آج کی بھیڑچال میں ہم بہت زیادہ سوچتے ہیں، ہم بہت زیادہ کھوجتے ہیں، بہت زیادہ چاہتے ہیں۔۔۔اور موجودہ لمحے سے لطف اٹھانا بھول جاتے ہیں!
ایکہارٹ ٹولے
ایکہارٹ ٹولے
ذرااُن چیزوں کی فہر ست بنائیے جو ہم زندگی میں مینج کر تے ہیں:
٭ نوکری
٭ بزنس
٭ خاندان
٭ بیوی
٭ بچے
٭ نیکیاں
٭ آخرت
٭ مستقبل
٭ ذرائع
٭ صحت
اس فہرست پر غور کیجیے تو پتا چلے گا کہ ان میںسے کوئی چیز ایسی نہیں جو قیمتی نہ ہو۔ پتا چلا کہ انسان ان چیزوں کو مینج کر تا ہے جو قیمتی ہوتی ہیں۔ تو کیا اس پیمانے پر اسٹریس کو مینج کیا جاسکتا ہے؟ کیوں کہ اسٹریس () یا ذہنی کرب قیمتی شے نہیں ہے۔ لہٰذا، اسٹریس کو مینج نہیں کیا جاسکتا، البتہ اسٹریس سے نمٹنے کیلئے خود کو ضرور مینج کیا جاسکتا ہے، یعنی سیلف مینجمنٹ (Self Management)۔
جو آدمی خود کو جتنا اچھا مینج اور منظم کرسکتا ہے، اس کی زندگی میں اتنا ہی اسٹریس کم ہوتا ہے۔ کوئی بھی اپنے اسٹریس کو سنبھال کر نہیں رکھنا چاہتا۔ جب آدمی باہر کی چیزوں کو مینج کرنے کی کوشش کر تا ہے تو پھر اسٹریس سنبھالے نہیں سنبھلتا۔ یہ ہمیشہ تب ہی مینج ہوتا ہے کہ جب آدمی خود کو مینج کرتا ہے۔ کوئی ماہر نفسیات کے پاس جائے اور کہے کہ مجھ سے اسٹریس مینج نہیں ہورہا تو وہ سمجھ جاتاہے کہ اس میں سیلف مینجمنٹ کی کمی ہے۔ اسٹریس مینجمنٹ ہر اس فرد کا مسئلہ ہے جس کے پاس سیلف مینجمنٹ کی کمی ہے۔
کوئی بھی شخص اسٹریس سے نہیں بچ سکتا۔ یہ ایک فطری عمل ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر رکھا ہے۔ کیو نکہ زندگی میں سو طرح کے مسائل ہیں۔ کاروبار ہے تو اسٹریس ہے، جاب کا اسٹریس ہے، فیملی کی ذمے داریوں کا اسٹریس ہے۔
اکیسویں صدی کی وبا- اسٹریس
طبی تحقیقات و مطالعات کے مطابق، موت کی سب سے بڑی وجہ دہشت گردی نہیں ہے، اسٹریس ہے۔ عالمی ادارئہ صحت (WHO) نے اسٹریس کو اکیسویں صدی کی وبا قرار دیا ہے۔ اس لیے اسٹریس کو معمولی سمجھ کر اس سے بے اعتنائی برتنے کی بجائے اس پر توجہ کرنے اور اس سے درست انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے۔
جب آدمی خود کو مینج نہیں کرپاتا تو اسٹریس اس پر حاوی ہوجاتا ہے اور پھر تعلقات سب سے زیادہ اسٹریس کی وجہ سے خراب ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ کاروبار اسٹریس کی وجہ سے تباہ ہوتے ہیں۔ انسانی صحت اسٹریس ہی کی وجہ سے برباد ہوتی ہے۔ ہارٹ اٹیک کا سب سے بڑا سبب اسٹریس ہے۔
جو لوگ اسٹریس کا شکار ہوتے ہیں اُن کی زندگی اتنی تکلیف دہ ہو جاتی ہے کہ انھیں موت کی تکلیف نہیں رہتی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مرنا آسان ہے کہ روز روز کی تکلیف سے تو جان چھوٹے گی۔ یاد رکھیے کہ جب کبھی اسٹریس آگھیرے تو سمجھ لیجیے کہ سیلف مینجمنٹ کم ہوگئی ہے۔ لہٰذا، سیلف مینجمنٹ پر توجہ کیجیے اور اسے سیکھئے۔
