• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
اسلام کے حقیقی خدوخال اور ہمارے سلگتے مسائلاسلام کے حقیقی خدوخال اور ہمارے سلگتے مسائلاسلام کے حقیقی خدوخال اور ہمارے سلگتے مسائلاسلام کے حقیقی خدوخال اور ہمارے سلگتے مسائل
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

اسلام کے حقیقی خدوخال اور ہمارے سلگتے مسائل

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • اسلام کے حقیقی خدوخال اور ہمارے سلگتے مسائل
جماعت اسلامی؛ فکر وعمل ایک جائزہ: راؤ عبدالحمید
جولائی 30, 2020
حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کا طرزِ فکر اور عرب اسرائیل مسئلے کا پسِ منظر
ستمبر 1, 2020
Show all

اسلام کے حقیقی خدوخال اور ہمارے سلگتے مسائل

ایک چیلنج جو پاکستانی سوسائٹی کو ہمیشہ سے درپیش رہا ہے، وہ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک میں اسلام کے حقیقی چہرے، مہرے اور حُلیے کی پہچان ہے۔ اس نئے ملک کی خالق سیاسی قوتوں نے اگست 1947ء میں قوم کو اسلام کے نام پر اس راستے پر ڈالا کہ ہمیں اسلام کے لیے ایک الگ وطن چاہیے، لیکن وہ اس عالَم گیر مذہب کی وسعتوں اور جامعیت کے مطابق قوم کے ذہن کو تیار نہ کرسکے، بلکہ اس کے برعکس افکار و خیالات پر قوم کی ذہن سازی کرتے رہے، جس کے نتائج آج ملکِ عزیز میں ہر چار سُو پھیل چکے ہیں۔ اگر آج بھی ہم اس حوالے سے سنجیدہ ہو جائیں تواس کا صرف ایک ہی آسان حل ہے کہ ہم اسلام کو نعروں، وقتی جذبات اور اپنی خواہشات کے بجائے اس کی ابدی سچائیوں اور لازوال حقائق کی بنیاد پرسمجھنے کی شعوری کوشش کریں۔

ہمارے ہاں چیزوں کو ان کے اصل روٹس کے بجائے جذباتی پیمانوں سے ناپا جاتا رہا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارا ملک ’’پاکستان‘‘ سے زیادہ ’’مسائلستان‘‘ کا نقشہ پیش کررہا ہے۔ کوئی ایک بھی ایسا مسئلہ نہیں، جسے ہم نے عقل و دانش کی بنیاد پر بغیر کسی تنازعے اور اُلجھاؤ کے حل کرلیا ہو۔ ہم مسائل کو حل کرتے کرتے نئے مسائل کا شکارہوتے رہے ہیں۔ ملک بناتے وقت ہم نے ہندو مسلم نفرت کا پارا اتنا اوپر چڑھایا، جسے واپس لانا ممکن نہ رہا۔ جس نے بعد ازاں ہمارے خطے کے لیے باقاعدہ ایک خطرے کی شکل اختیار کرلی اور ہم اپنی پس ماندگی دور کرنے کے بجائے فوجی ساز و سامان جمع کرنے میں لگے رہے اور ہمارا پورا معاشرتی ڈھانچہ جنگی نفسیات کا شکار ہوکر رہ گیا۔ اب ہم ایک ایٹمی قوت تو ہیں، لیکن اپنی بجلی کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتے۔ ایسے ہی مختلف سمتوں میں بٹے پاکستان میں تہذیبی ہم آہنگی پیدا کرتے کرتے ہم دونوں حصوں کوالگ الگ کربیٹھے اور اس پر ہماری نام نہاد سیاسی لیڈرشپ کی ڈھٹائی قابلِ دید تھی، جو کہہ رہے تھے کہ ہم نے ملک کوتباہ ہونے سے بچالیا ہے۔

الغرض! کشمیر ایشو ہو یا عبادت گاہوں کی آبادکاری یا ان پر کسی کا حق تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ ہو،ہم نے سب ہی عارضی ایشوز کو مستقل ایشوز میں بدل دیا۔ حتیٰ کہ فلسفۂ ختم نبوت جیسے حکمت آموز، انسانیت گیر اور تاریخ ساز مسئلے کو بھی ہم نے جذبات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ملک کے اندر مذہب کے نام پر قانون سازی میں بھی ہم جذباتی اور فرقہ وارانہ فضا سے اوپر اٹھ کر سوچنے کے اہل نہیں رہے۔ اسلام کے ہر عظیم نظریے کے ابلاغ اور اظہار میں جذباتیت اور علمی بے شعوری ہماری راہ کی سد ِسکندری بن کررہ گئی ہے اور ہم ہر مسئلے کو مذہبی رنگ دے کر فرقہ وارانہ نوعیتوں میں تبدیل کردیتے ہیں۔

