’’اگر آپ کے جذبات آپ کے قابو میں نہیں، اگر آپ کو خود آگہی نہیں، اگر آپ پریشان کن جذبات کو منظم نہیںکرسکتے، اگر آپ کے اندر شفقت نہیں، اگر آپ کے تعلقات استوار نہیں۔۔۔ تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کتنے ذہین ہیں، آپ زیادہ دُور نہیں چل سکیں گے!‘
ڈینیل گولمین
جب انسان مختلف لوگوں کو دیکھتا اور اُن سے ملتا ہے تو اس سے اس کی قوتِ مشاہدہ بڑھتی ہے اور یوں اس کے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب آدمی زمانہ طالب علمی سے نکل کر عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے اور چند سال گزار تا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ کتاب کا علم تو بڑا محدود ہے۔ اس سے نمبر تو اچھے آ جاتے ہیں، لیکن زندگی کے مسائل و معاملات میں اس کا عمل دخل زیادہ نہیں ہے۔ زندگی گزارنے کیلئے کلاس روم کی مشقیں اور لیب کے تجربات سے کہیں زیادہ اہم حقیقی زندگی کے تجربات ہیں۔
علم مختلف ذرائع سے آ تا ہے۔ تجربہ ہوتا ہے، تجربے سے رائے بنتی ہے اور وہ رائے غلط بھی ہوسکتی ہے اور درست بھی۔ ایک علم آدمی کے اپنے مشاہدے سے آتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک آدمی لمبے عرصے تک لوگوں کو پڑھاتا ہے تو وہ لوگوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اسے پتا چلتا ہے کہ کس طرح کے لوگ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں اور کس طرح کے ناکام ہوتے ہیں۔ یہ تمام علوم زندگی گزارنے میں معاون ہو تے ہیں۔ علم بڑھتا ہے تو انسانی ذہانت بھی بڑھتی ہے۔ دیکھا جائے تو ہم بچے کے اسکول میں داخلے سے لے کر مرتے دَم ذہانت بڑھانے کے طریقے جاننے اور انھیں اختیار کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔
انسانی ذہانت: ایک پیچیدہ موضوع
ایک زمانہ تھا کہ ماہرین صرف دو قسم کی ذہنی کیفیت کی بات کرتے تھے: ذہین اور غبی۔ لیکن، سائنسی تحقیقات اور انسانی علوم نے آج یہ بات آشکار کی ہے کہ انسانی ذہانت کا موضوع اتنا سادہ نہیں جتنا کہ سمجھا جاتا رہا ہے۔
انیس سو تیراسی میں دنیا میں انسانی ذہانت کے حوالے سے ایک نئی تھیوری آئی جسے ’’ملٹی پل انٹیلی جنس‘‘ (Multiple intelligence) کا نام دیا گیا۔ یہ تھیوری ہاورڈ گاڑدنر نے پیش کی جو ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انسان میں آٹھ طرح کی ذہانتیں پائی جاتی ہیں:
٭ الفاظ کی ذہانت
٭ اعداد کی ذہانت
٭ خاکوں کی ذہانت
٭ جسمانی حرکات کی ذہانت
٭ موسیقی کی ذہانت
٭ لوگوں سے میل جول کی ذہانت
٭ اپنے آپ کو سمجھنے کی ذہانت
٭ فطرت کی ذہانت
انھوں نے پاگل بچوں پر بھی تحقیق کی اور بتایا کہ دنیا اگرچہ انھیں پاگل کہتی ہے، لیکن ان میں کئی طرح کی ذہانتیں پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک پاگل شخص ہے مگر وہ گانا بہت اچھا گا لیتا ہے۔ یہ ذہانت کی ایک قسم ہے جس میں وہ اپنی آواز کے پیچ و خم کو بہت اچھے طریقے سے تبدیل کرلیتا ہے۔
