میں زندہ رہنا چاہتا ہوں، تمام عمر پردیسی کی طرح اجنبی رہنا نہیں چاہتا!جان ماہونی
ہجر ت کے دو بڑے اسباب ہوتے ہیں: ایک اپنی بقا اور دوسرا من پسند زندگی۔ ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت جو ہجر ت کرتی ہے اس کا تعلق محنت مزدوری سے ہوتا ہے، یعنی ہم اسے دوسری قسم کی ہجرت میں شامل کرسکتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں خوداعتمادی کی کمی ہوتی ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ شاید ہم وہاں جائیں گے تو کامیاب ہوجائیں گے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ انسان جہاں بھی چلا جائے، لیکن اپنا نصیب ساتھ لے کر جاتا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ علاقہ بدل جائے تو نصیب بدل جائے۔ بس، ایک فرق ضرور ہوتا ہے کہ جو آدمی یہاں اپنے دیس میں رہ کر کچھ نہیں کرتا، باہر جا کر وہی آدمی کام کرنا شروع کردیتا ہے۔ یہاں سے جانے والے باہر جا کر وہ تمام کام کرنا شروع کردیتے ہیں جو یہاں رہ کر کسی قیمت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
آدمی جب ملک سے باہر جا تا ہے تو پیسہ تو مل جاتا ہے، لیکن وہ اپنی زندگی کی سب سے قیمتی شے جو والدین اورپیاروں کی صورت میں ہوتے ہیں، انھیں گنوا دیتا ہے۔ اس سے شخصیت میں خلا پیدا ہوجاتا ہے۔
ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ جیسے انسانی زندگی کی بقا کیلئے آکسیجن بہت ضروری ہے، اسی طرح زندگی میں خوشی اور راحت کیلئے اپنوں کا ساتھ بھی بنیادی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی ماں کی محبت چاہیے، ہمیں اپنے باپ کی شفقت چاہیے، ہمیں بھائی کا ساتھ اور بہن کی رحمت چاہیے۔ باہر جانے والے ان تمام چیزوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔
پیسے کیلئے پیاروں کی قربانی عقل مندی نہیں
برصغیر کے لوگوں میں ایک عادت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ برصغیر کے باسی سوشل بہت ہوتے ہیں۔ یہ بہت ہی مثبت عادت ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جو آدمی یہاں رہ کر کام نہیں کرنا چاہتا، وہ پردیس جاکر اپنے سوشل سرکل سے باہر نکل جاتا ہے اور وہاں جا کر ہر قسم کا کام کرنے کو تیا ر ہوجاتا ہے۔ یہ ایک شدید ظلم ہے جو وہ اپنے ساتھ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب کسی شخص کو روز یہ باتیں سننے کو ملیں کہ تم پڑھتے نہیں ہو، تم کام نہیں کرتے۔۔۔ تو اس طرح کی باتوں سے بچنے کیلئے وہ تعلیمی ویزے کا سہارا لے کر باہر چلا جاتا ہے۔ لیکن وہاں جا کر پتا چلتا ہے کہ زندگی کتنی تلخ ہے۔ وہاں روبوٹ کی طرح کام کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ تعلیم کی غرض سے باہر جاتے ہیں وہ وہاں پر تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں اور ساتھ کام بھی کرتے ہیں تاکہ معاشی بوجھ کو ہلکا کیا جاسکے۔ پھر اکثر کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ معاش کے دھندے میں ایسے پھنستے ہیں کہ تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے۔
دیہاڑی والی سوچ
مزدوری (لیبر) کوئی ہنر نہیں ہے۔ مزدوری کی غرض سے باہر جانے والے جب برسوں بعد واپس لوٹتے ہیں، وہ تب بھی مزدور ہی رہتے ہیں۔ قیصر عباس صاحب کہتے ہیں کہ جس آدمی کی سوچ دیہاڑی والی ہوتی ہے، وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیہاڑی والے کا ویژن صرف ایک دن کا ہوتا ہے۔ اس کی آنکھ صرف ایک دن کو دیکھتی ہے۔ اس کی آنکھ یہ دیکھتی ہے کہ بس، آج کی روٹی پوری ہوجائے۔ اس کی آنکھ یہ دیکھتی ہے کہ بس شادی ہوجائے۔
