• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
سندھ دھرتی کا عظیم شہر؛ کراچی نشانے پر کیوں؟سندھ دھرتی کا عظیم شہر؛ کراچی نشانے پر کیوں؟سندھ دھرتی کا عظیم شہر؛ کراچی نشانے پر کیوں؟سندھ دھرتی کا عظیم شہر؛ کراچی نشانے پر کیوں؟
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

سندھ دھرتی کا عظیم شہر؛ کراچی نشانے پر کیوں؟

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • سندھ دھرتی کا عظیم شہر؛ کراچی نشانے پر کیوں؟
حضرت مولانا شاہ سعید احمد رائے پوریؒ کا طرزِ فکر اور عرب اسرائیل مسئلے کا پسِ منظر
ستمبر 1, 2020
پھر اتحادوں کی سیاست!
نومبر 1, 2020
Show all

سندھ دھرتی کا عظیم شہر؛ کراچی نشانے پر کیوں؟

سندھ کی عظیم دھرتی پر موجود کراچی شہر کی تاریخ سندھ کی تاریخ کی طرح ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ مچھیروں کی یہ ایک چھوٹی سی بستی آج دنیا کا بین الاقوامی شہر بن چکا ہے۔ اس حقیقت سے نئی نسل کے بہت کم لوگ آگاہ ہیں کہ سندھ پر انگریزوں کے قبضے سے قبل یہ دھرتی برعظیم پاک و ہند کی بڑی زرخیز دھرتی تھی۔ انگریزوں نے سندھ کے مجاہدینِ آزادی کی سرفروشانہ جدوجہد کے باوجود جب سندھ پر قبضہ کرلیا تو ان کی نظریں سندھ کے اس شہر کے محلِ وقوع کی اہمیت کے باعث اس پر جم گئیں۔ ہندوستان میں بیٹھا انگریز جب سندھ پر قبضے کے منصوبے بنارہا تھا تو وہ ساحلِ سمندر پر واقع اس شہر کی بندرگاہ کو بمبئی، سورت اور کلکتہ کی بندرگاہوں جیسی ہی اہمیت دے رہا تھا۔

چناں چہ کراچی پر قبضہ کرتے ہوئے جنرل نیپیئر نے کہا تھا: ’’ہمیں سندھ پر قبضہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، مگر ہم ایسا ضرور کریں گے اور یہ ایک بے حد سود مند، کارآمد اور درمندانہ بدمعاشی ہوگی۔‘‘ اسی طرح ایک اَور انگریزافسر نے کہا تھا کہ: ’’ہمیں سندھ میں مستقبل کے لیے ہر کام کرنا چاہیے، تاکہ ایک اَور ’’مصر‘‘ کی بنیاد رکھی جاسکے۔‘‘

یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سندھ میں اُبھرنے والی تحریکاتِ آزادی کا ایک اہم مرکز کراچی بھی رہا ہے۔ چناں چہ 1857ء کی جنگِ آزادی میں رام دین پانڈے اور اس کے ساتھیوں کو اسی پاداش میں پھانسی دے کر مشہورِ زمانہ ایمپریس مارکیٹ کی جگہ ان کو ایک گڑھے میں دفنایا گیا، جو بعد ازاں آزادی کے متوالوں کے لیے ایک عقیدت کے مرکز کی حیثیت اختیار کرنے لگا تو اس جگہ اس مارکیٹ کی عمارت کھڑی کرکے لوگوں کی نظروں سے آزادی کے ان نشانات کو اوجھل کردیا گیا۔

