ایک فیکٹری میں مزدوروں کے مسائل پر مزدور ساتھیوں میں باہم بات چیت چل رہی تھی۔ ان میں ایک پڑھا لکھا مزدور سب کی باتیں پوری توجہ سے سن رہا تھا جو کام کے حوالے سے مشینوں کا مکینک تھا۔ اور حالات کا شعور بھی رکھتا تھا۔ سب مزدوروں کی بحث میں جب اس نے اپنا نقطہ نظر ایک مثالی انداز میں بیان کیا۔ کہنے لگا کہ گھر سے فیکٹری آنے جانے کے لئے میرے پاس ایک پرانے ماڈل کاا سکوٹر ہے۔ جسے آپ بخوبی پہچانتے ہوں گے جس پر بچوں کو اسکول بھی چھوڑتا ہوں اور بیوی کے ساتھ بھی سواری کرتا ہوں۔ اب آمدنی اتنی نہیں ہے کہ نیا اسکوٹرلے سکوں۔ خود مکینک ہونے کی وجہ سے مرمت بھی خود ہی کرتا رہتا ہوں۔ پیسے بچانے کی غرض سے ملاوٹ شدہ پٹرول ڈال لیتا ہوں۔ ہر دو دن بعد کاربوریٹر صاف کرتا رہتا ہوں جب اس سے بھی بات نہیں بنتی تو گیس کٹ بدل لیتا ہوں یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی سکوٹر بیچ راستے میں رک جاتا ہے۔
پتہ ہے میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے کیوں کہ اس کا انجن خراب ہے۔ اس کا انجن فرسودہ اور پرانا ہو چکا ہے۔ مطلب کہ گل سڑھ چکا ہے۔ جو ان جدید سڑکوں پر آمدورفت کے قابل نہیں رہا۔انجن کی خرابی اسکوٹر کی بنیادی بیماری ہے۔ اور بیماری کو جڑ سے ختم نہیں کیا جا رہا۔ اس کے صرف مختلف حصوں (پارٹس) کی بنیاد پر جوڑ(کنکشن) ٹھیک کئے جا رہے ہیں۔ اور بیماری بڑھتی جا رہی ہے اور جان لیوا ہوتی جا رہی ہے۔ ہم بیمار ہو رہے ہیں۔ ہم گھٹ گھٹ کر مر رہے ہیں۔ کب تک سہیں گے۔ کیا ہم یونہی مرتے رہیں گے۔
مزدور کی بات نے سب مزدوروں کی سوچ میں ایک جذبہ پیدا کردیا اور اس کی بنیادی بات کے حق میں سب ساتھی کھڑے ہو کر تالیاں بجانے لگے۔ ایک مزدور ساتھی نے پھر سوال کیا کہ بیماری کو اخذ کر لیا کہ انجن فرسودہ ہو چکا ہے۔ تو ان سب کے باوجود اب کیا کرنا ہوگا؟
جوابا” عرض کیا کہ انجن بدلنا ہو گا۔ جو اپنے تمام حصوں کو طاقت دے۔ جو دور حاضر کے جدید تقاضوں کے مطابق تیز رفتاری کا حامل ہو۔ جس کے اندر رک رک کر چلنے کی خصلت موجود نہ ہو۔ جس پر سوار ہر طرح سے اور بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہو سکے۔ ہمارا نظام اسکوٹر کے بے کارانجن کی طرح ہے۔ جو بری طرح کینسر کی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے جس کے کنکشن ٹھیک کرنے پر ہم لگے ہوئے ہیں۔ جسے جزوی طور پر ٹھیک کرنا ایک خطرناک خوش فہمی کے مترادف ہو گا۔ اور یہی فرسودہ نظام اپنے فائدے کے لئیمسلسل کمزور غلام کی طرح ہمیں استعمال کر رہا ہے۔ جو کولہو کے بیل کی طرح کام لیتا ہے اور اگلے دن زندہ رکھنے کے لئے دو وقت کی روٹی دے کر احسان عظیم سمجھنے لگتا ہے۔ جسے نہ ہماری تعلیم، صحت، روٹی، کپڑا اور مکان کی فکر ہے اور نہ ہی آزادی کی قدروقیمت کا پتہ ہے۔ اس کے کنکشن ٹھیک کرنے سے کچھ نہیں بدلے گا۔ اس بیماری کو جڑ سے ختم کر کے اس کے متبادل نیا نظام قائم کرنا پڑے گا۔ پھر ہمارے جسموں کے ساتھ ہماری روحوں کو سکون اور چین میسر ہو گا۔