ان واقعات یا چیزوں کی فہرست بنائیے جن کی وجہ سے آپ ماضی میں اسٹریس میں مبتلا ہوئے:
٭ شرم و جھجک
٭ ہٹ دھرمی
٭ لڑائی
٭ امتحان کی ناکافی تیاری
٭ دفتر میں باس کا ناخوش ہونا یا شکایت کرنا
٭ کاروبار میں نقصان
٭ کوئی گھریلو مسئلہ
٭ مزید کوئی مسئلہ یا مسائل جو آپ کے خیال میں آپ کے اسٹریس کا باعث ہوئے
یہ فہرست ترتیب دے لیں تو اُن چیزوں پر نشان لگائیے جو آپ کے اختیار میں نہیں تھیں۔ جیسے کوئی حادثہ یا سانحہ۔۔۔ جو انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے۔ غیر اختیاری واقعات زندگی میں بے شمار بار آتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتاہے کہ آدمی دیوار سے ٹکریں مارتا ہے، لیکن راستہ نہیں ملتا۔ ایسا اس لیے بھی ہوسکتا ہے کہ کسی چیز یا واقعے کی نیچر کو بدلنے کی کوشش کی جائے۔ ایسے میں اسٹریس کہیں زیادہ ہوجاتا ہے، کیوںکہ آدمی وہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اُس کے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ آدمی کا اپنا قصور ہوتا ہے۔ غیر اختیاری واقعات اور اسباب کو بدلا نہیں جا سکتا، ان سے صرف سیکھا جاسکتا ہے۔ یہ غیر اختیاری واقعات زندگی میں مثبت احتیاط لے کر آتے ہیں اور بعض اوقات استاد سے زیادہ موثر ہوتے ہیں۔
اپنے تجربات سے سیکھئے
ان واقعات و سانحات میں اکثر ہمارے لیے سبق پوشیدہ ہوتے ہیں۔ آپ کی زندگی میں بھی ایسا کئی بار ہوا ہوگا کہ کسی سانحے نے آپ کو بہت قیمتی سبق دیا اور آپ کو اس سبق سے آئندہ زندگی میں بہت فائدہ ہوا۔ ایک فہرست بنائیے کہ آپ نے اپنی زندگی میں غیر اختیاری واقعات یا غلطیوں سے کیا سیکھا ہے:
٭ اپنی جیب کی حفاظت کرنی ہے
٭ اجنبی لوگوں سے بات نہیں کرنی
٭ راہ چلتے سیلز مین سے کوئی چیز نہیں لینی
٭ ذاتی زندگی کے بارے میں ہر ایک سے بات نہیں کرنی
٭ ہمدردی پرائے سے نہیں لینی، ہمیشہ اپنے سے لینی ہے
٭ چادر دیکھ کر پیر پھیلانا ہیں
٭ وقت سے پہلے تیاری کرنی ہے
٭ کبھی کوئی شے دیکھے اور پھونکے بغیر نہیں پینی یا نہیں کھانی
جو آدمی اس مزاج کے ساتھ زندگی گزارتا ہے کہ میری زندگی کا تمام تجربات میرے لیے سیکھنے کا ذریعہ ہیں تو اس کا اسٹریس کم ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ جو لوگ یہ جذبہ رکھتے ہیں کہ انھیں جو کچھ معلوم ہے، وہ دوسروں کو منتقل کریں گے تو ایسے افراد بھی کہیں کم اسڑیس کا شکار ہوتے ہیں۔ کیو نکہ قدرت کا اصول ہے کہ جو بانٹتا ہے، قدر ت اس کو نوازتی ہے۔
