انسانی روح کا جو پہلو۔۔ رحمانی یا شیطانی۔۔۔ جاگتا ہے، انسان اسی کے مطابق زندگی میں چیزوں کا انتخاب کرتا ہے!رومی
ایک شخص نہایت سادہ اور ایمان دار تھا۔ اس نے دینی تعلیم کی اور پھر کسی دوسرے گاؤں میں مسجد کا خطیب لگ گیا۔ اسی گاؤں کی ایک عورت سے اسے محبت ہوگئی۔ وہ محبت پروان نہ چڑھ سکی۔ عورت کی شادی کسی اور جگہ ہو گئی۔ اس شخص کو جدائی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس جدائی نے اس کا رُخ مجاز سے حقیقت کی طرف موڑ دیا۔ جب وہ واپس اپنے علاقے کی طرف پلٹا تو اس کے پاس نسخہ کیمیا آچکا تھا۔ دنیا کے جس شخص کے بھی پاس وہ نسخہ کیمیا آجاتا ہے، پھر اس کا کام چاہے گانا ہو، پینٹنگ ہو، شاعری ہو، خطابت ہو، لکھنا ہو، بولنا ہو یا دنیا کا کوئی اور میدان، وہ بہترین نتائج دینے لگتا ہے۔ اس کے پاس یہ ہنر تھا کہ اس کے پاس شاعری تھی۔ جدائی نے اسے پنجابی شاعری کا شیکسپیئر بنادیا۔ پھر اس نے اتنا شان دار کلام لکھا کہ چھیالیس زبانوں میں اس کلام کا ترجمہ ہوا۔ ہم انھیں حضرت وارث شاہؒ کے نام سے جانتے ہیں۔
حال سے بے حال
کسی بھی بڑے انسان کی زندگی کو دیکھ لیجیے، اس کی زندگی میں ایک وقت ایسا ضرور آیا ہے کہ اس کی اپنے اصل سے ملاقات ہوگئی۔ حضرت امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ ’’انسان کی دو پیدا ئشیں ہیں۔ ایک جب وہ اس دنیا میںآتا ہے، دوسرا جب اس کی اپنے آپ سے ملاقات ہوتی ہے۔‘‘ انسان کو اپنے آپ سے ملاقات کیلئے لمبا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ ایک وہ سفر ہوتا ہے جسے کلومیٹر میں ناپا جاتا ہے، اور ایک سفر انسان کے اندر کا سفر ہوتا ہے۔ اس سفر میں انسان کی چلتے چلتے اپنے آپ سے ملاقات ہوجاتی ہے۔
روحانی بیداری
بیداری صرف یہ نہیں کہ صبح اٹھ کر نماز ادا کرلی جائے۔ یہ تو انسان کا فطری تقاضا ہے اور ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ نیند پوری ہونے کے بعد جا گ جاتاہے۔ اصل بیداری یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ سے آشنا ہوجائے۔ اس بیداری کے متعلق حضرت بابا بلھے شاہؒ فرماتے ہیں کہ ’’فیر نئی ہوسن آون تیرا۔۔۔اب تو جاگ مسافر پیارے‘‘ زندگی گزر رہی ہے۔ یہ ختم ہونے کو ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ ختم ہوجائے، اگر تو بیدا ر ہوئے بغیر چلا گیا تو پھر تو نے دنیا میں آنے کا حق ادا نہیں کیا۔ بسا اوقات انسان سے اعلیٰ کام چڑیا کر تی ہے۔ وہ دانے کھاتی ہے، لیکن سارے دانے ہضم نہیں کرتی۔ کچھ بچا کر فضلے کی صورت میں زمین پر پھینک دیتی ہے جس سے اعلیٰ شان دار درخت تیار ہوتا ہے۔