اگر ترقی کرنی ہے تو پھر اپنے اندر سے دیہاڑی والا مزاج اور ویژن ختم کرنا ہوگا۔ یہ مزاج ختم کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ اپنی زندگی پر سرمایہ کاری (انوسٹمنٹ) کی جائے۔ سرمایہ کاری کا نتیجہ فوری نہیں آتا۔ بعض لوگ ایسا کام کرتے ہیں کہ انھیں پتا ہوتا ہے کہ کل کو مجھے بڑا انسان بن جانا ہے۔ یہ لوگ فوری نتیجے کے پیچھے نہیں بھاگتے، بلکہ دیر وقتی نتائج کیلئے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ انھیں اپنے کام اور اس کے نتیجے پر یقین ہوتا ہے۔
سرمایہ کاری کیجیے
سرمایہ کاری میں ذہانت کی انتہایہ ہے کہ ہاتھ میں کچھ نہ ہو، لیکن یقین یہ ہو کہ ضرور وہ ملے گا جو میں چاہتا ہوں۔ حسرت ناک انسان ہے وہ جو آج ہی حاصل کرنا چاہ رہا ہے اور آج میں صرف دیہاڑی ملتی ہے۔ مزدور کو دیہاڑی تو مل جاتی ہے، لیکن اس میں کوئی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی۔ اس کی شخصیت میں کوئی بہتری نہیں آتی۔ اس کے اندر کوئی نئی سوچ نہیں آتی۔ اس کے اندر نیا مزاج نہیں آتا۔ پروگریسو رویہ ختم ہوجاتا ہے جو انسان کی بہت بڑی صفت ہے۔ جب یہ چیزیں کسی کے اندر نہ ہوں تو پھر وہ کولھو کے بیل کی طرح مشقت میں لگا رہتا ہے اور شام کو وہیں پہنچتا ہے جہاں سے صبح کام شروع کیا تھا۔ انسانی زندگی کا یہ بہت بڑا المیہ ہے۔
شادی کے بعد ایک اور ظلم
ایک المیہ یہ ہے کہ بیٹا کمانے کیلئے باہر گیا۔ دوسال بعد اس کی واپسی ہوئی تو شادی کردی گئی۔ ایک مہینہ اس نے بیوی اور والدین کے ساتھ گزارا، چھٹی ختم ہوئی تو ولایت کو واپس ہوا۔ شادی کے بعد سب سے بڑا ظلم یہ ہوتا ہے کہ اس کے بیوی بھی اس سے بچھڑ جاتی ہے۔ بچے ہوں تو وہ بھی اپنے باپ کی محبت اور تربیت سے محروم رہتے ہیں۔ ذرا تصور کیجیے اس خاندان کی محرومی کا کہ جہاں بوڑے والدین اپنے جوان بیٹے سے محروم، بیوی اپنے خاوند سے محروم، بچے اپنے باپ سے محروم۔ کئی برس گزارنے کے بعد جب مرد کسی کمائی کے قابل نہیں رہتا تو سفید بالوں کے ساتھ گھر واپس لوٹتا ہے۔ اب وہ بیوی کے قابل ہوتا ہے اور نہ بچوں کے۔
انسان کو یادوں سے محبت ہوتی ہے۔ جس انسان میں یادوں کی کمی ہوتی ہے یا جس کی یادیں بنی ہی نہ ہوں تو پھر وہ چاہے اپنا باپ ہی کیوں نہ ہو، اس کی کمی محسوس نہیں ہو تی ۔ بچوں کو باپ کا ساتھ چاہیے، انھیں ماں کا ساتھ چاہیے، انہیں والدین کی کمپنی چاہیے۔ یہی ساتھ یادیں بناتا ہے۔ پھر یہی یادیں محبت۔ جب محبت نہ ہوتو بوڑھا باپ گھر آئے تو گھر والے بجائے اسے ملنے کے اس کے سامان کو دیکھتے ہیں کہ ہمارے لیے کیا لایا ہے۔
ملازم کاروبار نہیں کرسکتا
بعض لوگ واپس آکر ملک میں چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرتے ہیں۔ لیکن، دیکھا یہ گیا ہے کہ زیادہ تر بری طرح ناکام ہوتے ہیں۔ پھر، شکایت کرتے ہیں کہ یہاں کاروبار کا ماحول نہیں ہے۔ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ انھوں نے زندگی کے چالیس سال مزدوری کی ہوتی ہے جس سے سوچ بھی مزدوروں والی تشکیل پاتی ہے۔ ایسے آدمی میں پیسہ سنبھالنے اور پیسے سے پیسہ بنانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ یاد رکھیے، کاروبار ایک مزاج کا نام ہے، محض پیسہ ہونا کاروبار میں کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔ چنانچہ مزدور مزاج آدمی رسک نہیں لے سکتا۔ وہ درست وقت پر، درست کاروباری فیصلے نہیں کرسکتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کا پیسہ ڈوب جاتا ہے۔ پھر کہتا ہے کہ یہاں کے لوگ ٹھیک نہیں ہیں۔