جتنا زیادہ قدرت ہم سے مخاطب ہوتی ہے، اتنا تو ہم بھی اپنے آپ سے نہیں بولتے۔ جو آدمی زندگی میں وہ کرتا ہے جو اسے پسند ہے تو وہ اس دنیا کو جنت بنا لیتا ہے، کیو نکہ پسند اور شوق میں زندگی کے مسائل اور مشقتیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتیں۔ایسے انسان کو پیش آمدہ مسائل کی پروا نہیں ہوتی۔ اسے لوگوں کی تنقید کا اثر نہیں ہوتا۔ وہ تو اپنی مستی میں مست ہوتا ہے۔ وہ اپنے پسندیدہ کام میں مگن رہتا ہے اور اپنے جنون میں مجنوں ہوا جاتا ہے۔ زندگی میں زیادہ تر وہی لوگ اسٹریس کے مارے ہوتے ہیں جو اس دنیا میں اپنی پسند اور ناپسند اور جنون کو دریافت نہیں کرپاتے۔ انھیں معلوم ہی نہیں ہوپاتا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں کس قسم کی شخصیت اور ڈھانچے کے ساتھ اس دنیا میں بھیجا ہے۔ جو لوگ اپنی فطرت کو دریافت کرلیتے ہیں، وہ اسٹریس سے بہت دُور رہتے ہیں۔ کیوںکہ اسٹریس کاموں کی زیادتی یا تھکن سے نہیں ہوتا، عدم دلچسپی سے ہوتا ہے۔
آدمی زندگی سے جو کچھ سیکھتا ہے، اگر اسے دیکھا جائے تو پوری کتاب بن سکتی ہے۔ بعض اوقات کتاب وہ کچھ نہیں سکھاتی جو زندگی سکھا دیتی ہے۔ اپنی ’’زندگی کی کتاب‘‘ (Life Book) بنائیے اور اس میں وہ تمام باتیں، وہ تمام نکات لکھئے جو آپ نے اب تک اپنی زندگی سے سیکھے ہیں۔
بعض اوقات زندگی میں ایسا شدید اسٹریس آتا ہے کہ آدمی کو دعا کرنے کا سلیقہ آ جاتا ہے۔ اس سے پہلے اسے پتا ہی نہیں ہوتا کہ دعا کیا ہے اور اللہ تعالیٰ سے کیسے مانگا جاتا ہے۔ لیکن، جب وہ عاجز آجاتا ہے تو اس کا دل گریہ و زاری شروع کردیتا ہے اور بے اختیار اُس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیا روں کی سنتا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ میرا بندہ میری طرف آجائے۔ کسی اسٹریس کی صورت میں جب آدمی اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اللہ کو بڑا پیار اور رحم آتا ہے۔ ایسے میں بندے کے آنسوئوں کے ساتھ اس کا تمام اسٹریس بہہ جاتا ہے اور جو راحت و طمانیت نصیب ہوتی ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔ اگر زندگی میں ایسی تکلیف آئے کہ اس کے بعد کسی کی تکلیف دیکھی نہ جائے تووہ تکلیف بہت قابل رشک ہے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’ایسا گناہ جو توبہ کرادے، اس گناہ کا شکریہ۔‘‘
حضرت بابافریدؒ فرماتے ہیں، ’’آنسو بہا‘‘ کیو نکہ وہ جو ریت ہے اس کے نیچے سونے کی ڈلی ہے۔ آنسوؤں کی ریت ہٹے گی تو نیچے سے سونا نکلے گا۔ انسان جتنا تکلیف میں خود کو جانتا ہے، خوشی میں نہیں جان سکتا۔ خود شناسی کا مرحلہ تکلیف کے ایام ہی میں طے ہوتا ہے۔ جب ساری دنیا بے قدری کرتی ہے، اُس دن اپنی قدر پہچانی جاتی ہے۔ بعض اوقات خود کو جاننے کیلئے ٹریجڈی ضروری ہوتی ہے، کیو نکہ اس کے بغیر انسان کے فرعون بن جانے کا ڈر ہوتا ہے۔ انسان بھول جاتا ہے کہ قدرت بھی کوئی شے ہے۔ پھر، خدا اپنے بندے کو چھوٹی بڑی تکالیف دے کر اسے فرعون بننے سے روکتا ہے۔