اگر ہم اپنے معاشرے میں ارد گرد دیکھتے ہوئے کسی ان پڑھ شخص سے سوال کریں کہ ہمارے بنیادی مسائل کیا ہیں۔ میرے خیال میں وہ بھی 11 نہیں تو کم از کم بڑی حد تک بنیادی مسائل کو بھرپور انداز میں بیان کرتے ہوئےانگلیوں پر گنوادے گا کہ ہمارے یہ مسائل اور حقوق ہیں جو حل بھی ہوں اور باعزت طور پر حاصل بھی ہوں۔ یہاں پریہ بات قابل غور ہے کہ اس غریب اور ان پڑھ شخص کو اپنے مسائل کا تو پتہ ہے لیکن مسائل کیسیحل ہوں گے۔ حل کے معاملے میں معزور نظر آئے گاکیونکہ وہ شعور اور حکمت عملی سے بیزار ہے۔ کہ وہ جانتا ہی نہیں کہ اس بیماری کا کیا حل ہے اور نتیجہ کیسے حاصل کرنا ہے۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر استوار کیا جائے گا۔ اب یہاں پھر سوال پیدا ہو گاکہ اگر ریاست مدینہ کی طرز پر مسائل حل کرنے ہیں تو کس فلسفہ کی بنیاد پرحکمت عملی کو بروئے کار لایا جائے گا؟۔
اگر ہم حقیقی طور پر موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا نظام تعلیم کلرکوں کی شکل میں صرف غلام پیدا کر کے ہماری صلاحیت اور قابلیت کو زنگ آلود کر رہا ہے۔ جو بے روز گاری جیسی لعنت کو جنم دے کر جرائم پیدا کرتا ہے۔ جو لارڈ میکالے (1835ء) کے فرسودہ فلسفہ تعلیم پر قائم ہے۔
ہمارا معاشی نظام سود پر مبنی ہے جس میں سرمایہ داریت پیدا ہو کر غریب کا استحصال ہو رہا ہے اور دولت نیچند لوگوں میں اکٹھا ہو کرقومی معاشی ترقی کو روک رکھا ہے جس نیاندرونی و بیرونی قرضوں کے انبار لگا دیے ہیں۔ جو ایڈم سمتھ(1885ء) کے استحصالی فلسفہء معاشیات پر قائم ہے۔
ہمارا سماجی نظام نوآبادیات کے طبقاتی نظام پر قائم ہے جس کے تحت مختلف گروہ، فرقے اور امیرو غریب کا فرق جیسے مسائل پیدا ہوئے۔ ہمارا سیاسی نظام جھوٹ، فریب اور دغابازی پر قائم ہے۔ کہ جھوٹے وعدے اور جذباتی تقریریں کر کے عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ جو میکاولی کے فلسفہئسیاست پر قائم ہے۔ ہمارا عدالتی نظام بیسویں صدی کے آغاز سے پہلے انگریز کا بنایا ہوا ہے۔ جس میں بے جا زر اور وقت درکار ہوتا ہے۔ جن کے فیصلوں کے انتظار میں عمریں اور نسلیں بیت جاتی ہیں۔ اس فرسودہ نظام کا خاتمہ کئے بغیر کس طرح ممکن ہے کہ ریاست مدینہ کی طرز پر پاکستان میں تبدیلی لائی جائے؟
مندرجہ بالا بیان کردہ نظام زندگی کے تمام حصوں کو اگر اسلامی تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے تو موجودہ نظام کا آج کے جدید دور میں ابو جہل کے نظام سے تجاوز کرنا زیادہ مشکل نہ ہو گا۔ دور حاضر میں نظام جہل کے ساتھ کس بنیادی حکمت عملی کے تحت ریاست مدینہ کی طرز پر تبدیلی مقصود ہو گی؟۔ کس طرح ممکن ہے کہ ہم بات ریاست مدینہ کی کریں اور نظام ابو جہل کا قائم رہے؟۔
ریاست مدینہ قائم کرنے سے پہلے تو ابو جہل کے نظام کو پاش پاش کیا گیا تھا۔ حالانکہ ابو جہل نے سرور کائنات حضورصلی وسلم کو یہ بھی باور کروا دیا تھا۔ کہ آپ صلی وسلم جس خاندان کی خوبصورت عورت پر ہاتھ رکھیں گے عطا ہو گی۔ مال ودولت اور عرب کی سرداری (حکومت) کی پیش کش بھی گوش گزار کی گئی۔ لیکن سرور کائنات صلی وسلم نے ابو جہل کا نظام قبول کرنے اور ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ابو جہل کے ظالمانہ نظام کے خاتمہ کیلئے اپنی باقاعدہ منظم اور تربیت یافتہ جماعت تیار کی۔ جو اپنی مکمل تیاری کے ساتھ ظالم نظام کیخاتمہ پر ریاست مدینہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اور اسی نظام کے نتیجہ میں مسلمانوں نے اپنے گیارہ سو سالہ عروج کی شاندار تاریخ رقم کی۔
