مستقبل ان لوگوں کا ہوتا ہے جو خوابوں کی خوب صورتی پر یقین رکھتے ہیں!
ایلینور روز ویلٹ
انسان ہمیشہ ہی سے اپنے مستقبل کو پیشگی جاننے کا خواہش مند رہا ہے۔ چنانچہ مستقبل کے موضوع کام کرتے ہوئے جو علوم پروان چڑھے، اُن کی تاریخ لات جو ہماری توانائی کو دیمک کی طرح چاٹ جائیں۔ یہ وائرس ہے جو مستقبل کو تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں۔ ایک شخص سقراط کے پاس آیا اور کہا کہ میرا مستقبل کیا ہے؟ مجھے اپنے مستقبل کا پتا کیسے لگے گا؟ سقراط نے ایک کاغذ دیا اور کہا کہ اس پر اپنے خیالات لکھو۔اس نے اپنے خیالات لکھ دیے۔ سقراط نے کہا، یہ تمہارا مستقبل ہے، کیو نکہ جیسے تمہارے خیالا ت ہوں گے، ویسا ہی تمہار ا مستقبل ہوگا۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’جو تمہارا خیال ہے، وہی تمہارا حال ہے اور حال سے ہی مستقبل بنتا ہے۔
2۔نظریات
ہر انسان کے اپنے نظریات اور اپنی اپروچ ہوتی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ دیانت داری بڑی چیز ہے، جبکہ بد دیانت آدمی کے نزدیک دیانت داری کی کوئی اہمیت نہیں۔ جس کے جیسے نظریات ہوں گے، ویسا ہی اس کا مستقبل ہوگا۔ اگر نظریات اچھے ہیں تو پھر مستقبل بھی ٹھیک ہوگا۔ پرسنل ڈیویلپمنٹ میں ’’یقین‘‘ (Belief) کہا جاتا ہے۔ یقین انسانی زندگی کو بناتے ہیںا ور یہی بگاڑتے ہیں۔ معروف کوچ اور مصنف اینتھونی روبنز کہتا ہے کہ دو طرح کے یقین ہیں: ایک یقین جو آدمی کو قابل کرتے ہیں، دوسری قسم کے یقین آدمی کی قابلیت چھین لیتے ہیں۔
بعض عمومی یقین جو مستقبل پر اثر انداز ہوتے ہیں:
٭ اگر کوئی یہ کہے کہ آپ بہت زبردست انسان ہیں تو اس کی بات کا یقین کر نا چاہیے، لیکن ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہوتا ہے۔ ساری دنیا ہمیں کہہ رہی ہوتی ہے کہ تم بڑے زبردست ہو، ہمیں یقین ہی نہیں آتا۔ جس دن دس میں سے دس نمبر آجائیں تو اُس دن ہمیں اپنی قابلیت پر شک ہونے لگتاہے۔ ہمیں یہ یقین ہونا چاہیے کہ اگر دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہے تو اِن آٹھ ارب انسانوں میں، مجھ جیسا کوئی نہیں ہے۔ میں منفرد ہوں۔
٭ اپنی صلاحیتوں پر یقین ہونا چاہیے۔ تیراک کے پاس اگر یقین نہ ہوتو وہ تیر نہیں سکتا۔ جہاز اڑانے والے کے پاس یقین نہ ہو تو وہ جہاز اڑا نہیں سکتا۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کا ہر پرندہ اپنے پروں سے نہیں اڑتا بلکہ اپنے یقین سے اڑتا ہے۔ اس کو یقین ہوتا ہے کہ اگر میں پر پھیلاؤں گا تو ہوا میں اڑنے لگوں گا۔ صلاحیتوں پر یقین کامیابی کو ممکن اور مستحکم بناتا ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین ہونا بہت ضروری ہے ۔ہم مخلوق ہیں اور وہ خالق ہے۔ مخلوق کا اپنے خالق پر یقین اور بھروسا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر اس خالق کائنات نے ہمیں پیدا کیا ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔ بغیر مقصد کے ہماری پیدائش نہیں ہوسکتی، اس لیے اپنے اور اپنے مستقبل کے حوالے سے اللہ تعالیٰ پر یقین رکھنا چاہیے۔
