’’جہاں مشقت نہیں، وہاں کامیابی نہیں!‘‘
فریڈرک ڈگلس
جن دنوں میں پری انجینئرنگ کا طالب علم تھا، امتحانات سے تقریباً چھے ماہ پہلے اکتوبر کے مہینے میں میر ے پاس ایک اسٹوڈنٹ آیا جس کا نام خرم شہزاد تھا (جو اِس وقت پنجاب یونیورسٹی، کیمیکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر ہیں)۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ قاسم صاحب، مجھے آپ سے فرسٹ ایئر کا میتھ پڑھنا ہے۔ کیا آپ مجھے یہ پڑھا دیں گے؟ میں ان دنوں فارغ تھا، میں نے ہامی بھرلی۔ پھر اْن سے کہا کہ میں خود بھی اکیڈمی جاتا ہوں، اکیڈمی جانے سے پہلے آپ میرے پاس آ جایا کریں۔ یوں وہ اسٹوڈنٹ میرے پاس پڑھنے لگا۔ ایک مہینہ گزرنے کے بعد اس نے کہا کہ مجھے مزید پڑھا دیں۔ میں نے مزید ایک ماہ پڑھا دیا۔ تیسرے ماہ اس نے کہا، آپ کے سمجھانے کا انداز بہت اچھا ہے اور مجھے بہت اچھا سمجھ آ رہا ہے، اس لیے آپ مجھے مزید پڑھا دیں۔ یوں، میں نے خرم شہزاد کو سالانہ امتحان تک پڑھایا۔
جب میں سیکنڈایئر میں تھا تو ایک دن خرم شہزاد دو تین اسٹوڈنٹس کو لے کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ کے پڑھانے کا انداز بہت اچھا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں پڑھا دیں۔ میرے ساتھ یہ مسئلہ تھا کہ میرے گھر میں جگہ نہیں تھی۔ گھر کا گیراج تھا جس میں تھوڑی سی جگہ تھی۔ میں نے اسی جگہ پر گھر کی دو تین کرسیاں رکھ کر انھیں پڑھانا شروع کر دیا اور یوں با قاعدہ تدریس کا سلسلہ چل نکلا۔ آہستہ آہستہ طلبہ کی تعداد بڑھنے لگی۔ ڈیڑھ سال کے اندر اندر پچاس کے قریب طلبہ ہو گئے۔ میں صرف ایک مضمون’’میتھ‘‘ پڑھاتا تھا۔ میرا پڑھانے کا طریقہ کار یہ تھا کہ میں پانچ یا چھے شیٹیں لگاتا اور ان کے درمیان کاربن پیپر رکھ لیتا اور انھیں سمجھاتا۔ پھر وہ شیٹیں طلبہ آپس میں تقسیم کرلیتے۔
گیراج میں کلاس
لیکن جب طلبہ کی تعداد میں اضافہ ہو گیا تو کاربن پیپر والے طریقہ کار کا چلنا مشکل ہو گیا۔ تب میں نے طلبہ کو گروپس میں تقسیم کردیا۔ ایک گروپ کو پڑھاتا، جبکہ دوسرا گروپ انتظار کرتا۔ اس سے یہ مسئلہ ہو ا کہ مجھے ایک ہی سوال کو کئی دفعہ کرانا پڑتا تھا جس کی وجہ سے میرا بہت زیادہ وقت لگتا۔ میں نے اس کا یہ حل نکالا کہ میں نے دو بائی تین سائز کا ایک وائٹ بورڈ خریدا ( جو آج بھی میرے پاس موجود ہے)۔ اسے گیراج کے دروازے کے ساتھ لٹکا کر پڑھاناشروع کر دیا۔ تمام طلبہ گروپ کی شکل میں آتے اور پڑھتے جاتے۔ اس طرح یہ سلسلہ تین یا چار سال چلتا رہا۔
جب طلبہ کی تعداد اور زیادہ ہوگئی تو مجھے جگہ کا مسئلہ درپیش ہوا۔ میں نے گھر والوں سے بات کی کہ طلبہ کیلئے جگہ ناکافی ہے اور مجھے ٹیوشن سے خاصی آمدن ہونے لگی ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے ڈرائنگ روم دے دیں۔ میری والدہ کا مزاج کچھ سخت ہے۔ انھوں ں نے مجھے ڈرائنگ روم کے استعمال کی اجازت دے تو دی لیکن ساتھ ہی کہہ دیا کہ یہ یاد رہے، مجھے شام کو ڈرائنگ روم ویسے ہی چاہیے، جیسے صبح تھا۔ میں نے ان کا یہ فیصلہ قبول کر لیا اور پھر طویل عرصہ یہاں ٹیوشن پڑھاتا اور روزانہ شام کو ڈرائنگ روم صاف کرکے اپنے گھر والوں کو دیا کرتا۔