ایک شخص ا پنے کاروبار میں مصروف تھا۔ بھیک مانگنے والا آیا اور بھیک مانگی۔ اس نے کہا، تھوڑی دیر انتظار کرو۔ انتظار لمبا ہوگیا تو فقیر نے کہا، دینا کچھ نہیں ہے؟ اس نے کہا، باباجی انتظار کرو، میرے پاس وقت نہیں ہے۔ فقیر نے کہا، کیا تمہارے پاس مرنے کا وقت بھی نہیں ہے۔ اس شخص نے کہا، باباجی کیا آپ کے پاس ہے؟ فقیر نے کہا، میرے پاس تو وقت ہی وقت ہے۔ میں تو پہلے سے ہی تیار بیٹھا ہوں۔ یہ کون سا مشکل کام ہے۔ اس شخص نے کہا، میں سمجھا نہیں۔ فقیر نے کہا، میں جانے لگاہوں۔ اس نے اس شخص کو السلام علیکم کہا، لیٹا اور فوت ہوگیا۔ یہ دیکھ کر اس شخص نے اپنا کاروبا ر چھوڑ دیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس دکان دار کو اس واقعے نے بیدار کر دیا اور اسی بیداری نے اسے حضرت فرید الدین عطارؒ بنادیا۔
تاریخ کے ایک بہت بڑے استاد کے مدرسے میں کتابیں لکھی جاتی تھیں۔ وہ استاد اپنی لکھی ہوئی کتابوں سے روزانہ درس دیا کرتے تھے۔ ایک دن ایک فقیر آ یا اور پوچھا، کیا پڑھا رہے ہیں؟ استاد نے جواب دیا، باباجی، یہ آپ کے کام کی باتیں نہیں ہیں۔ فقیر نے غصے میں آکر کتابوں کو تالاب میں گرا دیا۔ استاد نے کہا، آپ نے میری زندگی کی محنت غارت کردی۔ فقیر نے کہا، روتا کیوں ہے۔ انھوں نے تالاب میں ہاتھ ڈالا اور کتابیں جھاڑ جھاڑ کر نکالنی شروع کردیں۔ استاد نے کہا، با باجی، یہ کیا ہے؟ فقیر نے کہا، یہ باتیں تمہارے کام کی نہیں ہیں۔ تمہار ا کام صرف پڑھانا ہے۔ فقیر کا یہ کہنا تھا کہ استاد کی اپنے آپ سے ملاقات ہوگئی۔ اسی ملاقات نے انھیں حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ بنادیا۔ مولانا رومی نے اس بیدار ی کے بعد اپنا مدرسہ چھوڑ دیا اور فقیر کو تلاش کرنا شرو ع کردیا، یہاں تک کہ فقیر کی تلاش میں تین سال لگ گئے۔ جب فقیر ملا تو آپؒ اس کے قدموں میں گرگئے اور کہا کہ مجھے آپ کو تلاش کر تے ہوئے تین سال لگ گئے۔ فقیر نے گلے لگا کر کہا، بیٹا تجھے تین سال لگے ہیں اور مجھے تمہیں تلاش کرنے میں تیس سال لگ گئے۔
بے خبر دنیا
یہ خبر کسی کو نہیں ہے کہ کب قدرت کسی وارث شاہؒ کو مجاز سے بیداری عطا کر دے۔ کس کو خبر ہے کہ کسی کی موت بیداری پیدا کر دے۔ کس کو خبر ہے کہ زندگی میں آنے والا سانحہ بعد کی زندگی کا شکریہ بن جائے۔ قدرت چھوٹے چھوٹے واقعات سے بیداری دیتی ہے۔ بڑے لوگ ایسے بھی ہیں جنھیں جیل کی سزا ہوئی اور انھیں خود شناسی مل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے جب بھی کسی کو بیدار کرنا ہوتا ہے تو اُس کے پاس اس عطا کے سو بہانے ہوتے ہیں۔ وہ کسی نہ کسی بہانے آدمی کو بیدار کردیتا ہے۔
ایک درویش روز دریائے راوی کے کنارے کھڑے ہو کر قرآن پاک ختم کیا کرتے تھے۔ بادشاہِ وقت کو تمنا ہوئی کہ اس درویش سے ملا جائے۔ اس نے پیغام بھیجوایا۔ درویش نے کہا، اگر بادشاہ کو ملنے کی تمنا ہے تو وہ دریا کے کنارے پر پالکی پھینک دے، میں اس پالکی پر بیٹھ کر اوپر آجاؤں گا۔ اس وقت دریائے راوی شاہی قلعہ لاہور کے ساتھ بہتا تھا۔ بادشاہ نے شاہی قلعہ سے پالکی پھینک دی اور انتظار کرنے لگا۔ درویش پالکی میں بیٹھ گیا اور اوپر آگیا۔ جب وہ اوپر آیا تو بادشاہ نے ہاتھ باندھ لیے اور درخواست کی کہ مجھے بتائیں کہ آپ اللہ تعالیٰ تک کیسے پہنچے۔ انھوں نے کہا، یہ جواب میں پہلے دے چکا ہوں۔ بادشاہ نے حیران ہوا اور پوچھا کہ آپ نے کب اس سوال کا جواب دیا؟ درویش نے کہا، جواب یہ تھا کہ جیسے ہی تو نے پالکی کو اوپر کی طرف کھینچا تو اسی طرح اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا۔ بیداری کا کمال یہ ہے کہ قدرت جب بیدار کرنا چاہتی ہے تو وہ ایسی مہربانی کر تی ہے کہ بندے کی اپنے چہرے سے شناسائی ہوجاتی ہے۔
