’’تبدیلی اور تجدید زندگی کا لازمہ ہیں۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں، یہ تمام زندگی آپ کے ساتھ ہیں!‘
سوسان مینوٹ
ہر شے تجدید مانگتی ہے۔ ہر چیز کو گاہے گاہے سنوارنا اور نکھارنا پڑتا ہے۔ ہماری زندگی کے کئی شعبے ایسے ہیں جن کی تجدید کے متعلق کبھی سوچا ہی نہیں جاتا۔ انتھروپالوجی انسانی مزاج کا علم ہے۔ یہ علم بتاتا ہے کہ جب انسان دنیا میں آیا تھا تو اس کو بے شمار قسم کے مسائل کا سامنا کر نا پڑا۔ ان مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ اسے اپنی بقا کا تھا۔ رات کو اگر دس لوگ سوتے تو صبح کودو تین غائب ہوتے۔ پتا چلتا کہ انھیں کوئی جنگلی جانور اٹھا کر لے گیا۔ اسی طرح، کچھ لوگ بیٹھے ہوتے تو قریب سے سانپ گزرتا اور اُن میں سے کسی ایک کو ڈس لیتا اور وہ مرجاتا۔ ان لوگوں کے پاس اسے بچانے کا کوئی سبب نہیں تھا۔ یہ سلسلہ ایک عرصہ چلتا رہا۔ جب انسان سے ان مسئلوں کا حل نہ بن پایا تو انھوں نے ان مسائل کو خدا سمجھنا شروع کردیا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب انسان سمجھتا تھا کہ شاید آندھی کا نام خدا ہے، شاید دیوہیکل پہاڑ خدا ہے۔ شاید آگ ہی خدا ہے۔ پھر جیسے جیسے اس میں کچھ شعور آیا تو وہ اپنی بقا کے طریقے سوچنے لگا۔ چنانچہ وہ لوگ جہاں سوتے وہاں اپنے اردگرد ایک گڑا کھود لیتے تاکہ سانپ آئے تو گڑھے میں گر جائے۔ یہ انسان کی اپنے بقا کی شروعات اور پہلی تجدید تھی۔
شروع کے مسائل نے انسان کی جبلت کو جگایا۔ وہ جبلت یہ تھی کہ مجھے مسائل کا سامنا کرنا ہے۔ جس طرح انسان کو مسائل کا سامنا تھا، اسی طرح دوسری مخلوقات کو بھی مختلف مسائل کا سامنا تھا۔ جیسے، آندھی سے چڑیا کا گھونسلا گرجانا، لیکن اس میں تجدید کا عنصر نہیں تھا۔ اللہ نے انسان کے سوا دیگر تمام مخلوقات میں اپنا تحفظ اُن کی جبلت میں ڈال رکھا ہے۔ لہٰذا، انھیں اپنی بقا کیلئے الگ سے مشقت کرکے یہ فن سیکھنا نہیں پڑا۔ انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جس نے مسائل کا سامنا کرنے کا شعوری فیصلہ کیا۔ اسی خاصیت کی وجہ سے وہ اشرف المخلوقات کہلایا۔ آج انسان نے ان مسائل پر بڑی حد تک قابو پا لیا ہے۔ انسان نے ایسی ادویہ ایجاد کرلی ہیں کہ جن سے خطرناک ترین امراض جو صدیوں سے بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیتے تھے، آج قابل علاج ہیں۔ انسا ن نے اپنے مسائل کا حل تلاش کیا، لیکن کوئی اور مخلوق اپنے مسائل کا حل نہ کرسکی۔ آج بھی بلی اپنا پیٹ خراب ہونے پر گھاس کھاتی ہے، آج گدھا اپنی خارش دور کرنے کیلئے مٹی پر لوٹتا ہے۔ آج بھی شیروں کے رہنے کے انداز وہی ہیں جو اس دنیا کی تخلیق کے وقت تھے۔ آج بھی پرندے اپنے گھونسلے اسی طرح بناتے ہیں جیسے ہزاروں سال پہلے کے پرندے بناتے تھے۔ غرض ان کی کسی چیز میں کوئی ردوبدل نہیں آیا۔
جبلت اور مزاج