اس تھیوری سے پہلے ایک ہی تھیوری چلی آ رہی تھی کہ ذہانت صرف یادداشت یا آئی کیو کا نام ہے۔آئی کیو جانچنے کیلئے فرد کی عمر پوچھی جاتی ہے۔ اگر عمر بائیس برس ہے تو اس کے کچھ ٹیسٹ لیے جاتے ہیں۔ پھر اس سے جو رزلٹ بنتا ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ اس کے ذہن کی عمر اس کی جسمانی عمر سے زیادہ یا کم ہے۔
جذباتی ذہانت
انیس سو چھیانوے میں یونیورسٹی آف میساچوسٹس کے ڈینیل گولمین نے ایک قدم آگے بڑھ کر ذہانت کے بارے میں ایک اور تھیوری پیش کی اور بتایا کہ انسان کی کامیابی اور ناکامی کا بہ راہِ راست تعلق اس کی جذباتی ذہانت (Emotional Intelliegence) سے ہے۔ گزشتہ تیس دہائیوں میں کامیابی کے موضوع پر جتنی تحقیق کی گئی ہے، ا س کے مطابق کسی فرد کی کا میابی میں آئی کیو کا کردار صرف پندرہ سے بیس فیصد ہوتاہے جبکہ اسی سے پچاسی فیصد کا انحصار آدمی کی جذباتی ذہانت پر ہوتاہے۔ کیوں کہ انسان جو کچھ عمل کرتا ہے، اس کا انحصار اس کی اُس وقت کی جذباتی کیفیت پر ہوتا ہے یعنی وہ کیسا محسوس کررہا ہے۔
جذباتی ذہانت کا علم ہمیں بتاتاہے کہ جذبات 27 قسم کے ہوتے ہیں۔ ان ستائیس جذبات میں دو بہت اہم ہیں۔ غصہ اور محبت۔ ایک شخص میں اگر 26 جذبات ہوں، لیکن غصہ نہ ہوتو اس کی شخصیت متاثر ہونا شروع ہوجائے گی۔
جذبات زندگی کا ایندھن ہوتے ہیں۔ جو آدمی جذباتی طور پر ذہین نہیں، وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ وہ خطرے میں ہے اوراس سے بھی زیادہ خطرے میں وہ ہے جو جذبات کو دباتا ہے۔ ہمیں یہی سکھایا جاتا ہے کہ اپنے جذبات کو کنٹرول کریں۔ یہ بات غلط ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جذبات کو دبایا نہ جائے، بلکہ انھیں منظم یا مینج کیا جائے۔ جذبات کو دبانے سے نقصان ہوتا ہے۔ مثا ل کے طور پر، اگر کسی کو دفتر میں ڈانٹ پڑنے پر غصہ آ گیا، مگر اُس نے اپنے غصے کو دبا لیا تو وہ غصہ کہیں اور نکلے گا۔ وہ یہ غصہ اپنے گھر والوں پر نکالے گا یا صحت پر۔
محبت اور غصہ
نپولین ہل نے اٹھائیس بر س تحقیق کے بعد ایک کتاب لکھی، Think and Grow Rich۔ اس کتاب میں وہ کہتا ہے کہ ’’میں نے دو ہزار سال کی سوانح عمریاں پڑھ کر دیکھی ہیں۔ جتنے بھی کامیاب لوگ ہیں، ان کی کامیابی میں محبت کا نہایت اہم کردار ہے۔‘‘ محبت واحد جذبہ ہے جو انسان کو انسانیت کی معراج پر لے جاتا ہے۔ یہ واحد جذبہ ہے جو انسان کو فوکس کرنا سکھاتا ہے۔ یہ اتنا طاقت وَر جذبہ ہے کہ جس کی وجہ سے لوگ پھانسی کو قبول کرلیتے ہیں۔ دنیا میں بڑے بادشاہ اسی جذبے کی وجہ سے فقیر ہوئے۔ امیر لوگوں نے اپنی جاگیر یں اس کے پیچھے لٹا د یں۔ کسی نے آئن سٹائن سے پوچھا کہ آپ نے ’’نظریہ اضافیت‘‘ پیش کیا ہے۔ اسے ذرا آسان لفظوں میں سمجھا دیں۔ اس نے جوا ب دیا کہ انسان اگر کسی خوبصورت لڑکی سے محبت کرتاہے اور وہ سارا دن اس کے پاس بیٹھا رہے تو شام کو پوچھا جائے کہ کتنا وقت گزرا ہے تو وہ جواب دے گا کہ ابھی تو لمحہ گزراہے، لیکن اس کو گرم توے پر بٹھا دیا جائے توایک سیکنڈ کے بعد کہے گا کہ ایک صدی گزر گئی۔