لوگ اپنی بے وقوفی سے پیسہ گنواتے ہیں، پھر لوگوں کو برا کہتے ہیں۔ حماقت میری ہو، قصور کسی اور کا؟ بڑی عجیب بات ہے۔
بے یقینی کی بہتات
یہ سارے مسائل بے اعتماد اور بے یقین انسانوں کے مسائل ہیں۔ یہ طاقت وَر اور بااعتماد انسان کے مسائل نہیں ہیں۔ طاقت وَر، پُر اعتماد، پُریقین انسان کیلئے آنا جانا مسئلہ نہیں ہے۔ اس کی لغت میں تو پردیسی کا لفظ ہی نہیں ہے۔ جو آدمی منٹوں میں اسلام آباد چلاجائے، منٹوں میں لاہور آ جائے اور منٹوں میں دبئی کا چکر لگا آئے، وہ پردیسی نہیں ہے۔ پردیسی وہ ہے جو ایک دفعہ جائے اور اسے یہ فکر لاحق ہو کہ واپس کیسے جائوں گا۔
بچوں کو شروع سے کام کرنے کی تربیت دینی چاہیے۔ انھیں کام کی عظمت بتانی چاہیے۔ ہم اسے کام کی عظمت کا مضمون تو پڑھا دیتے ہیں، لیکن اس کے دل میں کام کی عظمت پیدا نہیں کرتے۔ اسے کام کرنے کے قابل نہیں بناتے۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ اگرکوئی ابتدا میں ملازم بن کر کام کرے۔ اللہ تعالیٰ مالک بنا دے گا۔پھر مالک بن کر ملازموں کی طرح کام کیجیے تاکہ عاجزی باقی رہے۔ یہاں پر کام سے شرم آ تی ہے جبکہ باہر جا کر مالکوں کے کتے بھی نہلاتے ہیں۔ یہاں رہ کر چھوٹے کام کو بڑا نہیں کیا جاتا۔
اپنی فطرت کے مطابق اپنی قابلیت بڑھائیے
سب بچے ایک جیسے نہیں ہوسکتے، سب ڈاکٹر نہیں بن سکتے ، سب انجینئر نہیں بن سکتے، سب پائلٹ نہیں بن سکتے، لیکن ہنر ہر کوئی اپنے اندر پیدا کرسکتا ہے۔ کوئی ایسا ہنر سیکھئے جو بہ ظاہر معمولی ہی ہو، لیکن آپ کو اس میں مہارتِ تامہ حاصل ہوجائے۔ اس ہنر کو اتنا پالش کیجیے کہ پھر آپ جیسا اس ہنر میں کوئی اور نہ ہو۔ کتنا بڑا دھوکا اور عجیب بات ہے کہ اولاد والدین کے سامنے کام نہ کرے، لیکن باہر جاکر برتن دھوئے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ وہ والدین کے سامنے کام کرے اوریہیں بڑا انسان بنے۔ جیسے جیب میں سو روپے کے نوٹ سے کئی طرح کی چیزیں آسکتی ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ ہماری جیب میں زندگی ڈالتا ہے جس کے ساتھ لاکھوں مواقع جڑ ے ہوتے ہیں۔ اگر سوچ یہی رہے گی کہ انجینئریننگ کرکے صرف نوکری کرنی ہے تو پھر یہ اپنی زندگی ضائع کرنا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم نے مواقعوں کو محدود کردیا ہے۔ قابلیت بڑھانے والا فرد سسٹم کے ہاتھوں اغوا نہیں ہوتا۔ اپنی قابلیت بڑھانے والا آدمی اندر سے مضبوط ہوتا ہے۔ جو قابل ہوتا ہے، اسے اپنی نوکری چھوٹنے کی پروا نہیں ہوتی۔ اسے یقین ہوتاہے کہ مجھ میں صلاحیت ہے اور میں کام کرلوں گا۔
مزدور ہونا بری بات نہیں ہے، لیکن مزدور بن کر ترقی نہ کرنا یہ بڑا ظلم ہے۔ معروف شاعر اور ادیب احسان دانش مزدور تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کی دیواریں بناتے تھے۔ ایک وقت آیا کہ انھی دیواروں کے نیچے ان کے مشاعرے ہوئے۔ یہ ہوتی ہے، عظمت۔ اگر باہر جانا ہے تو پھر قابلیت پر جائیے۔ جسے اپنی قابلیت پر یقین نہیں ہوتا، وہ واہمہ پیدا کرلیتا ہے کہ میں باہر جاؤں گا تو کامیاب ہوں گا۔ پردیسی ہونے میں حرج نہیں ہے، لیکن اپنے آپ کوکم قیمت پر نہ بیچئے۔ جو چیز کم قیمت میں آسکتی ہے، اس کیلئے اپنے آپ کو کم قیمت میں فروخت نہ کیجیے۔ ہم ان چیزوں کے بدلے میں پیسہ کما رہے ہیں جو واپس نہیں آسکتیں۔ والدین کے ساتھ بہت تھوڑا وقت گزرتا ہے۔ جب وہ دنیا سے چلے جاتے ہیں پھر ساری زندگی کسک رہتی ہے۔ انسان کی سب سے بڑی خوش نصیبی یہ ہوتی ہے کہ جیسے انسان دنیا میں آتا ہے تو اس کے پیارے اس کے ارد گرد ہوتے ہیں، اسی طرح جب وہ دنیا سے جائے تو اس کے اپنے اس کے پاس ہوں۔
گھر کا سربراہ کہاں گیا؟