ان چیزوں کی فہرست بنائیے جن کو بدلا جا سکتا تھا :
٭ میں ہی کمزور تھا
٭ میں اس قابل نہیں تھا
٭ صلاحیت میں کمی تھی
٭ معاشی طور پر آزاد نہیں تھا
آپ کتنا پیسہ کماتے اور کتنا خرچ کرتے ہیں؟
اسٹریس کا معاشی کیفیت سے گہرا تعلق ہے۔ جو لوگ معاشی طور پر فعال ہوتے ہیں، ان میں نسبتاً اسٹریس کم ہوتا ہے۔ جن لوگوں کی لاٹری نکلی ان پر تحقیق کی گئی تو پتا چلا کہ کچھ عرصہ بعد وہ پھر اسی حالت میں چلے گئے، یعنی معاشی طور پر بدحال۔ جب ان سے پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ کاش ہماری لاٹری نہ نکلتی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ روپیہ تو آگیا، لیکن پیسہ استعمال کرنے کی اہلیت نہیں آسکی۔ زندگی میں اہلیت یا ٹیلنٹ کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ لوگ پیسہ کمانا آسان سمجھتے ہیں، مگر اس سے زیادہ مشکل کام پیسہ خرچ کرنا ہے۔ عموماً لوگوں کے پاس پیسہ تو خوب ہے، مگر پیسہ خرچ کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔ لہٰذا، وہ خوب کماتے ہیں لیکن پھر بھی معاشی مسائل میں پھنسے رہتے ہیں۔ اگر آپ کو پیسہ کمانا آتا ہے مگر پیسہ خرچ کرنے کا ٹیلنٹ آپ کے پاس نہیں تو آپ بہت محنت سے کمایا ہوا پیسہ تھوڑی سی محنت سے ضائع کردیں گے۔ نتیجہ؟ پیسہ کمانے کا اسٹریس اور پھر پیسہ ختم ہوجانے کا اسٹریس۔
ان چیزوں کی فہرست بنائیے جن کو بہتر کر کے اسٹریس کم کیا جاسکتا ہے:
٭ لوگوں کو منظم کرنا
٭ ٹیم بنانا
٭ وقت کو منظم کرنا
٭ رویے کو منظم کرنا
٭ اپنے کام کو سیکھنا
ہمارے ہاں بے شمار لو گ ایسے ہیںجنھیں خود تو زندگی گزارنی نہیں آتی اور ساتھ ہی ساتھ ان سے جڑے ہوئے لوگوں کی زندگی بھی ابتر ہوتی ہے۔ہر شخص کی شخصیت کا ایک ایسا حصہ ضرور ہوتا ہے جو دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔ یہ اُن کی شخصیت کا کمزور پہلو ہوتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے، شعور آتا ہے اور اچھے لوگ زندگی میں آتے ہیں تو وہ حصہ کم ہوتا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کرم ہوتا ہے تو وہ اس کمزور حصے کو چھپا دیتا ہے۔ وہ اپنے بندے کو دوسروں کے سامنے اتنا اچھا بنا دیتا ہے کہ پھر لوگ اس تک پہنچ نہیں پاتے۔ البتہ کمزور پہلو کے پیچھے چلے جانے سے کچھ چیزوں میں اسٹریس ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں زندگی میں سیکھنے کے ذرائع بڑھائیے۔ اچھے لوگوں کو زندگی میں لائیے تاکہ کمزور حصے کے اثرات کم سے کم ہوسکیں۔
انسانی تعلقات اور اسٹریس
