حضرت اقدس مولانا شاہ سعید احمد رائے پوری نوراللہ مرقدہٗ خطۂ برعظیم پاک وہند کی ایک باشعور دینی، سیاسی اور روحانی شخصیت تھے۔ ستمبر ان کے وصال کا مہینہ ہے۔ ان کا 26؍ ستمبر 2012ء کو لاہور میں انتقال ہوا۔ 33/A کوئینز روڈ لاہور پر ادارہ رحیمیہ سے متصل ’’گلزارِ رحیمی‘‘ میں مدفون ہیں۔
حضرت رائے پوریؒ ایک قومی دھارے کے بین الاقوامی صلاحیتوں کے حامل لیڈر تھے۔ ان کی نگاہ بڑی دور رس تھی۔ وہ اپنے سیاسی تدبر میں اپنی مثال آپ تھے۔ ان کے گراں قدر سیاسی و سماجی اَفکار ہماری علمی و فکری تاریخ کا قابلِ قدر قیمتی اَثاثہ ہیں۔ حالاتِ حاضرہ کے سیاسی و اقتصادی مسائل میں درست زاویۂ نگاہ ان کی شخصیت کا لازمی جزو تھا۔ اب تک کے متعدد ایشوز پر تاریخ ان کی رائے کے حق میں کروٹ لی چکی ہے۔ ہماری ماضی قریب کی تاریخ کے بہت سے قومی و بین الاقوامی ایشوز پر حضرت رائے پوریؒ کا زاویۂ نظر ملک کے باشعور حلقوں میں اپنی اِصابتِ رائے کے باعث خراجِ تحسین وصول کرچکا ہے۔ ان کا دینی و سیاسی شعور محض وقتی و ہنگامی حالات کے تابع نہیں تھا، بلکہ انسانی، آفاقی اور سدا بہار تھا۔ ہمارے ملک کے نوجوانوں کی ایک بڑی اجتماعیت کی تربیت و ذہن سازی ان کے دانشورانہ اَفکار و خیالات کی رہینِ منت ہے۔ وہ ان کے افکار کو اپنے لیے مشعل راہ سمجھتی ہے۔
آج کل ایک بار پھر قومی وبین الاقوامی سطح پر میڈیا میں عرب اسرائیل مسئلہ زیرِ بحث ہے۔ ہم نے حضرت رائے پوریؒ کے وصال کی نسبت سے اس مسئلے کی نوعیت کو ان کے طرز ِفکر کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے طرز ِفکر کا کمال یہ تھا کہ وہ ایشوزکو جذبات کے بجائے زمینی حقائق کے تناظر میں دیکھتے تھے۔ بدقسمتی سے آج بھی اس مسئلے کو اپنے درست تناظر میں نہ دیکھنے اور سمجھنے کی وجہ سے ہمارے ہاں جو غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں، ان کی وَجہ سے دین، سیاست، امن اور فکر و نظر کے بہت سے تقاضے مجروح ہورہے ہیں۔
ہمارے ہاں جب بھی اسرائیل، عرب اور فلسطین زیرِبحث آتے ہیں تو عام طور پر یہ سمجھ لیاجاتا ہے کہ یہ فلسطین کے عرب مسلمانوں اور اسرائیل کے یہودیوں کے درمیان کوئی مذہبی جھگڑا ہے۔ یعنی دو مذاہب؛ اسلام اور یہودیت کا کوئی تنازعہ ہے، جس کی وَجہ سے لوگ اپنے پہلے سے قائم شدہ تصورات کے حوالے سے عالَمِ کفر اور عالَمِ اسلام کی قائم شدہ نفسیاتی پناہ گاہوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں، حال آںکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں بہت سے مقامات پر یہودیوں کو عیسائیوں کے ظلم وجبر سے بچایا۔ اس سلسلے میں ہسپانیہ ایک خصوصی مثال ہے، جہاں مسلمانوں نے انھیں ظلم سے نجات دلا کر کئی سو سال تک اپنے نظامِ عدل تلے ترقی و خوش حالی کے مواقع بہم پہنچائے۔