غم تو میٹھا خوان ہیں
لوگوں کی بہت بڑی تعداد دُنیا سے شناسا ہے، لیکن اپنی ذات سے شناسا نہیں ہے۔ انھوں نے کبھی ایک لمحہ بھی اپنے ساتھ نہیں گزارا۔ انھوں نے کبھی سوچا ہی نہیں ہوتا کہ میرا اصل کیا ہے اور میر ی پہچان کیا ہے۔ ہم لوگ اپنے غم کو ضائع کر دیتے ہیں، حالانکہ قدرت نے ہمارے لیے میٹھا خوان بھیجا ہوتا ہے۔ ہم اس خوان سے فیض یاب ہی نہیں ہوتے۔ کچھ واقعات ہماری ذات کو پختہ کرنے کیلئے ہوتے ہیں، لیکن ہم انھیں ضائع کر دیتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہمیں اس کے ضائع ہونے کا بھی پتا نہیں چلتا۔ جب آدمی خود کو تلاش کرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے تو پھر آنے والاہر واقعہ اسے نکھارتا ہے۔
جیسے جیسے انسان کی عمر بڑھتی ہے، اس کی ضروریات بھی بدلتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک عمر میں کھلونے انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہوتے ہیں، کیو نکہ اسے اتنا ہی شعور ہوتا ہے۔ یہی شعور جب ترقی کرتا ہے تو یہ سوال اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں کہ مجھے دنیا کے نئے رنگ دیکھنے اورنئے ذائقے چکھنے ہیں۔ وہ ان رنگوں دیکھتا اور ذائقوں کو چکھتا ہے۔
لیکن جب یہ رنگ اس کیلئے بے لذت اور بے معنی ہوجائیں تو اس کے بعد اگلی اسٹیج آتی ہے۔ پھر وہ سوال کرتا ہے کہ میں کون ہوں اور مجھے جانا کدھر ہے۔ یہ شعور کی انتہا ہے۔ یہ شخصیت کی پختگی کی علامت ہے۔ آدمی میں جب بیداری آتی ہے تو اندر اطمینان پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ قدرت کے فیصلوں پر شاکر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے۔ ایسی صورت میں جب آدمی کے دل میں خیال آتا ہے کہ میرا اللہ تعالیٰ سے رابطہ ہونا چاہیے تو اس وقت اس کو ہر قدم اطمینان ہوتا ہے۔ اس کا ایک ایک قدم اسے بتا تا ہے کہ مجھ پر میرے اللہ کا کرم ہوگیا ہے۔ اگر آپ کا راستہ اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے تو پھر وہ آپ کو راستہ دکھانے کا بندو بست کرتا ہے۔
ذرا اس مقام پر جا کر سوچئے کہ گلیوں کے لڑکے پتھر مار رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک لہو لہان ہے۔ آپؐ بستی سے باہر نکلتے ہیں تو جنوں کی جماعت آ تی ہے اور عرض کرتی ہے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سنا ہے۔ اس سے اعلیٰ اور خوب صورت کلا م سنا ہی نہیں۔ کیا یہ صبر اور استقلال اللہ کے فضل اور خودشناسی کے بغیر ممکن ہے؟ نہیں، قطعاً ممکن نہیں!
