’’ٹیکنالوجی محض ایک اوزار ہے۔ اپنے بچے کو کام کے قابل بنانے اور اس میں موٹیویشن پیدا کرنے کیلئے استاد ضروری ہے
بل گیٹس
’’بن مرشد‘‘ کا مطلب ہے، بغیر استاد کے۔ جن لوگوں کا تعلق پڑھنے پڑھانے سے ہے، ٹریننگ یا کائونسلنگ و لائف کوچنگ سے ہے،چاہے اَن چاہے، اُن کا واسطہ بہت سے لوگوں سے ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ٹیچر ایک بچے کو پڑھاتا ہے تو بچے کے ساتھ ساتھ اس کا تعلق اس کے والدین کے ساتھ بھی ہوجاتا ہے۔ جب ان لوگوں کی زندگی میں پبلک ٹریفک بڑھ جاتی ہے تو ان کا سوچ کا انداز بدل جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنے تجربے کو اس علم کی طرف لے جاتے ہیں جو علم انھوں نے کبھی پڑا ہوتا ہے۔ پھر انھیں پتا لگتا ہے کہ جن لوگوں نے کتابیں لکھیں، انھوں نے صحیح لکھا تھا۔ انھیں سمجھ آ جاتی ہے کہ کچھ لوگ عمر میں، رتبے میں اور مقام میں بہت بڑے ہوتے ہیں، لیکن وہ فائدہ مند نہیں ہوتے۔ جبکہ کچھ لوگ جن کی عمر کم بھی ہو، معاشرے کیلئے فائدہ رساں ہوتے ہیں ۔ مرشد سے مراد آپ کی زندگی میں وہ انسان ہے کہ جس کی بات سن کر آپ اپنی عقل کو پرے کردیں۔
موٹیویشن اور انسپائریشن
وہ تمام لوگ جن سے معاشرے کو فائدہ ملتا ہے، ماضی میں ان کی زندگی میں کہیں نہ کہیں کوئی انسپائریشن ضرور ہوتی ہے۔ وہ انسپائریشن چاہے استاد کی ہو، چاہے والد کی ہو یا کسی بھی دوسرے فرد کی ہو۔ انسان اس چیز کی تلاش میں ہوتا ہے جس سے وہ متاثر ہوتا ہے۔ زندگی کے مختلف ادوار میں آدمی مختلف افراد سے متاثر ہوسکتا ہے۔
بن مرشد، بے فیض
جن لوگوں کا کوئی مرشد نہیں ہوتا، کوئی استاد نہیں ہوتا، وہ بے فیض ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی میں کوئی انسپائریشن نہیں ہوتی۔ مقولہ مشہور ہے کہ جس کا کوئی استاد نہیں ہوتا، اس کا استاد شیطان ہوتا ہے۔ بے استادے کسی سے متاثر ہوئے ہوتے ہیں اور نہ اُن سے کوئی متاثر ہوپاتا ہے۔ بن مرشد لوگو ں کی بہت بڑی تعدا د ایسی ہے جو طویل عرصے تک یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ طویل زندگی گزارنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ میں غلط راستے پر ہوں۔ اس وقت آدمی واپس مڑنا چاہتا ہے، لیکن وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ یہ وقت بہت خطرناک ہوتا ہے کہ آدمی کی قوتِ فیصلہ زنگ آلود ہوجائے۔ اگر آدمی زندگی میں کسی کو اپنا مرشد اور استاد بنالے تو زندگی سے یہ خطرہ ٹل جاتا ہے۔
با استاد، با فیض، خوش قسمت
وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جن کو مناسب عمر اور مناسب وقت میں مثبت انسپائریشن مل جائے۔ انسا ن جس سے متاثر ہوتا ہے یا جس سے محبت کرتا ہے، اس کی بات بھی آسانی سے سنتا اور مان لیتا ہے۔ انسان جب شعوری یا لاشعور ی طورپر اپنا رول ماڈل طے کرلیتا ہے تو پھر اس کیلئے ہدایت کی جست لگانا آسان ہوجاتا ہے۔ ہدایت ایک لمبا اور کٹھن راستہ ہے۔ اس کو حاصل کرنے کیلئے بڑے دشت طے کرنے پڑتے ہیں، لیکن اگر اس کا کوئی شارٹ کٹ ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ بندہ کسی فیض یافتہ شخصیت کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرلے۔