کراچی آئے دن گوناگوں مسائل کا شکار رہتا ہے۔ سندھ کی عظیم دھرتی کا یہ شہر کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا۔ وہ ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دنیا کا چھٹا بڑا شہر ہے۔ یہ شہر 25 ملین سے زائد آبادی رکھتا ہے۔ یہ 18 ٹاؤنز اور سات اَضلاع پر مشتمل ہے۔ پورے ملک کی معاشی سرگرمیوں کا بنیادی حب (hub) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے پورے ملک کا 44 فی صد ٹیکس جمع ہوتا ہے۔ اس کا تہذیبی تنوع پاکستان ہی نہیں، بلکہ برعظیم کی بہت سی ثقافتوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اسی تنوع کے سبب اسے ’’منی پاکستان‘‘ (mini Pakistan) بھی کہا جاتا ہے۔

ملک کا سب سے بڑا کاروباری اور تجارتی مرکز ہونے کے سبب اس کے مسائل صرف اہلِ کراچی تک محدود نہیں، بلکہ اس کے اثرات مجموعی ملکی ترقی پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہاں کے باسی روزگار، امن وامان، رہائشی سہولتوں، بجلی پانی گیس سمیت اَن گنت مسائل کے شکار رہے ہیں، لیکن جس مسئلے نے ان کی زندگی کے سکون کو چھین لیا ہے، وہ گزشتہ دنوں بارشوں کے سبب شہر بھر میں بھر جانے والا پانی تھا، جو طونانِ نوح کا نقشہ پیش کررہا تھا، جس کی وجہ سے وہاں کی سڑکیں ندی نالوں کی صورت اختیار کرگئیں۔ مکانات میں پانی بھرنے کی وجہ سے لوگ اپنے ہی شہر میں بیگانے ہوکر رہ گئے۔

یہ بات سوچنے والی ہے کہ آخر سندھ جیسی عظیم اور قدیم تہذیب سے جڑے اس شہر کو اُجاڑنے کے درپے قوتیں کون ہیں اور ان کے کیا مقاصد ہیں؟ کراچی کے حالیہ مسائل ہوں یا ماضی میں عذابِ جان بننے والے المیے، ان کے پیچھے وہی قوتیں ہیں جو اسے نوآبادیاتی (neo colonial) عہدکے مصر کی طرح دیکھتی رہی ہیں۔ انھوں نے سندھ کے ترقی پسند سامراج دشمن مجاہدینِ آزادی کو ناکام کرکے کراچی کو اپنے کنٹرول میں رکھا تھا۔ وہ یہاں سے پاکستان کے تمام صوبوں کو کنٹرول کرنا اور خطے کے دیگر اہم ممالک کے مقابلے میں اپنی سٹریٹجک پوزیشن کو مضبوط کرنا چاہتے تھے، تاکہ مستقبل کی تجارت اور جنگوں کی حکمتِ عملی ان کے ہاتھ میں رہے۔ اسی لیے انھوں نے اس شہر کی جغرافیائی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے یہاں ترقیات کا آغاز کیا تھا۔

مزید برآں اس شہر کو قیامِ پاکستان کے بعد دارالحکومت بنایا گیا اور ہندوستان سے نقل مکانی کرکے آنے والے طبقوں کو بھی تحفظات کاشکار بنا کر مستقبل کے منظر نامے کے لیے تیار کیا گیا۔ تقسیم کے بعد شاید ہی پاکستان کے کسی شہر کی ایسی مثال ملتی ہو، جو ایک دفعہ یکا یک خالی ہوگیا ہو اور پھر لبالب بھر جائے۔ پاکستان بننے کے بعد مسلط کی گئی بیوروکریسی کی تربیت انگریز نے کی تھی۔ اسی لیے انھوں نے پاکستان کے مستقبل کے نقشوں میں سارا رنگ اپنے منصوبوں کے تحت بھرا۔ اس نئے بننے والے نظام میں نہ صرف یہاں سندھ کے مقامی قومی سوچ رکھنے والے طبقوں کو نظر انداز کرکے اپنے منصوبوں کو روبہ عمل لایا گیا، بلکہ پاکستان کے دوسرے حصوں میں بھی یہ کھیل کھیلا گیا۔