انسان کی منفرد جبلت نے انسان کے منفرد مزاج کی تشکیل کی ہے۔ البتہ، جبلت کے برخلاف، انسانی مزاج نہ صرف ہر دَور میں بدلتا رہا ہے، بلکہ یہ ہر فرد کا الگ الگ ہوتا ہے۔ زندگی میں کامیابی کیلئے انسانی مزاج کا مطالعہ کیا جائے۔ انسانی مزاج کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ انسان کی تاریخ پڑھی جائے۔ مزاج کی ابتدا کو جاننے کیلئے حضرت آدم علیہ السلام کی زندگی کو پڑھا جائے۔ اس سے پتا چلے گا کہ زندگی گزارنے کے متعلق آپ علیہ السلام کا کیا مزاج تھا۔ مزاج کی معراج کو جاننا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ پڑھی جائے۔ اس سے چلے گا کہ عظمت کیا ہوتی ہے۔ کسی کو معاف کرنا ہے تو دیکھئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح معاف کیا کرتے تھے۔ کسی سے وعدہ کرنا ہے تو دیکھئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے وعدہ وفا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ سے پتا چلے گا کہ جو اچھا نہ سمجھے، اس کے ساتھ اچھا ہونا کتنا ضروری ہے۔ یہ پتا چلے گا کہ زیادتی کرنے والوں کو معاف کرنا کتنا ضروری ہے۔ یہ پتا چلے گا کہ تجدید کرنا کتنا ضروری ہے۔ یہ پتا چلے گا کہ چیزیں پرکھنے سے پہلے مشورہ کرنا کتنا ضروری ہے۔ یہ پتا چلے گا کہ زندگی میں پلاننگ کی کتنی اہمیت ہے۔ غرض، زندگی کا کوئی بھی گوشہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ نمونہ ہے۔
ارادہ اور فیصلہ کی قوت
اللہ تعالیٰ نے ارادہ جیسی بنیاد ی صفت صرف انسان کو بخشی۔ دنیا کی کسی اور مخلوق کو یہ صفت نہیں دی گئی۔ انسان واحد مخلو ق ہے جس نے ارادہ کیا اور چاند پر چلا گیا۔ یہ واحد مخلوق ہے جس نے خود کو ہوا میں اڑانے کیلئے جہاز بنا لیے۔ یہ واحد مخلوق ہے جو مائیکرو سیکنڈ کی رفتار پر چلی گئی۔ ٹیلنٹ ، کمیونیکیشن، سفر ، ادویہ، ترسیل، رہائش، علم،تعلیم، کتابیں اور ٹیکنالوجی۔۔۔ یہ ساری نعمتیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہیں۔ اوریہ اس کے ارادے کی وجہ سے وجود میں آ ئیں۔
بے شمار لوگ ایسے ہیں جن کے والد ین بچپن میں ہی انتقال کرجاتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ زندگی کے شدید ترین مسائل کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں اور پھر ایک دن دنیا کو بتاتے ہیں کہ میں ایک کامیاب انسان ہوں۔ جو دنیا کو یہ بتاتے ہیں کہ تعلیم نہ ہونے کے باجود بھی میں بل گیٹس (بزنس مین) بن گیا ہوں، اسکول نہ جانے کے باوجود بھی نیوٹن (سائنس داں) بن گیا ہوں۔
ارادے کی پختگی انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ تجدید کرے اور آگے بڑھے۔ انسان کبھی نہیں چاہتا کہ وہ کسی ایک جگہ پر کھڑا رہے۔ وہ بہتر سے بہتر ہونا چاہتا ہے۔ انسان وہ مخلوق ہے کہ اگر آج فرض کیجیے، آپ پانچ بڑے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں تو پانچ سال بعد آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ تو کب کے حل ہوچکے۔
جس قسم کے مسائل بھی کیو ں نہ ہوں، انسان ان مسائل کے باوجود جینا سیکھ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک آدمی کی ٹانگ کٹ جاتی ہے۔ وہ مصنوعی ٹانگ لگا کر چلنا شروع کر دے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے چیلنج کے سامنے کھڑا ہو کر ثابت کر دیا کہ ایک ٹانگ نہ بھی رہے تو میں پھر بھی چل سکتا ہوں۔
مسائل نعمت ہیں