اللہ کے راستے کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ آنکھ نم رہتی ہے۔ سخت دل لوگ اللہ تعالیٰ کے راستے پر نہیں ہوتے۔ باباجی اشفاق احمدؒ فرماتے ہیں، ’’درد، وہ نہیں ہے کہ چوٹ لگے اور خود کو محسوس ہو، بلکہ درد وہ ہے کہ درد کسی کو ہو رہا ہو لیکن محسوس آپ کو ہو رہا ہو۔‘‘
چالیس سال، فصل کی تیاری میں
دنیا کے زیادہ تر عظیم افراد دیکھا یہ گیا ہے کہ اوسطاً چالیس سال کی عمر کے بعد غیر معمولی ہوئے ہیں۔ چالیس سال کے بعد اس لیے نام بنتا ہے کہ چالیس سال تک اپنے آپ کو فتح ہی نہیں کیا گیا ہوتا۔ اس سے پہلے تو زمین ہم وار ہوتی ہے، بیج ڈالا جاتا ہے، شخصیت کو سینچا جاتا ہے اور کہیں چالیس برس کی عمر میں وہ پھل دیتا ہے جب دنیا کہتی ہے کہ واہ، وہ رہا کامیاب آدمی، عظیم انسان۔
اونچا وہ نہیں ہوتا جو خود اونچا ہوتا ہے، بلکہ اونچا وہ ہوتا ہے جودوسرے کو اونچا کرکے خوش ہو۔ اگر آپ کے دماغ کے کسی نہاں گوشے میں یہ خیال موجود ہے کہ میرے پاس بہت علم ہے، دوسروں کے پاس نہیں ہے تو پھر آپ کی روحانیت پر سوال ہے، کیو نکہ یہ مالک کا کرم ہوتا ہے کہ کسی کو زیادہ نواز دے اور کسی کو کم۔ اگر انسان اپنی اوقات دیکھے تو اس کی کوئی اوقات نہیں ہے۔ یہ اس کا کرم ہو تا ہے کہ کسی کی محنت سے پھل میں ذائقہ آجاتا ہے۔
خلوت کی عادت ڈالیے
خلوت یعنی تنہائی ایسا ذریعہ ہے جس میں انسان اپنے آپ سے آشنا ہوتا ہے۔ اپنی ذات اس وقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ جب آدمی تنہا ہو تا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں تنہائی میں غوروفکر کرنا سکھایا ہی نہیں ہوتا۔ ہماری خوبی یہ تصور کی جاتی ہے کہ ہم لوگوں سے گھل مل کر جئیں۔ لہٰذا، ہم تنہائی میں اپنا اپریشن کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ ہم اگر تنہا ہوتے بھی ہیں تو یہ پلان کر رہے ہوتے ہیں کہ فلاں کو کس طرح نقصان پہنچانا ہے،فلاں سے کیوں کر آگے نکلا جاسکتا ہے، وغیرہ۔ لیکن، تنہائی دوسروں کو کریدنے کیلئے نہیں، اپنا پوسٹ مارٹم کرنے کیلئے استعمال کیجیے۔ تنہائی دنیا کا واحد مدرسہ ہے جہاں آپ کو اپنی شناسائی ہوتی ہے، جہاں اپنی قربت ملتی ہے اور آدمی اپنی ذات کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے۔ کیا کسی نے خوب کہا کہ ’’اب تو جاگ مسافر پیارے۔۔۔فیر نئی ہوسی آون تیرا۔‘‘
شعور کے بغیر کچھ نہیں ملتا
جب تک یہ شعور نہ ہو کہ مجھے اس دنیا میں کیا چاہیے، کہاں سے ملے گا اور کیسے ملے گا، اس وقت تک استقامت بہت مشکل ہے۔ یہ نہ ہو تو پورا بازار چھان مارا جاتا ہے۔ گھوم پھر کرآخر میں ایک دکان سے چیز لی جاتی ہے اور تب بھی یقین نہیں ہوتا کہ آیا یہ سودا ٹھیک ہے یا نہیں۔۔۔ اس لیے کہ ہمیں یہ پتا ہی نہیں ہوتا کہ زندگی میں میری اصل ضرورت کیا ہے۔ دنیا کے درباروں پر اس لیے رکتے ہیں کہ ہم نے اللہ کا دربار میںکھٹکھٹایا ہی نہیں ہوتا۔ ہم کبھی سچے دل سے اس چوکھٹ پر گئے ہی نہیں ہوتے۔ پوری دنیا تلاش کرلیجیے، اللہ تعالیٰ کے دَر سے بہتر کوئی دربار نہیں ملے گا۔ جس دن یہ پتا چل گیا کہ سب سے اچھا دربار اللہ تعالیٰ کا دربار ہے تو پھر استقامت خود بہ خود آجائے گی۔ حضرت امام زین العابدینؒ فرماتے ہیں، ’’اے میرے مالک، اگر تو مجھے اپنے دربار سے نکال دے تو پھر بتا کہ وہ کون سا دربار ہے جو مجھے بٹھائے گا؛ اگر تو نکال دے گا تو کچھ نہیں بچے گا۔‘‘
