ہم میں سے اکثر یہی سمجتھے ہیں کہ چین میں ڈکٹیٹرشپ ہے اور وہاں کے عوام کو دبا کر رکھا ہوا ہے۔ یہ تاثر مغرب کے میڈیا کا پیدا کردہ ہے۔ چین کے اندر 1948ء کے انقلاب کے بعد کمیونزم کے سماجی اور معاشی نظریات پہ دیہاتوں کا ایک ادارہ جاتی نظام بنایا گیا تھا، جس کو کمیون کہتے تھے۔ اس ادارہ جاتی نظام کے تحت دیہاتیوں کو اپنی فصلیں حکومت کو دینی ہوتی تھیں اور اس کے بدلے حکومت ان کو تمام سہولیات مفت میں دیتی تھی۔ یہ ایک حقوق اور فرائض کا نظام تھا۔ لیکن چین میں یہ نظام مثبت نتائج نہ دے سکا اور یہ ادارہ جاتی نظام فیل ہو گیا۔ چین کی دیہی آبادی 90 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس آبادی کو کمیونسٹ پارٹی نے اپنے ساتھ جوڑنے کے لیے ایک اور نظام کو پرموٹ کیا اور اس کے تحت مرحلہ وار بنیادوں پہ تمام ملک میں الیکشن کے ذریعے دیہاتوں کے نمائندے چنے گئے اوراس نظام کو منظم اور باقاعدہ بنایا گیا۔ 1997ء تک تمام ملک میں یہ نظام نافذ ہو گیا تھا۔ یہ نظام اتنا بااعتماد تھا کہ الیکشن کا ٹرن آؤٹ 90 فیصد تک رہتا ہے۔ ہرنمائندہ تین سال کے لیے منتخب ہوتا ہے اور اس کو اپنے کیے ہوئے وعدوں پر پورا اترنا ہوتا ہے۔ اگر وہ الیکشن کے دوران کیے ہوئے وعدے پورے نہیں کرتا تو اس کو اخلاقی کورٹ کے اندر چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
اس سسٹم کے آنے کے بعد چین کے دیہاتوں کے اندر امن بڑھا اور معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ان نمائندوں کے اختیارات میں وہاں کا امن وامان، یونین کونسل کے اداروں کی ترقی اور پالیسی بنانا، بوڑھے لوگوں کو ان کے بچوں سے حقوق لے کر دینا، سڑکیں بنانا، زمینوں کا انتظام، لوکل ٹیکس لگانا اور تعلیم بھی شامل ہے۔ ان نمائندوں کے انتخاب کے وقت ان کے کردار، ان کی عقل و شعور کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ ووٹ ڈالنے کا حق سب کو ہے اور الیکشن آفس آ کر سب لوگ ووٹ ڈالتے ہیں۔ بعض علاقوں میں گھروں میں بھی بیلٹ تقسیم کی جاتی تھیں لیکن وہ ختم کردی گئی۔ ووٹ کو رازداری میں رکھنا سماجی سطح پہ اچھا سمجھا جاتا ہے اور اس پہ عمل بھی کیا جاتا ہے ۔
چین کے دیہاتی اپنے ان نمائندوں پہ اعتماد بھی کرتے ہیں اور عام طور پر ان کے فیصلوں پہ عمل کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو ہم نے چنا ہے تو ان کے فیصلوں پر عمل کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس نظام کے تحت دیہا تیوں کو کچھ وقت کے لیے حکومت کی طرف سے مفت لیبر بھی کرنا پڑ سکتی ہے اورجس میں سماج کے ترقیاتی پروگراموں جیسے ڈیم، نہروں کی تعمیر، سڑکوں کی تعمیر شامل ہے کے لیے جانا پڑتا ہے۔
حوالہ جات
Zhang, J.; Li, X., Social transition in China. UnivPr of Amer: 1998.