معذرت کے ساتھ، معاشرے میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ آپ ایک نبی تھے اس لئے وہ سب کچھ اللہ کی طرف سیہونا ممکن تھا۔ بے شک آپ صلی وسلم اللہ کے محبوب اور عظیم نبی ہیں۔آپ کا درجہ اعلی و عرفہ ہے اور اللہ پاک نے آپ کے ذریعے ہی انسانیت کا کام لینا تھا۔ اسی لئے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ آپ کی عظمت عملی نمونہ (اسوہئحسنہ) کے ساتھ قائم ہے اور ہمارے لئے ان کی شخصیت کا عملی نمونہ ہی مشعل راہ ہے۔ اور زندگی کے کسی شعبہ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے عملی نمونہ کے تحت ہی حکمت عملی کا تعین کیا جاتا ہے۔ جس پر ہمارا قوی ایمان ہے۔ جس سے کوئی بھی انسان منحرف نہیں ہو سکتا۔ آپ صلی وسلم کا دور بھی زوال کا دور تھا جسے آپ کے ذریعے قرآن کی وضح کردہ حکمت عملی کے تحت عروج بخشا گیا۔ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالی نے آپ کے بعد آپ کی تربیت یافتہ جماعت کے تسلسل سے قرآنی نظام کو گیارہ سو سال تک کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کیا۔
آج پھر انسانیت زوال کا شکار ہے۔ تو اس زوال شدہ دور میں ہم کیسے یہ بات تسلیم کر لیں کہ کوئی انصاف کے نام پر قائم جماعت اس فرسودہ نظام کے آلہ کاروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروںکو اپنے ساتھ ملا کر بغیر کسی فلسفہ و حکمت کے ریاست مدینہ کی طرز پر اپنا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتی ہے
اگر ماضی میں 1970ء کی دہائی میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سوشلزم کا نعرہ لگانے والی جماعت کے قاعد ذولفقار علی بھٹو نے بھی تین نکات پیش کئے تھے جو روٹی، کپڑا اور مکان فراہم کرنے کی بنیاد پر تیار کئے گئے تھے۔ تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کتنی بار وہ جماعت اقتدار میں آئی اور گئی اور کس حد تک ان نکات پر عمل درآمد ہوا۔ جو محض ایک جوشیلا نعرہ بن کر رہ گیا جسے آج تک زندہ رکھ کے موروثی سیاست کی نذر کیا جاتا ہے۔ اور جماعت کا موجودہ تشخص بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کہاں تک قائم رہ سکاہے۔
اس جدید دور میں لادینی اور دہریہ قوموں کی ترقی پر نظر دوڑائیں جو ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوئے تھے۔ جن میں خاص طور پر روس اور چائنہ سر فہرست ہیں جنہوں نے سوشلزم اور کیمونزم فلسفہ کے تحت اپنے نظام قائم کئے۔ تو پتہ چلتا ہے کہ آج کے ان ترقی یافتہ ملکوں میں جماعتی تشکیل کی طویل جدوجہد اور ترقی کے پیچھے وہی حکمت عملیاں کار فرما ہیں۔ جو مسلمانوں نے اپنائی تھی۔ جس قوم کی جماعت جتنی زیادہ تربیت یافتہ اور اہلیت پر پورا اترنے والی ہو گی وہی جماعت آنے والی نسلوں کے لئے ترقی و عروج کے راستے ہموار کرتی ہے۔ اگر غیر مسلم قومیں ہمارے عظیم مسلمان رہنماؤں کی اجتماعی حکمت عملیوں کو اپنا کر قومی اور بین الاقوامی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟
تاریخ کو جب بھی کنگھال کر دیکھا جائے گا تو ایک ہی صورت نظر آئے گی کہ جب بھی زوال سے نکلنے کی جدوجہد کی گئی سب سے پہلے موجودہ دور میں آگے بڑھنے کے حوالے سے فلسفہ کا تعین کیا گیا۔ پھر فلسفے کی بنیاد پر کامیاب حکمت عملی کو اختیار کیا گیا۔ جس سے نوجوانوں میں شعور کی بنیاد پر تربیت سازی کا عمل اختیار کیا گیا۔ اور اسی تربیت سازی کو سامنے رکھتے ہوئے غیر مسلم ترقی یافتہ قومیں چائنہ، روس وغیرہ نے اسلام کی بنیادی حکمت عملیوں کے تحت ہی عروج کی طرف قدم رکھا۔ کیونکہ عالمگیر اصول و قوانین ایک ہی طرز پر قائم ہوتے ہیں۔ جنہیں کوئی بھی قوم اپنی ترقی کے لئیاختیار کر سکتی ہے۔
اپنے ذاتی سروے کے مطابق یہاں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مجموعی طور پر ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں کو ابھی تک یہی معلوم نہیں ہو سکا کہ ہمارا نظام کون سا ہے۔ کیوں کے ہمارے نظام تعلیم کے تحت نوجوان نسل کو شعوری بنیادوں پر وہ تعلیم ہی نہیں دی جاتی کہ جس کی بنیاد پر معلوم ہو سکے کہ ہمارے ملک کا مجموعی طور پر سیاسی، معاشی اور سماجی نظام کیا ہے۔ جس قوم کے نوجوانوں کو ان کے سیاسی شعور سے دور کر دیا جائے وہ قومیں کس طرح آگے بڑھ سکتی ہیں؟ ایسے میں شعور سے بیزار نوجوان قومی ترقی میں کیسے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے؟
اس تمام گفتگو کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اس پورے سسٹم کی بیماری اس انجن کا خراب ہونا ہے جو کینسر کی طرح ہمیں آہستہ آہستہ ایک بھیانک دلدل میں پھینکتا جا رہا ہے۔ جس میں نہ تو ہم ڈوب رہے ہیں اور نہ ہی اوپر آ رہے ہیں بلکہ وہیں پر پھنسے چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ اور جو دور بیٹھا وقت آنے پر جھوٹے وعدوں اور جذباتی نعروں کی شکل میں دلدل سے باہر نکالنے کا اشارہ کرنے پہنچ جاتا ہے تو دل کو تسلی دینے کے لئے ہم خیالی امید لگا کر بیٹھ جاتے ہیں کہ اس بار اسے آزما کر دیکھتے ہیں کہ شائد اس جماعت کے اقتدار میں آنے سے زندگی آسان ہو جائے۔ اسی خام خیالی میں زندگی کے قیمتی سال گزرتے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب ہم قریب المرگ پہنچ چکے ہیں۔ جسے بعد میں ہماری آنے والی نسلیں بھگتنے کے لئے تیار کھڑی ہوتی ہے۔ اورہر کوئی انفرادی طور پر اپنی جان بچانے کے چکر میں پڑا ہوا ہے۔
دلدل وہ زوال ہے کہ جس میں ہم بری طرح پھنس چکے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ زوال سے جذبات یا چیخ و پکار کر کے نہیں نکلا جاتا بلکہ ایک فلسفہ کے تحت سوچ وفکر قائم کر کے حکمت عملی کا تعین کیا جاتا ہے۔ جس سے ایک نظم و ضبط کے ساتھ آنے والے کل کی تیاری میں جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ جس کے لئے ہمارے پاس فلسفہ بھی ہے۔حکمت بھی ہے اگر نہیں ہے توتوجہ اور شعور نہیں ہے۔ عمل کرنا باقی ہے۔ جس کی بنیاد پر ہم وحدت انسانیت کی سوچ پر اجتماعیت قائم کریں۔ اور ایک تربیت یافتہ جماعت کی شکل میں آگے بڑھیں تا کہ ایک منظم اور مستقل جدوجہد آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بنے۔