اسلام کی عظمت و رفعت کے ہزار امتیازات میں سے سب سے نمایاں پہلو اس کی امن پسندی، رواداری، فتنہ و فساد کا خاتمہ، انسانیت نوازی اور عقل و خرد کو استعمال میں لانا ہے، جس سے بدقسمتی سے ہم دن بہ دن محروم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اسلامی فکر و نظریے کا دوسرا اہم امتیاز معاشرے سے طبقاتی تقسیم کا خاتمہ، معاشی خوش حالی کا نظریہ اور بلاامتیاز مذہب، رنگ و نسل‘ عدل و انصاف کا قیام ہے۔ اسے ہماری سوسائٹی کا المیہ کہیے یا حادثہ، یا پھر سازش کہہ لیجیے کہ ہمارے قومی و مذہبی پیشواؤں کے ہاں یہ دونوں چیزیں ڈھونڈے سے نہیں ملتیں۔ ان کی زبانوں کے ترکش اپنے مخالفوں کے لیے آتش کے پرکالے چھوڑتے ہیں۔ نفرت، فرقہ واریت، ہمہ قسم گروہیت ان کے ’’نصب العین‘‘ کا جزلاینفک ہے۔ ان نفرتوں کے الاؤ جلانے کے لیے جذبات کا بے جا استعمال بڑا وافر ہے۔ ملکِ عزیز کی مختصر سی قومی تاریخ میں پیش آنے والے مسائل کو ہمارے اَن داتاؤں نے گہری بصیرت کے بجائے جذبات کی ناؤ پر بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ مذہبی فرقوں کے درمیان تناؤ، مسئلۂ کشمیر، جہاد پالیسی اور بین الاقوامی تناظر میں کسی مربوط قومی پالیسی کا نہ ہونا ہمارے طرز ِفکرکی ناکامیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

مسائل کے مستقل اور پائیدار حل کے لیے جس گہرے قومی اور انسانی شعور کی ضرورت ہوتی ہے، اس سے ہمارے نام نہاد لیڈر ہمیشہ تہی دست رہے ہیں۔ ملک میں مختلف مسائل کی موجودگی میں اسلام کے انسان دوست اور امن پسند نظریے سے انھیں حل کرنے کے بجائے مذہبی جذبات بھڑکا کر پورے ملک کو سلگتے ہوئے الاؤ میں تبدیل کردینا مذہب کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟

ملک میں ایک بار پھر اُبھرتی ہوئی شدت پسندی کی نئی لہر کسی نئے خطرے کا الارم ہوسکتی ہے۔ کیوںکہ اب شدت پسندی اور اس سے جڑے جذباتی مسائل کو دنیا میں جنگی حکمتِ عملی کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ روایتی جنگ سے زیادہ ان غیرروایتی جنگی ہتھکنڈوں کو تیسری دنیا کے ملکوں میں استعمال کرکے عدمِ استحکام پیدا کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے مذہب و سیاست کے نام پرمقامی قوتوں کا استعمال روز افزوں ہے۔ اس حوالے سے ہمارے ملک کی تاریخ بہت ہی دردناک تاریخی حقائق کی حامل ہے۔

اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں ایسے تاریخی، قومی اور ملّی مسائل کے حل نہ ہونے کے سبب دنیا بھر میں یہ تأثر پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ اس دور میں مذہب کی اساس پر قائم ممالک سوائے فرقہ واریت اور رجعت پسندی کو فروغ دینے کے اَور کوئی کام نہیں کر رہے۔ وہ دین اسلام جو بین الاقوامی مسائل حل کرنے کے لیے آیا ہے، ہماری نااہلی اور غلط کاریوں کے سبب اگر اس کے بارے میں یہ تأثر پیدا ہو تو یہ بہت خطرناک ہے۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نازک موقع پر نسلِ نو میں اسلام کے حقیقی شعور کو اُجاگر کیا جائے، جس کی بدولت ہم اپنی حقیقی آزادی اور خودمختاری کے حصول کے ساتھ ساتھ معاشرے میں موجود اُلجھے ہوئے اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت بھی حاصل کرسکیں اور بہ طور مسلمان جماعت اپنے ملک کو امن و سکون اور خوش حالی کا گہوارہ بناکر پوری دنیا کے سامنے اسلام کی حقانیت کو ثابت کرسکیں۔

(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور، اگست 2020ء)

مناظر: 271
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جولائی 11, 2022

عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