پھر اس شہرکی صوبہ سندھ کے ساتھ ہم آہنگی ختم کرنے اور ان کے ساتھ تضادات پیدا کرنے کے لیے بین الاقوامی قوتوں کی آشیرباد سے مقامی اسٹیبلشمنٹ آئے روز یہاں نت نئی قوتوں کی سرپرستی کرتی رہی ہے۔ پہلے پہل یہاں سندھی تہذیب کی شناخت رواداری اور انسان دوستی کے علیٰ الرغم نام نہاد ایک اسلامی جماعت کو مقبولیت دلائی گئی۔ جس کا یہ دعویٰ تھا کہ اگر وہ کھمبے کو بھی کھڑا کردیں تو وہ بھی الیکشن میں جیت جائے۔ اس کے ذریعے نام نہاد ’’افغان جہاد‘‘ کے لیے مذہبی جذبات سے لبریز نوجوانوں کی صورت میں ’’ایندھن‘‘ فراہم کیا گیا۔ رجعت پسند مذہبی طبقوں کے ذریعے مدارس کا جال پھیلایا گیا، جنھیں بعد ازاں جہادی سرگرمیوں میں استعمال کیا گیا۔ پھر اسی عنصر کو شیعہ و سنی فرقہ وارانہ جھگڑوں میں مسلح طور پر استعمال کرکے شہر کے امن کو خراب کیا گیا۔ کراچی پر شدت پسند طبقوں کی گرفت نے نہ صرف سندھ امن کی دھرتی کو خطرے سے دوچار کیا، بلکہ کراچی شہر سے اس طبقے کو فنڈنگ کی شکل میں ملنے والی آکسیجن نے پورے جنوبی ایشیا میں سامراج کی بساط بچھائی۔

کراچی کے مسائل ہوں کے پیچھے بھی وہی وجہ کار فرما ہے، جو پورے پاکستان میں موجود مسائل کی وجہ ہے۔ وہ ہے ہمارے حکمرانوں کی وہ روایتی بددیانتی اور نااہلی، جس کے سبب وہ کسی بھی طرح کی منصوبہ بندی کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ ماشاء اللہ سے اس میں ملک کی ساری مقتدر قوتیں شامل ہیں، خواہ وہ کسی بھی ڈھانچے سے تعلق رکھتی ہوں۔ ہمارے ملکی نظام کی مشترکہ اَساسی خرابی یہی نااہلی اور بددیانتی ہے، جس میں یہ ایک دوسرے کے لیے نہلے پہ دہلا ثابت ہوتے ہیں۔ قومی وجود پر جونکوں کی طرح چمٹا ہوا یہ طبقہ نہ صرف اپنی گرہ سے قوم پر کچھ خرچ کرنے کے ♫انسانی جذبے سے محروم ہے، بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کی طرف سے معصوم بچوں اور بیماروں کے لیے چیریٹی کے نام پر آنے والے فنڈز کو شیرِ مادر سمجھ کر ہڑپ کرنے میں بھی لمبے ہاتھ مارتا ہے۔ ان نا اہل اور بددیانت حکمران طبقوں کے سبب ہم گزشتہ سات دہائیوں سے ترقی کی کسی شاہراہ کا انتخاب نہیں کرسکے۔ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک دنیا کے نقشے پر ترقی یافتہ ملکوں کے طور پر اُبھر رہے ہیں، لیکن ہم ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ابھی تک آٹے اور چینی کے بحرانوں سے ہی نہیں نکل پائے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خطے میں نوآبادیاتی دور کی بچھائی گئی بساط کو سمجھ کر مستقل اور پائیدار بنیادوں پر اپنے مسائل کو مقامی اور قومی ترجیحات کی بنیاد پر مسائل کو حل کرنے کا شعور حاصل کریں، تاکہ ہم خطے کو حقیقی آزادی اور ایک خود مختار قومی نظام سے ہم کنار کرسکیں۔

(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور، اکتوبر 2020ء)

مناظر: 253
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جولائی 11, 2022

عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