جن لوگوں کو تعلقات بنانا آتے ہیں، اُن کی زندگی میں اسٹریس کم ہوتا ہے۔ تعلقات میں بہتری کیلئے کشادہ ظرفی ضروری ہے۔ اپنے اندر ظرف پیدا کیجیے۔ ظرف پیدا کرنے کا ایک موثر طریقہ دوسروں پر خرچ کرنا ہے۔ کبھی اپنی پوری کمائی بانٹ کر دیکھئے، بلکہ دو چار دفعہ دل سے بانٹئے۔ اللہ تعالیٰ سخی بنا دے گا اور سخی اللہ تعالیٰ کا دوست ہوتا ہے۔ کنجوس انسان اپنا اسٹریس مینج نہیں کر سکتا جبکہ سخی انسان کیلئے اسٹریس کو مینج کرنا کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ بلکہ سخی کو دیکھ کر تو اسٹریس دور سے بھاگتا ہے۔
فہرست بنائیے کہ آپ کا اسٹریس کہاں سے آتا ہے:
٭ کوئی فرد ہو سکتا ہے
٭ آئیڈیاز کا واضح نہ ہونا
٭ یقین (منفی)
٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض اوقات ایک عامل (فیکٹر) ایسا ہوتاہے جو بار بار اسٹریس کا باعث بنتا ہے۔ کھوجئے کہ اس کے پیچھے اصل میںکیا عامل ہے۔ کیا قدرت مجھے کچھ سکھانا چاہتی ہے۔ کیا میرے ذریعے سے دوسرے کو فائدہ ملنا ہے۔ کیا کسی ہدف کی تکمیل باقی ہے۔ اسٹریس سے بھاگنے کی بجائے شعوری طور پر اس پر کام کیجیے اور جانچئے کہ جن لوگوں نے اسٹریس کا سامنا کیا تھا، انھوں نے اسے کیسے کامیابی سے مینج کیا۔ سدھارتھا (گوتم بدھ) کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میرا جوان بیٹا مر گیا ہے، مجھے بڑی تکلیف ہے۔ کسی طرح میری اس تکلیف کو کم کردو۔ گوتم بدھ نے اسے مٹی کا برتن دیا اور کہا کہ شہر جاؤ اور اس گھر سے دانے لے کر آنا جہاں کبھی موت نہ ہوئی ہو۔ کئی دنوں کے بعد وہ واپس آئی تو برتن خالی تھا۔ اس نے کہا، مجھے ایک بھی گھر ایسا نہیں ملا جہاں موت نہ ہوئی ہو۔ گوتم نے پوچھا، تو پھر تمہاری تکلیف کہاں ہے؟ اس نے کہا، مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے۔ گوتم نے پوچھا، کیوں نہیں ہے؟ عورت نے جواب دیا کہ دوسروں کے دکھ دیکھ کر میرا دکھ ختم ہوگیا۔ کبھی اپنا دکھ بڑا لگے تو اپنے سے بڑے دکھ والے کو دیکھئے۔ اپنا دکھ چھوٹا لگنے لگے گا۔ ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ جایا کیجیے۔ یہ ایمرجنسی بہت کچھ سکھاتی ہے۔ قبرستان بہت کچھ سکھاتا ہے۔ حوالات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ یہ تمام ذرائع اسٹریس کم کرتے ہیں۔ اگر کسی کی تکلیف آپ کو مزید تکلیف میں مبتلا کردے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ آپ نارمل نہیں ہیں۔ اس کو حل کرنے کیلئے کسی ماہر معالج سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔
موٹیویشن اور تحریک
ہر فرد کیلئے موٹیویشن مختلف ہوتی ہے، کیو نکہ ہر فرد کا مزاج مختلف ہوتا ہے۔ ان عناصر کو تلا ش کیجیے جو آپ کو موٹیویٹ کر تے اور تحریک دیتے ہیں۔ لوگوں کی زندگی میں اسٹریس اس لیے بھی زیادہ ہوتا ہے کہ اُن کے پا س وہ ذرائع ہی نہیں ہوتے جن کی وجہ سے موٹیویشن ملتی ہے اور اسٹریس کم ہوتا ہے۔کوئی ایسا کام تلاش کیجیے جو آپ کیلئے تسکین کا باعث ہو۔ ممکن ہے، آپ دکان چلائیں اور ساتھ ہی کسی کو اچھی بات بھی بتادیں۔ آدمی جس کام کیلئے پیدا کیا جاتا ہے، عموماً وہی کام موٹیویشن کا باعث بنتا ہے۔