بہت کم گانے ایسے ملیں گے جس میں محبت،پیار اور عشق کے الفاظ نہ ہوں۔ وہ گانا گاناہی نہیں ہے جس میں محبت بھرے الفاظ نہ ہوں، جس میں دکھ درد نہ ہو، جس میں لگن اور کڑھن نہ ہو، جس میں جنون نہ ہو۔ کچھ نہ کچھ تو ایسا ہے کہ جس کی وجہ سے ساری شاعری یہاں سے شروع ہو تی ہے اور یہیں ختم ہوتی ہے۔ زندگی کے ابتدائی بارہ تیرہ برس کی عمر سے سے اگلے بارہ تیرہ سال تک کی عمر یہ جذبات اپنی انتہا پر ہوتے ہیں۔ محبت میں انسان اپنا وقت دیتا ہے، اہمیت دیتا ہے اور قربانی کیلئے تیار رہتا ہے جس شخص میں یہ تین چیزیں پائی جا ئیں تو سمجھ لیجیے کہ اسے کسی سے محبت ہے۔ یہی محبت اگر صنف مخالف ہوجائے تو عموماً جوانی کو برباد کرڈالتی ہے اور یہی محبت اگر کسی عظیم مقصد سے ہوجائے تو زندگی سنور جاتی ہے۔
وقتی محبت کا انجام
میں مجازی محبت کی بات کررہا ہوں تو یہاں یہ حیران کن حقیقت بھی بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ عموماً جو شادیاں محبت کی بنا پر ہوتی ہیں، وہ شدید جذباتی بھونچال کا شکار ہوجاتی ہیں۔ کیوں؟ دراصل، لڑکا اور لڑکی جس جذبے کی شدت کے باعث آپس میں شادی کرتے ہیں، وہ جذبہ تو وقتی ہوتا ہے اور شادی کے بعد جب ازدواجی زندگی کے مسائل کھڑے ہوتے ہیں، آٹے دال کا بھائو معلوم ہوتا ہے تو دوسرے بہت سے کرخت جذبات اس جذبے پر غالب آجاتے ہیں۔ یوں، پریم کہانی کچھ ہی عرصہ میں Blame کہانی بن جاتی ہے۔ محبت کی شادی کرنے والے اکثر جوڑے لڑائی جھگڑوں میں پھنس جاتے ہیں۔
محبت ایک توانائی ہے اور اس توانائی کو کام میں لانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے اعلیٰ تر مقصد پر لگا دیا جائے۔ بندہ عشق مجازی سے عشق حقیقی کے قابل ہوجاتا ہے۔ یوں، اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کا تعلق بنتا ہے تو اسے صحیح سمت مل جاتی ہے۔ یہ کائنات کا واحد راستہ ہے جس میں کوئی سرا نہیں، جہاں کوئی خطا نہیں ہوتی۔ یہ واحد جذبۂ محبت ہے کہ جس میں انسان کو وہ سرور آتا ہے کہ جس سے پہلوتہی ممکن نہیں ہوتی۔ ہماری بے شمار طرح کی کوچنگ کا کسی اور جگہ انعام ملنا ہوتاہے۔ محبت واحد جذبہ ہے کہ اس سے نکلنے کے بعد انعام ملنا شروع ہوتا ہے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’غم چھوٹے انسان کو کھا جاتا ہے اور بڑے انسان کو بنا جاتاہے۔‘‘
غصہ اور مشرقی دانش
بعض لوگ چہرے سے بہت غصیلے لگتے ہیں۔ یہ زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جن میں غصہ پایا جاتا ہے، لیکن انھوں نے غصے کو دبایا ہوتاہے جس وجہ سے غصے کے اثرات ان کے چہرے پر آجاتے ہیں۔ جتنا زیادہ غصہ دبایا جائے گا، وہ اتنا ہی شخصیت کو متاثر کرے گا۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’کم ظرف کا غصہ اسے کھا جاتاہے اور اعلیٰ ظرف کا غصہ اسے بنا جاتا ہے۔‘‘ ایک او رجگہ کہتے ہیں کہ ’’غصہ ایسا شیر ہے جو تمہارے مستقبل کو بکری بنا کر کھا جاتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی جو خوبیاں بیان کررہے ہیں، ان میں یہ بھی ہے کہ وہ غصے کو پی جاتے ہیں۔ (سورہ آلِ عمران، آیت ۱۳۴) غصہ پی جانے کا ہمارے ہاں یہ لیا جاتا ہے کہ اسے دبا یا جائے جبکہ عربی کے لفظ ’’کاظمین‘‘ کے ماخذ کی طرف جائیں تو پتا چلتا ہے کہ عرب لوگ بھرے ہوئے کنوئیں کو کاریز کے ذریعے خالی کنوئیں کے ساتھ جوڑتے تھے جس سے خالی کنواں بھی بھرجاتا تھا، یعنی جوڑنے کے عمل کو ’’کاظمت‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن اُردو میں کاظمت کا کوئی مناسب متبادل نہیں ہے ۔ پاکستان میں بلوچستان کے سوا ’’کاریز‘‘ کا رواج نہیں ہے۔ اگر مروجہ لفظ نہ ہو اور نہ کوئی اور لفظ ہو تو پھرقاعدہ یہ ہے کہ جو بھی قریبی لفظ ملے گا، وہ استعمال کیا جائے گا۔ اس لیے کاظمین کے معانی کا اُردو میں جو لفظ ملا وہ ’’پی جانا‘‘ لیا گیا۔ لہٰذا، اس معانی کے ساتھ ہمیں یہ سکھایا گیا کہ جب بھی غصہ آئے تو اسے پی جانا ہے۔ البتہ، مولانا احمد علی لاہوری نے اس کا ترجمہ ’’جو غصے کو ضبط کرنے والے ہیں‘‘ کیا ہے جو انگریزی کے لفظ to manage کے زیادہ قریب ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ غصہ پیتے پیتے بوڑھے ہو جاتے ہیں وہ دل کے مریض بن جاتے ہیں۔ ان کے مزاج چڑ چڑا پن پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کو بڑا مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ غصہ نکال دینا بہتر ہے، لیکن رکھنا خوف ناک ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ہاتھ میں انگارے ہوں، وہ کسی کو مارنے ہوں، لیکن ساتھ ہی کہہ دیا جائے کہ انھیں پکڑ کر رکھو۔ اگر ان انگارے دوسروں کو مارے جائیں گے تو جسے مارے جانے ہیں، اس کا شاید تھوڑا ہی نقصان ہو، ہاتھ میں انگارے پکڑے رہنے کے باعث ہاتھ ضرور جل جائیں گے۔
آپ کا ردِ عمل کیسا ہے؟
جذبہ۔۔۔ محبت ہو یا غصہ، منفی ہو یا مثبت۔۔۔ سب سے اہم اس کے بارے میں ہمارا اپنا موقع پر اختیار کیا جانے والا ردِ عمل ہے۔ یاد رکھیے، زندگی میں آنے والی چیز اہم نہیں ہوتی، جتنا اہم اس کے بارے میں ہمارا ردِعمل ہوتا ہے۔ اگر غصے کو کنڑول کرکے مثبت ردِعمل دیا جائے تو اس کے خاطر خواہ نتائج ملتے ہیں۔ غصے کا مثبت ردِعمل دینے کیلئے کوئی ایسا کام تلاش کیجیے جس پر غصہ استعمال ہوسکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ ہی نہیں ہوتا کہ جس پر غصہ منتقل کیا جاسکے۔ پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ الٹا نقصان ہوجاتا ہے۔ عموماً بے مقصد لوگوں کے ساتھ ایسا ہوا کرتا ہے۔ لیکن جس شخص کی زندگی میں کوئی مقصد ہے، وہ اپنے غصے کی توانائی کو مقصد پر لگائے گا۔
انسان دنیا میں اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ جو آدمی محبت کرتا ہے، لڑتا مشقت کرتا ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس میں جذبات پائے جاتے ہیں۔ اب آپ کا کام یہ ہے کہ ان جذبات کو بگٹٹ چھوڑنے کی بجائے ان سے کام لینا سیکھئے۔ جانئے کہ کس جذبے کو کہاں استعمال کرنا بہتر ہے اور کہاں نقصان دہ ہے۔ زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل کا مثبت ردِعمل دینا سیکھئے۔ یوں جذبات فائد ہ دینے لگتے ہیں۔ شخصیت میں اعتماد آتا ہے اور زندگی کو مینج کرنا آسان تر ہو جاتا ہے ۔
سماجی ذہانت
’’سچی ہمدردی صرف یہ نہیںکہ آپ کو دوسروں کے درد کا احساس ہو، بلکہ اس درد کو دُور کرنے کی تدبیر بھی کیجیے!‘‘
ڈینیل گولمین