حضرت شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ: ’’یہ دو مذہبوں کی لڑائی نہیں ہے، بلکہ یہ برطانیہ کی استعماری پالیسی کا ایک شاخسانہ ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ یہ اسرائیلی ریاست عرب دنیا کے سینے میں ایک استعماری خنجر ہے۔‘‘ ان کی گفتگو کا پسِ منظر یہ ہوتا تھا کہ دنیا بھر سے فلسطین میں یہودیوں کے ایک خاص جارحانہ فرقے کوعالمی قوتوں کے ایما پر اکٹھا کیا گیا ہے، جسے عربوں پر مسلط کرکے ان کی آزادیوں کو سلب کرنے کا منصوبہ ہے۔ ہماری مخالفت کی وجہ صہیونیت کے سامراجی، نسل پرستانہ اور توسیع پسندانہ عزائم ہیں۔اس ملک کے قیام کے پیچھے چھپے صہیونیت اور سامراجیت کے درمیان قائم رشتے کو سمجھنا سب سے اہم ہے۔
اسرائیلی یہودی ضرور ہیں، لیکن وہ یہودیوں کا ایک خاص جارحانہ فرقہ ہے، جس کو مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں، بلکہ اس کا اصل مطمح نظر اس کے توسیع پسندانہ عزائم ہیں۔ فلسطین میں صہیونی ریاست کے قیام کے لیے بہت سی سرگرم صہیونی تنظیمیں اور افراد تشدد اور دہشت گردی کو بھی سرِعام روا رکھتے رہے ہیں۔ بہت سے پبلک مقامات پر وہ تشدد پسند کارروائیاں بھی کرتے رہے ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کی بنیاد صہیونیت ہے، جو کہ یہودیت سے مختلف ہے۔ ہمیں آج بھی دنیا میں اس کی مثال ملتی ہے کہ بہت سے روایت پسند یہودی علما اسرائیل کے قیام کو درست نہیں سمجھتے۔ صہیونیت کے مبلغ یہودی مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور دنیا میں مذہبی شدت پسندی کا ایک ماڈل ان صہیونی یہودیوں کے ہاں پایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جب تک قومی سیاسی سوچ کا فکر غالب رہا ہے تو ایسے ایشو پر تمام قومی سوچ کے حامل دانشوروں کا مؤقف یکساں رہا ہے۔ آپ دیکھ لیجیے کہ اس مسئلے پر اس خطے کے تمام انصاف پسند دانشور، خواہ وہ جس بھی مذہب یا پارٹی سے تعلق رکھتے تھے، وہ عربوں کی قومی تحریک کو سپورٹ کرتے رہے۔ بلاشبہ فلسطین کی قومی آزادی کی تحریک میں مقامی (عرب) مسیحی اور یہودی، مغرب کی قائم کردہ صہیونی ریاست کے خلاف مقامی مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ رہے ہیں اور کئی مواقع پر بین الاقوامی سطح کی سرفروشانہ کارروائیوں میں بھی شریک رہے ہیں۔
حضرت مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ اس مسئلے کو عربوں کی قومی تحریکاتِ آزادی اور عالمی قوتوں کی سازشوں کے تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی دعوت دیتے تھے۔ وہ اسی قومی طرز ِفکر کے تحت برعظیم ہند و پاک میں موجود سیاسی نوعیتوں کو حل کرنا چاہتے تھے۔ حضرت رائے پوریؒ کے طرز ِفکر کا یہ قومی اور انسانی پہلو آج پاکستان کو بہت سے درپیش مسائل میں ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ ہم کس طرح انسانیت کی مشترکہ اساس امن، عدل اور مساوات کو بنیاد بناکر اپنے ملک کی ترقی کے راستے کو ہموار کر سکتے ہیں۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور، ستمبر 2020ء)