زندگی میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو آپ سے بے لوث ہوں۔ لیکن یہ تبھی ممکن ہے کہ پہلے آپ خود قابل بھروسا انسان بنیں، پھر بھروسے والے لوگ بھی ملنا شروع ہوجائیں گے۔ آدمی اپنے کاروباری لوگوں کو کھلا تا ہے تاکہ کاروبار میں ترقی ہو، لیکن جس سے موٹیویشن ملنی ہے، سکون ملنا ہے، اسے پوچھا ہی نہیں جاتا۔ اگر آپ کو کسی سے موٹیویشن ملتی ہے تو اس کی حفاظت کیجیے اور عزت۔شعوری طور پر کوشش کرکے موٹیویشن حاصل کیجیے جس کیلئے لیکچرز ، سیمینارز ، ورکشاپس میں شرکت کیجیے۔ کتابیں پڑھئے۔ بعض اوقات کوئی ویڈیو یا تحریر ایسی ہوتی ہے جو موٹیویشن کا باعث بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے موٹیویشن مانگا کیجیے کہ وہ آپ کو یہ احساس عطا کردے کہ اس واحد محدود زندگی کو بہترین طریقے سے گزارنے کا غم اور فکر آپ کے اندر پیدا ہوجائے۔
ان واقعات کی فہرست بنائیے جو موٹیویشن کا باعث بنے:
٭ ———————-
٭ ———————-
٭ ———————-
ایسے لوگ بھی ہمارے ارد گرد ہوتے ہیں جو موٹیویشن سے محروم کردیتے ہیں۔ ان سے محتاط رہیے۔ ایسے لوگوں کی فہرست بنائیے اور ان سے حتی المقدور دُور رہنے کی کوشش کیجیے۔ موٹیویشن کے ذریعے اسٹریس کو مینج کیا جاسکتاہے۔ موٹیویشن کو ایسے بچانا پڑتا ہے جیسے اندھیر ی رات میں چلتی آندھی کے دوران میں جلتے چراغ کی لَو کو بچایا جائے۔ جو شخص آپ کے اندر مایوسی اور یاسیت پیدا کرے، اس سے بچنے کی کوشش کریں اور اسے پیار یا سختی سے کہہ دیں کہ اس موضوع پر بات نہیں ہوسکتی۔ ساری زندگی ہر ایک سے ’’ہاں‘‘ کہنا بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ ’’نہ‘‘ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے زندگی میںانکار کرنا سیکھئے۔
حال سے لطف اٹھائیے
میں عرض کرچکا ہوں کہ عالمی ادارئہ صحت کے مطابق، اسٹریس اکیسویں صدی کی وبا ہے۔ تو پھر اس کا حل کیا ہے؟ اس کا حل بھی ماہرین صحت نے دیا ہے، اور آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ یہ حل دوائوں میں نہیں، ایک فطری طریقہ میں ہے۔۔ مائنڈفلنس۔ اس وقت دنیا بھر میں جتنی زیادہ تحقیقات اور اطلاقات صرف ایک موضوع یعنی مائنڈفلنس پر ہورہے ہیں، کسی اور موضوع پر نہیں ہورہے۔ دنیا کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیز میں نہ صرف اس پر تحقیقات ہوئی ہیں، بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں اسے داخل کردیا گیا ہے۔