انسان واحد مخلوق ہے جو دوسروں سے متاثر ہوتی ہے۔ یہ شرف اللہ تعالیٰ نے صرف انسان کو بخشا ہے۔ ذرا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک کے متعلق سوچئے کہ جب پہلی وحی آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے۔ سارا ماجرہ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا اور وہ آپؐ کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں۔ ورقہ بن نوفل نے کہا کہ کائنات میں رسولوں کی جولڑی چلی آرہی ہے، آپؐاُس کے آخری رسول ہیں۔ یہ کتنی بڑی بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق شناسائی ہو۔ وہ کتنے عظیم انسان ہوں گے جو آپؐ کے بچپن میں آپؐ کی عظمت سے شناسا رہے ہوں گے۔
جو شخص عظمت سے شنا سا ہے، وہ عظمت کو ڈھونڈ لیتا ہے۔ اس سے بڑی کمبختی اور کیا ہوسکتی ہے کہ آپ کے پاس ہی عظیم انسان ہو، لیکن آپ کو یہ ادراک ہی نہ ہو۔ ہم خود بُرے ہوتے ہیں، لیکن اچھوں کی تلاش میں رہتے ہیں جس کی وجہ سے اچھا انسان ملنے کی بجائے برا انسان ہی ملتا ہے۔ ایک شخص نے کسی کو حضرت واصف علی واصفؒ کے پاس بھیجا اور اس کو پچاس سوال د یئے اور کہا کہ یہ یاد رکھنا، صحیح ولی کی پہچان یہ ہے کہ وہ اِن پچاس سوالوں کے جواب دے دے۔ اس نے وہ پچاس سوال اپنی جیب میں ڈالے اور آپؒ کی محفل میں آکر بیٹھ گیا۔ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ ایک سوال کا جواب آ چکا تھا۔ پھر دوسرے کا جواب آیا۔ پھر تیسرے کا آیا۔ یہاں تک کہ پچاس کے پچاس سوالوں کے جواب آگئے۔ آپؒ نے اس سے کہا کہ صفحہ نکال کر دیکھو، کو ئی بات رہ تو نہیں گئی۔ اگرزندگی میں انسپائریشن ہے تو بہت جلدی تبدیلی آ سکتی ہے۔
ہمارے ہاں رسمیں بنی ہوئی ہیں کہ اگر ایک کی بیعت ہو گئی تو پھر کسی کی بیعت نہیں ہوسکتی۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’دل کی بیعت ہوتی ہے۔ ہاتھ کی بیعت کوئی بیعت نہیں۔‘‘ دل کی بیعت یہ ہے کہ جو اندر سے بدل جائے تو پھر چاہے کوئی کچھ بھی کرلے، وہ کہیں جا ہی نہیں سکتا۔ اگر دل کسی سے انسپائر ہو جائے تو پھر اس کا بتا یا ہو ا ایک جملہ زندگی بدل دے گا۔ اس لیے ممکن ہے کہ بڑا علم والا ملے، لیکن دل مائل نہ ہو۔ جبکہ ایک عام سا بابا مل جائے اور وہ آپ کو کلک کرجائے۔
اندر سے تبدیلی
انسپائریشن خیال کی تبدیلی ہے۔ یہ اندر کی دنیا کی تبدیلی کا نام ہے۔ جب بھی اندر کی دنیا میں تبدیلی آتی ہے تو انسان کے حال میں تبدیلی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ لوگ بیعت کے ساتھ ہی حلیہ بدل لیتے ہیں، لیکن خیال تبدیل نہیں آتی جس کی وجہ سے اس کے حلئے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
کسی بادشاہ نے حضرت شیخ سعدیؒ کی دعوت کی۔ آپؒ سادہ لباس پہن کر بادشاہ کے دربار میں گئے۔ جب محل کے دروازے تک پہنچے تو دربان نے اند ر داخل نہیں ہونے دیا۔آپؒ واپس چلے آئے۔ مہنگا لباس پہنا اور دربار میں چلے گئے۔ جب دروازے تک پہنچے تو دربان نے بہ خوشی آپ کو اندر جانے کی اجازت دے دی۔ جب کھانا شروع ہوا توآپؒ نے اپنے بازو کا بٹن کھول کر کپڑے کو شوربے میں ڈبو دیا۔ مہمانانِ محفل نے یہ عجیب حرکت دیکھی تو متوجہ ہوئے۔ شیخ سعدیؒ یہ بھانپ کر جواب دیا کہ چونکہ اس محفل میں احقر کو تو اجازت نہیں ملی، البتہ مہنگے لباس کو دعوت میں شرکت کی اجازت مل گئی، اس لیے میں اپنے مہنگے لباس کو کھانا کھلا رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں محترم وہ ہے جو دل کا صاف ہے۔ انسپائریشن کا کمال یہ ہوتا ہے کہ یہ بندے کو اندر سے صاف کر دیتی ہے۔