2003ء کی بات ہے کہ میں نے گھر والوں سے درخواست کی کہ اس گھر میں میرا سسٹم چل پڑا ہے، اس لیے میںچاہتا ہوں کہ پورے گھر کو اکیڈمی کے طور پر استعمال کروں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کرائے کے گھر میں چلے جائیں۔ یہ بات سن کر سارے گھر والے آگ بگولہ ہوگئے اور میرے خلاف ہوگئے۔ دراصل، وہ سمجھ رہے تھے کہ میں انھیں گھر سے نکال رہا ہوں۔ خیر، میں نے ان سے کہا کہ گھر کا کرایہ، ہرطرح کے بلز اور اس کے علاوہ ہر ماہ پانچ سے دس ہزار روپے بھی دیا کروں گا۔ یہ بات سن کر گھر والے مان گئے۔
گھر کو اکیڈ می میں بدلنے کی وجہ سے کام تو اچھا چلنے لگا، لیکن میری پڑھائی متاثر ہونا شروع ہو گئی۔ تاہم چو نکہ مجھے اس کے رزلٹ اچھے مل رہے تھے، اس لیے میں زیادہ فکر مند نہیں تھا۔
ایک اور مسئلہ آدھمکا
جب اکیڈمی کامیابی کے ساتھ چلنا شروع ہو گئی تو مجھے ایک اور مسئلہ درپیش ہوا۔ وہ یہ تھا کہ میں چونکہ اکیلا ہی سارے طلبہ کو پڑھا رہا تھا، اس لیے مجھے اکیڈمی کے پورے نظام کو منظم کرنا مشکل ہوگیا۔ پھر میں نے سوچا کہ اور ٹیچرز کہاں سے لائوں؟ یہ وہ وقت تھا کہ جب میرے اندر ’’لیڈرشپ‘‘ جاگی۔ میرے مطابق، استاد بن جانا اہم نہیں ہوتا بلکہ اہم یہ ہوتا ہے کہ کام کو کس طرح manage کیا جائے۔ بعض لوگ اچھے استاد ہوتے ہیں، لیکن وہ ادارہ نہیں بنا سکتے۔ بعض ادارہ بنا سکتے ہیں، لیکن استاد اچھے نہیں ہوتے۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ اس مسئلے کا حل میں نے یہ نکالا کہ جو طلبہ مجھ سے پڑھ چکے تھے اور ان میں جو سمجھ دار تھے، انھیں بات کرنی اور سمجھانی بھی آتی تھی،ان کی شخصیت بھی اچھی تھی، وہ کام کرنا چاہتے تھے اور انھیں پیسوں کی بھی ضرورت تھی، ایک دن ان سب کو میں نے اکھٹا کیا، انھیں چائے پلائی اور ان سے کہا کہ میں ایک ادارہ بنانا چاہتا ہوں، کیا آپ میرے ساتھ چلیں گے؟ وہ سب راضی ہو گئے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ چو نکہ میرے شاگرد ہیں اور اد ب کی وجہ سے ہاں کہہ رہے ہیں، لیکن یاد رکھو، جب ادارہ بن جائے گا اور کام چلنے لگے گا تو آپ کو مجھے پرنسپل کی صورت میں برداشت کرنا پڑے گا۔ اور یہ بہت مشکل ہے۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے میرے ساتھ کام کرنے کی ہامی بھرلی۔
جب دوافراد کا بطوراستاد اور شاگرد کا تعلق ہوتا ہے تو طالب علم کی استاد کے ساتھ عقیدت ہوتی ہے اور یہی عقیدت اس کے علم حاصل کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ لیکن جب استاد پرنسپل کے روپ میں آتا ہے تورویے میں تبدیلی آجاتی ہے۔ ٹیم بنانے کے بعد میں نے یہ اصول بنایا کہ ادارہ چلے یا نہ چلے، ٹیم کو تنخواہ ملتی رہے گی۔ لوگوں کی اکثریت یہ غلطی کرتی ہے کہ ادارہ چلنے پر تنخواہ دی جاتی ہے۔ جب ادارہ نہیں چلتا تو تنخواہ بند کردی جاتی ہے۔ اس وجہ سے وہ لوگ اپنا ادارہ چلا نہیں پاتے۔ آج بھی میرے ادارے میں تنخواہیں ہر حال میں پہلی تاریخ کو ملازمین کو مل جاتی ہیں۔