٭ زمانے پر یقین ہونا چاہیے۔ یہ وقت ہمارا وقت ہے۔ دنیا کی کوئی طاقت اس وقت کو ہم سے نہیں چھین سکتی۔ دنیا میں سو سال پہلے ایک وقت وہ تھا کہ جب ہم اس دنیا میں نہیں تھے۔ وہ ہمارا وقت بھی نہیں تھا۔ آج سے سو سال بعد میں نہیں ہوں گا تو ہمارا وقت بھی نہیں ہوگا۔ اپنے وقت پر یقین کرنا سیکھئے۔
3۔عادات
بھارت کے سابق صدر عبدالکلام اسکول میں بچوں کو لیکچر دیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ’’دنیا کا کوئی آدمی اپنے مستقبل کو بدل نہیں سکتا، لیکن اپنی عادات بدل سکتا ہے اور پھر اس کی عادات اس کے مستقبل کو بدل کر رکھ دیتی ہیں۔‘‘ اگر آپ کی عادات اچھی ہیں تو پھر کامیابی آپ کی منتظر ہوگی۔ پھر مٹی کو ہاتھ لگائیں گے تو وہ سونا بن جائے گی۔ پھر لوگ چاہے اَن چاہے محبت کر یں گے۔ آپ کو مواقع زیادہ ملیں گے۔ شہرت ملنا شروع ہوجائے گی، شناخت ملنا شروع ہوجائے گی اور پھر قدرت بھی راستہ بنانا شروع کردے گی۔
٭ خوش اخلاق اور خوش کردار بنیں۔ اگر اخلاق اچھا ہوگا تو پھر ترقی بھی ہوگی اور رزق بھی بڑھے گا۔ اللہ تعالیٰ زندگی میں برکت ڈالے گا اور عزت بھی ہوگی۔ برکت کا آپ کے اخلاق اور کردار سے گہرا تعلق ہے۔
٭ اپنے اندر سیکھنے کی عادت ڈالیے۔ پوری دنیا کتا ب ہے۔ ایک ایک واقعہ، ایک ایک شخص سکھاتا ہے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’زمین پر پڑے کاغذ سے بھی نصیحتیں ملنا شروع ہوجاتی ہیں۔‘‘ راہ چلتے کہیں نہ کہیں کوئی صفحہ دیکھیں، کوئی بورڈ، بینر ر یا اشتہار دیکھیں تو اس سے بھی سیکھنے کو ملے گا۔ سیکھنے کی عادت آپ کے مستقبل پر اثر ڈالتی ہے۔
٭ عزت کرنے کی عادت ڈالیے۔ سب سے پہلی اپنی عزت کیجیے تو دوسروں کی عزت کرنا آسان ہوجائے گا۔ جو آدمی اپنی عزت نہیں کرتا، دنیا بھی اس کی عزت نہیں کرتی۔ لوگوں کے عہدے بڑے ہوجاتے ہیں، مقام بڑا ہوجاتا ہے، لیکن عزت نہیں ہوتی۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ خود اپنی عزت نہیں کرتے۔٭ اپنے کام کی عزت کیجیے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کوئی کام، کوئی کاروبار، کوئی فن ، کوئی ذمے داری دی ہے تو اس کی عز ت ضرور کیجیے، کیو نکہ اگر آپ اپنے کام کی عزت نہیں کریں گے تو پھر آپ کو دوسروں سے عزت بھی نہیں ملے گی۔٭ جس کو اللہ تعالیٰ نے عزت دی ہے، اس کی عزت کیجیے۔ ہمیں عادت ہوتی ہے کہ ہم جب پرانے دوستوں سے ملتے ہیں جو بڑے عہدوں پر پہنچ چکے ہوتے ہیں تو اُن کا مذاق اڑاتے ہیں۔ بہ حیثیت قوم، ہمارا یہ بہت عام مسئلہ ہے کہ ہم دوسروں میں کیڑے نکالتے ہیں۔٭ قدر کرنا سیکھئے۔جو آدمی اپنی چیزوں، اپنے پیسوں، اپنی فیملی، اپنی اولاد، اپنے گھر اور اللہ تعالیٰ نے جو آسانیاں دے رکھی ہیں، اُن کی قدر نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ ان نعمتوں کو چھین لیتا ہے۔ جو آدمی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو اہمیت دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس میں بر کت ڈال دیتا ہے۔ ہم اس بات کی بہت کوشش کرتے ہیںکہ جو ہمارے پاس نہیں ہے، وہ ہمیں مل جائے۔ لیکن، ہمارے پاس اللہ کا دیا پہلے سے جو کچھ ہے، ہم اس پر شکر گزار ہوتے ہیں اور نہ اس کی قدر کرتے ہیں۔ معروف مصنف جان گرے جو ’’مین فرام مارس، وومین فرام وینس‘‘ کا مصنف بھی ہے، اس نے اس موضوع پر بھی کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے، How to Get What You Want; and Want What You Have۔ یہ کتاب موقع لگے تو ضرور پڑھئے۔٭ ہمیشہ اپنی اوقات یاد رکھیے۔ جب بھی آپ کو اپنا آغاز یاد ہوگا تو آپ شکر گزار رہیں گے۔ لوگوں پر مہربان ہوں گے۔ ملازموں پر مہربان ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی کامیابیوں اور نعمتوں کی قدرکریں گے۔ اپنی صلاحیتوں اور مہارتوں پر اِترانے کی بجائے عاجز رہیں گے۔4۔ملنے والے لوگانسان اپنی دوستی سے پہچانا جاتا ہے۔ اپنی دوستیوں اور اپنی نفرتوں کا مشاہدہ کیجیے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کوئی قدر والا انسان ہو اور آپ اسے دور کر رہے ہوں۔ اور کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ کوئی آپ کا دشمن ہو اور آپ نے اس سے ہاتھ ملا یا ہوا ہو۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’انسان عجیب مخلوق ہے۔ اس کی آدھی تقدیر اس کے اپنے ہاتھ پر اور آدھی تقدیر اُس کے ہاتھ پر لکھی ہوتی ہے جس سے وہ ہاتھ ملاتا ہے۔‘‘ آپ جس سے ہاتھ ملاتے ہیں، وہ آپ کو یا تو بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے یا پھر پستیوں میں گرادیتا ہے۔ خوشبو کی دکان پر جائیں تو اگر وہاں کچھ نہیں خریدیں گے، تب بھی کپڑوں میں خوشبو بس جائے گی۔ کوئلے کی دکان پر جائیں گے تو کوئلہ نہیں خریدیں گے، تب بھی کپڑوں پر کالک لگ جائے گی۔قدر دینے والے بنیں۔ لوگوں کی قدر کیجیے اور ان لوگوں کو اپنی زندگی میں شامل کیجیے جو آپ کی قدر میں اضافے باعث کا ہوں۔ وہ لوگ جن کی شمولیت سے آپ کی زندگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ آپ کے دوست نہیں ہیں۔ ایسا فرد جس کی وجہ سے آپ کی زندگی، آپ کی سوچ، نظریات و یقین اور عادات بدل جائیں، آپ کیلئے بہت اہم ہے۔ ا یسے افراد کو اپنی زندگی میں ضرور شامل کیجیے۔
اپنے خیالات کے پہرہ دار رہیں، کیو نکہ سوچ مستقبل کو تباہ کر دیتی ہے اور سنوار بھی دیتی ہے۔بزرگان دین فرماتے ہیں کہ دل کے دروازے پر دربان بن کر بیٹھو اور دیکھو کہ کون سا خیال آتا ہے اور کون سا خیال جاتا ہے، کیو نکہ جو بھی خیال آتا ہے وہ مستقبل کو متاثر کرتا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے لوگوں کا کہنا ہے کہ یقین سے زندگی بنتی ہے اور بگڑتی ہے۔ آپ کے یقین اچھے ہوں گے تو زند گی اچھی ہوگی۔ سید سرفراز شاہ صاحب فرماتے ہیں، ’’مجھے کسی کے مستقبل کی کوئی خبر نہیں ہے، لیکن اتنا پتا ہے کہ جس کے عادات و خصائل آج اچھے ہیں، تو پھر اس کا مستقبل بہت اچھا ہے۔ جو آج میں اچھا انسان ہے، اللہ تعالیٰ اس کے آنے والے وقت کو اچھا کر دیتا ہے۔ جو آج میں اچھا نہیں ہے، اس کا مستقبل خطرے میں ہے۔‘‘
اپنے حال کو بدلیے، مستقبل خود بدل جائے گا۔
اونچی اڑان : مصنف – قاسم علی شاہ
کتاب حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیجیے
0304-4802030