استقامت چاہے دنیا کے معاملات میں ہو یا دین کے معاملات میں، ہمیشہ کلیرٹی (Clarity) پر ہوتی ہے۔ کلیر ہونے کا مطلب ہے کہ میرا اس ذات کے سوا کچھ اور تعلق نہیں۔ جب یہ یقین ہو جائے کہ میرا تعلق صرف اسی سے ہے تو پھر وہ بھی آپ کو نہیں چھوڑتا۔
ایک بندہ دعا مانگ رہا تھا فرشتہ پاس سے گزرا اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا فرشتہ ہوں مجھے بتائیے کہ آپ کو کیا چاہیے بندے نے فرشتے کے سامنے ایک فہرست بیان کی۔ فہرست سننے کے بعد فرشتے نے کہا، رہنے دے، میں سمجھ گیا ہوں۔ اس کو جا کر میں بتا دوں گا کہ تیرا بندہ تیرے سوا ہر شے مانگ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کیجیے کہ اے میرے مالک، وہ تمام چیزیں اور واقعات عطا کردے جو تیرے قریب کردیں۔
آپ کیا چاہتے ہیں
اگر آپ کی تلاش کا مقصد اللہ کو پانا ہے تو پھر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف لے جائے گی۔ وہی جگہ جو کسی کو نماز کا ثواب اور بندگی دے رہی ہے، وہی جگہ کسی کو جوتیوں کا نیا جوڑا دے رہی ہوتی ہے۔ آپ جو چاہتے ہیں، وہی آپ کو ملے گا۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ’’ہدایت اس کا خزانہ ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ہدایت اس کو ضرور دیتا ہوں جو اندر سے ہدایت طلب کرتا ہے۔ اگر آپ سچے دل سے ہدایت طلب کرتے ہیں تو پھر وہ ضرور نوازے گا۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’حضرت داتا علی ہجویری کے عرس پر جا کر میں نے پوچھا، آج تو بڑا میلہ لگا ہوا ہے۔ آواز آئی کہ وہ سارے بھاٹی کی مٹھائی کھا کر واپس چلے گئے۔ میرے پاس تو کوئی آیا ہی نہیں۔ پوچھا، کیوں نہیں آیا؟ جواب ملا، اگر کپڑے کی دکان پر جا کر لوہا مانگو تو نہیں ملے گا۔ اسی طرح ہم اللہ والے کے پاس ہم اپنا کام کرانے جاتے ہیں، ہمیں اللہ نہیں چاہیے ہوتا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات سے تعلق نہیں ہوتا، ہمارا تو کوئی کام پھنسا ہوتا ہے وہ نکلوانا ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ضرور کیا کیجیے کہ اے اللہ پاک، ہمیں مجبور ہونے سے بچا کیونکہ جیسے مردار پر گدھ ٹوٹتے ہیں، اسی طرح مجبور شخص بھی کسی جھوٹے پیر کیلئے آئیڈیل ہوتا ہے اور اس مجبوری کے باعث وہ ایسے راستے پر چل پڑتا ہے کہ جس میں ماسوائے گمراہی کے کچھ نہیں ملتا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ فقر (غربت، مجبوری، پریشانی) آدمی کو کفر تک پہنچادیتی ہے۔ بتوں کے راستے پر اللہ نہیں ملتا، اللہ صرف اللہ والوں کے راستے پر ملتا ہے۔
اللہم انی اسئلک العفو والعافیہ
بیداری کا بہترین معیار