مسائل انسان کے ارادے کو باہر نکالتے ہیں۔ یہ اسے تجدید کا موقع دیتے ہیں۔ آج کوئی نہیں چاہے گا کہ وہ سو سال پیچھے چلا جائے بلکہ سو سال تو دور کی بات ہے، چند سال پیچھے جانے کو تیار نہیں ہوگا۔ کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ انسانیت اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے کھرچ کھرچ کر یہاں تک پہنچی ہے۔ اسے قطعاً واپسی کی چاہت نہیں۔ رنجیت سنگھ تجدید کی اہمیت سمجھ چکا تھا، اس لیے اس نے کہا کہ میں اپنی عورتوں کو بھیک نہیں مانگنے دوں گا، بلکہ انھیں تعلیم دوں گا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں بھکاریوں کی سب سے کم تعداد سکھوں کی ہے، کیونکہ انھیں سمجھ آ گئی کہ عورت کا تعلیم حاصل کرنا کتنا ضروری ہے۔ دنیا میں ایسے کامیاب لوگ ہیں جن کے والد پڑھے لکھے نہیں تھے، لیکن والدہ پڑھی لکھی تھیں۔ اس کے نتیجے میں سارے بچے پڑھ لکھ گئے اور کامیاب ہو گئے۔ وجہ یہ تھی کہ ماں کا شعور بچوں میں منتقل ہوا۔
ہم لوگ مسائل سے بچنا چاہتے ہیں۔ جب آدمی مسائل سے راہِ فرار اختیار کرتا ہے تو اس کی قوتِ ارادہ باہر نہیں نکل پاتی۔ وہ تمام بچے جو چھاؤں میں پلتے ہیں وہ زیاد ہ ترقی نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کا واسطہ کبھی مسائل سے پڑا ہی نہیں کہ وہ اپنے اندر کی قوتِ ارادہ کو کھنگالتے اور اسے باہر نکال کر اس سے کام لیتے۔ لہٰذا، جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں اور جب مسئلہ سامنے پاتے ہیں تو بھاگ جاتے ہیں۔
آج کے نوجوان کی پستی
میں دیکھتا ہوں کہ انٹرمیڈیٹ کے داخلے شروع ہوتے ہیں تو اٹھارہ بیس برس کے نوجوان اپنی مائوں کا ہاتھ تھامے کالج میں پروسپکٹس لینے آتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ ایک طرف تو وہ سترہ سال کا نوجوان تھا جو کئی سو میل کا فاصلہ طے کرکے اپنے ساتھ کئی ہزار افراد کا لشکر لے کر سندھ آیا یعنی محمد بن قاسم اور دوسری جانب آج کا مسلمان نوجوان ہے۔ بہت بڑا فرق اس نوجوان اور آج کے نوجوان میں یہی ہے کہ محمد بن قاسم کے پاس ارادہ و فیصلہ کی قوت تھی اور آج کا نوجوان اس نعمت سے محروم ہے۔
اگر آج بیس اور تیس سال کی عمر میں بھی آدمی ہر کام شروع کرنے سے پہلے اپنے والدین سے پوچھتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ اس میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اسے یہ صلاحیت سکھائی ہی نہیں گئی ہے۔ انسان زندگی میں قوتِ فیصلہ سے ترقی کر تا ہے۔ قوتِ فیصلہ اور قوتِ ارادہ نہ ہوتو وہ ستر سال کا بھی ہو جائے تو پھر بھی وہ بچہ ہی رہتا ہے۔ قوتِ ارادہ و قوتِ فیصلہ اس وقت باہر نکلتی ہے کہ جب مسائل راہ میں آتے ہیں۔ ایسے میں انسان مجبور ہوتا ہے کہ وہ اپنی تجدید کرے۔ جب انسان کو پتا ہوتا ہے کہ میرے پاس ایک بہت بڑی طاقت اور قوت موجود ہے تو وہ اسے استعمال میں لاتا ہے۔ اس کے برخلاف، جن لوگوں کی قوتِ ارادہ سوئی ہوتی ہے یا مُردہ رہتی ہے، وہ لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے زندگی میں مسائل اور مشکلات کا سامنا نہیں کیا ہوتا۔ وہ زندگی کے مسائل سے بھاگنے والے ہوتے ہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں،