مائنڈفلنس کیا ہے؟ خود کو ماضی کے غموں اور مستقبل کی تشویشوں سے نکال کر حال میں رہنا۔ یہ آج کے انسان کیلئے بہت ضروری ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے نالاں رہتے ہیں یا مستقبل کی ادھیڑ بن میں دن رات گزار دیتے ہیں اور یوں، اللہ تعالیٰ نے آج کی جو نعمت ہمیں عطا کی ہے، اس کی شکر گزاری نہیں کرپاتے۔ اسٹریس سے بچائو کیلئے مائنڈفلنس کی باقاعدہ ٹریننگ کسی ماہر سے لیجیے۔
درج ذیل سوالوں کے جواب تلاش کیجیے :
سوال مجھے کن باتوں پر غصہ آتاہے؟
جواب
—————————————
سوال لا شعوری طور پر میں کیا زیادہ سوچتا رہتا ہوں ؟
جواب
—————————————
سوال اپنی ذات کی بہتری کیلئے کو ئی کورس کیا ہے؟
جواب
—————————————
سوال عام طور پر میرے اسٹریس کی وجہ کیا ہوتی ہے ؟
جواب
—————————————
سوال میری ذات کی بہتری میں کس فرد کا کردار سب سے زیادہ ہے؟
جواب
—————————————-
سوال وہ کون سی کتاب ہے جس نے میری زندگی میں اثر ڈالا؟
جواب
—————————————-
سوال میری پانچ انسپائریشن کون سی ہیں ؟
جواب
————————————-
سوال کون سے پانچ لوگ ہیں جو میری کوشش سے زندگی میں داخل ہوئے ہیں؟
جواب
—————————————-
سوال رات کو سونے سے پہلے میں زیادہ تر کیا سوچتا ہوں؟
جواب
—————————————-
سوال صبح اٹھتے وقت میں لاشعوری طور پر کیا سوچتا ہوں ؟
جواب
—————————————
سوال آخری بار تنہائی میں دل سے کب رویا تھا؟
جواب
—————————————-
سوال میں آخری دفعہ ایسا کون سا بے لو ث کام کیا تھا جس کا مجھے کوئی کریڈٹ نہیں ملناتھا؟
جواب
—————————————-
سوال میں آخری دفعہ وقت کی قید سے کب نکلا تھا؟
جواب
—————————————-
سوال اپنے سٹریس کے بارے میں میری رائے کیا ہے؟
جواب
—————————————-
سوال کوئی ایسا شخص جو بہت برا لگتا تھا، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ وہ تو قابل رحم تھا؟
جواب
—————————————-
ان سوالوں کے جوابات تلاش کیجیے۔ جب یہ جوابات مل جائیں تو ایک ماہ بعد دوبارہ ان سوالوں کو لکھ کر ان کے جواب دیکھئے۔ اس سے پتا چلے گا کہ کتنی تبدیلی آرہی ہے۔ اگر اپنی ذات میں بہتری دیکھنی ہے تو پھر ایک سال بعد ان سوالوں کے دوبارہ جواب لکھیں اور جواب دیکھیں۔ غالب امکان ہے کہ وہ مکمل بدل چکے ہوں گے ۔ اگر آپ کے ان سوالوں کے جواب مختلف ہو ں تو پھر اس کا مطلب ہے کہ اسٹریس مینج ہونے لگا ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں، ’’پتھر نہیں بدلتا اس لیے اس کا نصیب نہیں بدلتا۔ صرف انسان بدلتے ہیں، اس لیے بدلنے والا ان کا نصیب بدل دیتاہے۔‘‘