ایک لیڈر کو اپنا ادارہ چلانے اور اسے کامیاب کرنے کیلئے اپنی ٹیم پر اعتماد ہونا بہت ضروری ہے۔ اعتماد کے بغیر ادارہ نہیں بن سکتا۔ اگر بن بھی گیا تو وہ چل نہیں سکے گا۔ اگر چل گیا تو دردِ سر بن جائے گا۔
خدشہ کا ٹیکس
جو شخص لیڈر کی حیثیت سے کام کرنا چاہتا ہے، اسے سب سے پہلے اپنے خدشے کا ٹیکس دینا ہوگا۔ مثال کے طور پر، مجھے خدشہ ہے کہ ٹیچر چھوڑ جائے گا تو میں اس کے متبادل کے طور ایک اور ٹیچر رکھ لوں گا۔ اس کو تنخواہ دینا خدشے کا ٹیکس ہوگا۔ اس سے یہ بھی ہوگا کہ ٹیچر کو بھی پتا رہے گا کہ میرے چھوڑنے سے ادارے کو کسی قسم کا نقصان نہیں ہوگا۔
ہزاروں طلبہ مجھ سے پڑھ چکے ہیں۔ ان میں اکثر مجھے یادہیں، لیکن جو پہلے ڈیڑھ سو طلبہ ہیں، میں ان سب کو جانتا ہوں۔ مجھے ان کا، ان کے بہن بھائیوں کا اور ان کے خاندان تک کا پتا تھا۔ جن لوگوں کا پڑھانے سے تعلق ہے، انھیں معلوم ہوگا کہ ا ن میں اکثر کے ساتھ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ بچوں کو پڑھاتے تو ضرورہیں، لیکن ان کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھر طالب علم، طالب علم نہیں رہتا، وہ گاہگ بن جاتا ہے۔
میرا پڑھانے کا انداز یہ ہے کہ میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھتا تھا کہ وہ سوچتا کیسے ہے اور اْس کے کیا مسائل ہیں۔ میں اس کی اجازت سے اس کے مسائل کو دیکھتا تھا۔ شاید طلبہ کے بڑھنے کی ایک وجہ یہی تھی کہ طلبہ کو میتھ ، فزکس اور کیمسٹری کے علاوہ لائف کوچنگ مل جاتی تھی۔ اگر طالب علم کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے کا سبق بھی دے دیا جائے تو وہ طالب علم آپ کو زندگی بھریاد رکھے گا۔
ایک ایسا خاندان جس کی پشتوں میں کبھی کسی نے نہ اپنا کام کیا ہو اورنہ کوئی ادارہ بنایا ہو، اس خاندان میں ایک بائیس سال کا لڑکا اٹھے اور وہ ایسا ادارہ بنا دے جس میں چار سو سے زائد طلبہ ہوں اور آمدن بھی لاکھوں میں ہو تو یہ اچھنبے کی بات لگتی ہے۔ چو نکہ میر ی پشتوں میں کسی نے یہ کام نہیں کیا تھا، اس لیے میرے گھر والوں کو ڈر تھا کہ کہیں میں ناکام نہ ہوجاؤں۔ مجھ سے کئی لوگ کاروبار کے متعلق پوچھتے ہیں کہ ہم اپنا کاروبار کیسے چلائیں؟ میں انھیں جواب دیتا ہوں: ایک عمارت لیں اور شروع کر دیں۔ وہ سن تو لیتے ہیں، لیکن عمل نہیں کرتے۔ وجہ یہ ہے کہ کاروبار چلانے کیلئے جو توانائی اور خطرات لینے چاہئیں، وہ صلاحیت ان میں نہیں ہوتی۔
طویل عرصہ میرے گھر والے مجھ سے یہ باتیں کرتے رہے کہ جو تم کماتے ہو، وہ لگادیتے ہو۔ میں انھیں جواب دیتا کہ پڑھانے سے کمانا میری ترجیح نہیں ہے۔ یہ میرا شوق ہے۔ آج بھی بے شمار لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ پیسے کما کر مزید ترقی کیوں نہیں کرتے۔ میں انھیں جواب دیتا ہوں کہ یہ میرے ویژن میں شامل نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، پھر آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ میں ان سے کہتا ہوں کہ تعلیمی ادارہ ایک ٹول ہوتا ہے جس کے ذریعے آپ کو کچھ کام کرکے دکھانا ہوتے ہیں۔ اگر آپ اس ٹول کو صحیح استعمال نہیں کر رہے تو پھر وہ چاہے یونیورسٹی بھی بن جائے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