’’تو اسے بچا بچا کے نہ رکھ‘‘۔
مشکلا ت کا سامنا کرنے والے کو اللہ تعالیٰ پہلا انعام یہ دیتا ہے کہ اس کی ارادے کی قوت باہر آ جاتی ہے۔
مسائل سے نمٹنے کے تین انداز
مسائل زندگی کا لازمہ ہیں۔ شاید ہی کوئی انسان ہو جس کی زندگی میں چھوٹے بڑے مسائل نہ آئے ہوں۔ مسائل کو حل کرنے والے لوگ تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جنھیں مسائل آتے ہیں تو وہ انھیں دیکھتے ہیں اور اپنے آپ سے کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی تجدید کرنی ہے۔ یہ سمجھ دار لوگ ہوتے ہیں۔ وہ تمام لوگ جنھیں یہ سمجھ آجاتی ہے کہ مجھے ضد چھوڑ دینی چاہیے، مجھے کفر کا راستہ چھوڑ دینا چاہیے، مجھے کولھو کے بیل کی طرح چکر لگانا چھوڑ دینا چاہیے اور مجھے ٹھہر کر تجدید کرنی چاہیے، ایسے لوگ قدرت کے اشارے سمجھ جاتے ہیں۔ یہ راہ میں گر جائیں تو اٹھ کر کہتے ہیں کہ آئندہ احتیاط سے چلنا ہے۔ دوسری طرح کے لوگ وہ ہوتے ہیں جنھیں قدرت اشارے دیتی ہے، لیکن ان کو یہ اشارے سمجھ نہیں آتے۔ چنانچہ وہ تجدید نہیں کرپاتے۔ تیسری طرح کے لوگ انتہائی خوف ناک ہوتے ہیں۔ انھیں یہ اشارے ملتے ہیں، انہیں پتا ہوتا ہے کہ یہ قدرت کے اشارے ہیں، لیکن وہ اَڑ جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسولؐ ہیں مگر میں ابوجہل ہوں۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ان لوگوں کے متعلق فرماتا ہے کہ ان کے دلوں پر قفل پڑے ہیں۔ جس دل پر قفل لگ جائے تو اس کے سامنے جتنی بھی اچھی بات کی جائے، وہ اس کو نہیں مانتے۔ یہ سب سے بڑی بدبختی کی حالت ہے۔
مذکورہ بالا تینوں قسم کے افراد آپ کو ہر دَور میں ملیں گے۔
ترقی اور برکت
جن لوگوں کی وجہ سے آپ کی ترقی ممکن ہوئی ہے یا وہ کسی بھی طرح سے آپ کے معاون بن سکتے ہیں، اگر آپ اُن سے نفرت کرنا شروع کردیں گے تو شاید ترقی تو مل جائے لیکن برکت نہیں ہوگی، راحت نہیں ہوگی۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو کامیاب ہونے کے بعد اپنے محسنوں کے شکر گزار نہیں ہوتے، بلکہ الٹا اُن کو ان کی اوقات دکھاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو حقیقی سکون میسر نہیں آتا اور زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر انھیں شدید ٹھوکر کھانا پڑتی ہے۔
اگر اپنی عقل اور مہارت زندگی کو خوشگوار نہیں بنا رہی تو پھر تجدید کی ضرورت ہے۔
اسلام میں تجدید
اسلام نے تجدید کا سب سے حسین تصور توبہ کی صورت میں دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے توبہ بہت پسند ہے۔ پوری زندگی انسان کے پاس تجدید کا موقع ہوتا ہے۔ بندہ جتنا بھی گنہگار ہو، گناہوں کے سمندر میں ڈو با ہوا ہو، لیکن دل میں یہ خیال آئے کہ مجھے واپس لوٹنا چاہیے تو اسے چاہیے کہ توبہ کرے ۔ جب اپنی عقل زندگی کو بہتر نہ بنا رہی ہو تو اس وقت اپنی عقل پر چھلانگیں نہ لگا ئی جائیں۔ اس وقت یہ دعوا نہیں کرنا چاہیے کہ میں بڑا عقل مند ہوں۔ ایسی صورت میں تجدید ممکن نہیں ہوتی۔ عقل کی انتہا یہ ہے کہ زندگی میں سکون ہو۔ سکون کا مطلب ہے کہ آدمی جہاں ہو، ذہن بھی وہیں ہو۔ ذہن میں نہ ماضی کا غم ہو اور نہ مستقبل کی تشویش چل رہی ہو عقل جب بھی آ تی ہے تو اس کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے ہوتی ہے کہ وہ ماضی اور مستقبل سے آزاد ہوجاتا ہے۔