دن کے کسی حصے میں تنہائی میں بیٹھ کر غوروفکر کیا کیجیے اور دیکھئے کہ کہاں غلطی ہے۔ اپنے اوپر تھوڑی تنقید بھی کیا کیجیے۔ اگر آپ اپنے پر تنقید نہیں کرسکتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ میں ٹھیک ہوں تو پھر بہتری آنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ تنہائی میں بیٹھ کر غوروخوض کرنے سے ساری پھوں پھاں نکل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کال کوٹھری کی سزا سب سے سخت سزا ہے، کیو نکہ ایسے میں غوروفکر انسان کو عاجز بنا دیتا ہے اور نئی شناخت ملتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنا سیکھئے۔ انسان اپنی خوشی اور کامیابی کیلئے طرح طرح کی پلاننگ کرتا ہے، لیکن سب سے زیادہ بہتر پلاننگ اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے۔ لہٰذا، خود کو اپنے اللہ کی پلاننگ کے حوالے کردیجیے۔ آپ کے بہت سے اسٹریس خود ہی ختم ہوجائیں گے۔
اسٹریس سے بچائو کے چند عملی مشورے
٭۔زندگی کا ہر واقعہ اور سانحہ ایک تجربہ ہے۔ تجربے کا کوئی مول نہیں ہے۔ اپنی زندگی کے ہر تجربے سے سیکھئے۔
٭۔جس طرح آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی میں کوئی دخل اندازی نہ کرے، اسی طرح دوسرے بھی چاہتے ہیں کہ اُن کے معاملات میں دخل اندازی نہ کی جائے۔
٭۔کبھی کسی دوسرے کے محتاج نہ بنیں، بلکہ اپنے ٹیلنٹ اور صلاحیتوں پر بھروسا کیجیے جو اللہ نے آپ کو دی ہیں۔
٭۔ کسی بھی بات کو حتمی نہ سمجھئے۔ تبدیلی کی گنجائش رکھیے۔ آپ جس بات کو درست سمجھ رہے ہیں، اس بات کا پورا امکان ہے کہ وہ ویسی نہ ہو، اس سے یکسر مختلف ہو۔
٭۔یہ شعور رکھیے کہ زندگی میں کس کو شامل کرنا ہے اور کس کو نہیں۔ جسے شامل رکھنا ہے تو کتنا۔
٭۔صرف اسے ذمے داری سونپئے جو اُس کام کا اہل ہے۔ جو ذمے داری لینا نہیں چاہتا یا اس کام کا اہل نہیں، آپ کیلئے بلا وجہ اسٹریس کا باعث ہوگا۔
٭۔اپنے اور لوگوں کے درمیان مناسب فاصلہ رکھیے۔۔۔ نہ بہت دُور ہوں اور نہ بہت قریب۔
٭۔پیسہ کمانے کے ساتھ ساتھ پیسہ خرچ کرنے کی صلاحیت بھی اپنے اندر پیدا کیجیے۔
٭۔زندگی گزارنے کا ڈھنگ سیکھئے، یعنی جن قدرتی اصولوں کے مطابق زندگی گزار کر اسے خوش اور فراواں کیا جاسکتا ہے، اُن اصولوں کو جانئے اورسیکھئے۔
٭۔آپ دوسروں کے بارے میں جیسا چاہتے ہیں، ویسے خود بن جائیے۔ آپ اچھے ہوں گے تو لوگ بھی اچھے ملیں گے۔
٭۔زندگی کو دیکھنے کا موجودہ زاویہ بدلیے۔ کالے رنگ کی عینک سے دنیا کو دیکھیں گے تو پوری دنیا میں تاریکی ہی تاریکی دکھائی دے گی۔ زاویہ نظر کے بدلنے سے چیزیں بدل جاتی ہیں اور اُن کے اثرات بھی بدل جاتے ہیں۔
٭۔یہ بھی یاد رکھیے کہ اسٹریس ہمیشہ برا نہیں ہوتا، بعض اوقات اسٹریس اچھا بھی ہوتا ہے۔ مثبت اسٹریس کا مقصد آپ کو اپنے خطہ آرام سے نکال کر اظہارِ جرات کے قابل کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے اسٹریس کا سوچ کر اسٹریس میں نہ آئیں۔ اس توانائی کو استعمال میں لائیے۔
اونچی اڑان : مصنف – قاسم علی شاہ
کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیجیے
0304-4802030