ملک کی تاریخ بہت ہی دردناک تاریخی حقائق کی حامل ہے۔
اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں ایسے تاریخی، قومی اور ملّی مسائل کے حل نہ ہونے کے سبب دنیا بھر میں یہ تأثر پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ اس دور میں مذہب کی اساس پر قائم ممالک سوائے فرقہ واریت اور رجعت پسندی کو فروغ دینے کے اَور کوئی کام نہیں کر رہے۔ وہ دین اسلام جو بین الاقوامی مسائل حل کرنے کے لیے آیا ہے، ہماری نااہلی اور غلط کاریوں کے سبب اگر اس کے بارے میں یہ تأثر پیدا ہو تو یہ بہت خطرناک ہے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نازک موقع پر نسلِ نو میں اسلام کے حقیقی شعور کو اُجاگر کیا جائے، جس کی بدولت ہم اپنی حقیقی آزادی اور خودمختاری کے حصول کے ساتھ ساتھ معاشرے میں موجود اُلجھے ہوئے اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کرسکیں اور بہ طور مسلمان جماعت اپنے ملک کو امن و سکون اور خوش حالی کا گہوارہ بناکر پوری دنیا کے سامنے اسلام کی حقانیت کو ثابت کرسکیں۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور، اگست 2020ء)