زندگی میں کبھی وقت ضائع ہو جائے اور کوئی بھول ہوجائے تو فوری طور پر تجدید کیجیے۔ کوئی بات نہیں، یہ انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ انسان بھولنے والی مخلوق ہے۔ انسان کا لفظ نسیان سے بنا ہے جس کا مطلب ہے، بھولنا، یعنی ایسی مخلوق جو بھول جاتی ہے۔ یہ ایسی مخلوق ہے کہ اگر اپنے خالق کو دن میں پانچ بار یاد نہ کرے تووہ اپنے خالق کو بھی بھولنے لگتی ہے۔ اس لیے اسے پانچ دفعہ یاد کرنا پڑتا ہے۔ زندگی میں کبھی وسائل ضائع ہوجائیں تو فوری طور پر سجدے میں سر رکھیے اور تجدید کیجیے۔
زندگی میں تجدید کا سب سے بہتر وقت وہ ہے کہ جب بندے کو اپنے گناہ یاد آجائیں اور شرمندگی ہو۔ یہ خوش بختی کی علامت ہے۔ یہ احساس اللہ کی بڑی نعمت ہے۔ گناہ اللہ تعالیٰ سے دور نہیں کرتا بلکہ گناہ کی یاد اللہ تعا لیٰ کو پاس نہیں آنے دیتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گناہ کی وجہ سے خیال اتنا پراگندہ ہوجاتا ہے کہ پاک ہستی کو سوچنے کے قابل نہیں رہتا۔ کبھی گناہوں کا بوجھ محسوس ہو تو زندگی کی تجدید کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔
تجدید کا مطلب یہ ہے کہ سہارا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہو۔ تجدید کا مطلب ہے کہ قدم اٹھے، لیکن اس کا دارومدار اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہو۔ تجدید کے بعد دعا کریں کہ اے باری تعالیٰ، آج تجدید کیلئے میرا پہلا قدم اٹھ گیا ہے، تو مہربانی فرما اور اب اپنے وعدے کے مطابق دس قدم میری طرف آجا۔ یقین کیجیے، آپ کا ایک قد م اٹھے گا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سو قدم آپ کی طرف آئے گی۔
کبھی بھی زندگی میں احساس ہو کہ میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے اور وہ مجھے نہیں کرنی چاہیے تھی تو فور ی اس شخص کے پاس جائیں اور اس سے معافی مانگیں۔ یہ بھی تجدید ہے۔
تجدید کیجیے
اپنی زندگی کی تجدید کیلئے اپنے سے یہ سوال کیجیے کہ میں کیوں جی رہا ہوں، میرے جینے کا سبب کیا ہے، میں کدھر جا رہا ہوں، میں اس دنیا میں آیا کیوں تھا؟ یہ زندگی ایک با ر ملی ہے، میں اس واحد اور قیمتی متاع کو کیسے برت رہا ہوں؟
اگر یہ سوالات پہلے سے آپ کے ذہن میں کلبلا رہے ہیں اور آپ کو بے چین کیے ہوئے ہیں تو یہ خوش بختی کی علامت ہے ۔ اس سے استقامت ملتی ہے۔ استقامت یقین کا انعام ہے۔ جس کے پاس یقین نہیں، اس کے پاس استقامت نہیں ہوتی۔ جو یقین کی راہ پر چل نکلے، انھیں منزلوں نے پناہ دی۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’زندگی کے تین حاصل بہت بڑے حاصل ہیں: یقین، یکسوئی اور استقامت۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے کہ وہ کسی کو صاحب یقین، صاحب یکسوئی اور صاحب استقامت بنا دے۔
اونچی اڑان : مصنف ،قاسم علی شاہ سے اقتباس
کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیجیے
03044802030