دیوار پر لگے کیلنڈر میں ایک بار پھر اگست کا مہینہ نمایاں ہے۔ اگست کا مہینہ ہماری تاریخ میں قیامِ پاکستان کے حوالے سے ایک اہم یادگار ہے۔ ہم غوروفکر کے بعض انتہائی اہم مواقع کو غل غپاڑوں میں اُڑادیتے ہیں، لیکن کسی اہم موقع کی مناسبت سے کچھ سیکھنے سکھانے سے گریزاں ہی رہتے ہیں۔ مثلاً قیامِ پاکستان کے وقت متحدہ ہندوستان کے دانش وروں میں اس نئی قائم ہونے جانے والی ریاست کے حوالے سے اس کے جغرافیے اور محلِ وقوع سے لے کر اس کی آئینی، دستوری اور کس طرز ِحکومت کو اختیار کرنے کی ضرورتوں کے علاوہ کئی ایک بحثیں جاری تھیں، جن کا مطالعہ آج تاریخ کے طالبِ علموں کے لیے غوروفکر کے بہت سے دروازے کھول دیتا ہے۔
ان میں سے ایک بحث اقتصادی نقطۂ نظر سے بھی تھی کہ اس ملک کا معاشی ڈھانچہ کیا ہوگا؟ اس کی صنعت و حرفت کن خطوط پر اُستوار ہوگی؟ اس کے وسائلِ معیشت؛ معدنیات، زیرِ زمین ذخائر اور سونے، تانبے و کوئلے کی کانوں کو کیسے مینج کیا جائے گا؟ اس پر اس وقت کی قومی سطح کی ایک شخصیت اور جمعیت علمائے ہند کے مرکزی ناظمِ عمومی مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کی رائے پاکستان کے موجودہ معاشی بحران اور خصوصاً بلوچستان کے شہر چاغی میں پائے جانے والے ریکوڈک ذخائر کے موجودہ معاملے (جو اس وقت قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں زیرِ بحث بھی ہے) کے تناظر میں انتہائی اہم اور لائقِ مطالعہ ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
’’یہ حقیقت مُسلَّم بلکہ مشاہد ہے کہ حکومتوں کی ترقی کا مدار آج کی دنیا میں صرف اقتصادیات کی برتری پر قائم ہے اور اقتصادی برتری میں جس قدر معدنیات (کانیں) اثر انداز ہیں، اس قدر اَور کوئی شئے نہیں ہے۔ ۔۔۔۔۔ پاکستان کی معاشی و اقتصادی حالت کو بہتر ثابت کرنے کے سلسلے میں بلوچستان میں معدنیات کے ذخائر کا ذکر بڑے پُرجوش اور جذباتی الفاظ میں کیا جاتا ہے۔ یہ بات بہ سر وچشم، لیکن ۔۔۔۔ اگر آپ پاکستانی حکومت کے ان پوشیدہ معدنیات کے نکالنے کے لیے پیش قدمی کریں گے ۔۔۔ تو آپ جانتے ہیں کہ ایک ایک ’’کان‘‘ کھودنے اور برآمد کرنے میں کروڑوں روپے صرف آتے ہیں۔ وہ کہاں سے آئیں گے؟ (اگر یہ کہا جائے کہ ہم بیرونی کمپنیوں کو دعوت دیں گے تو) موجودہ دور میں کسی حکومت کو مفلوج کرنے اور اس کو آہستہ آہستہ غلام بنانے کا بہترین طریقہ ہے تو یہی ہے کہ ملک اپنی اقتصادی حالت کو ترقی دینے کے لیے دوسرے ملکوں کی سرمایہ دار کمپنیوں کو دعوت دے۔ ۔۔۔۔ حجاز میں ابنِ سعود نے اٹلی اور امریکا کی کمپنیوں سے ہی اوّل معدنیات نکالنے کا کام لیا تھا، مگر اس کو بھی بہت جلد معلوم ہوگیا کہ اس کا کیا حشر ہونے والا ہے۔ ۔۔۔۔۔ کہا جاسکتا ہے (پاکستان میں) ہم سرمایہ دار کمپنیوں سے معاہدات کریں گے، جن کے بعد اس قسم کے خطرات پیدا نہ ہوں تو ایسے معاہدات تو ہر حکومت کرتی ہے، مگر نتیجہ وہی نکلتا ہے، جو مسطورِ بالا حکومتوں میں نکلا۔ اسی بنا پر آج کوئی طاقتور اور بیدار حکومت اس کو گوارا نہیں کرتی کہ اس کے ملک میں دوسرے ممالک کے سرمایہ دار اپنا روپیہ لگاکر آہستہ آہستہ اقتصادی اور معاشی غلبہ حاصل کرسکیں۔ مشینی طاقت کا یہ معاملہ خوف اور دہشت کے لیے نہیں ہے، بلکہ واقعات اور حقائق کو پیشِ نظر لانے کے لیے ہے، تاکہ مسلمان اپنی اجتماعی زندگی کے لیے جو کچھ کریں، غور و خوض کے بعد کریں۔ ۔۔۔۔ (مذکورہ بالا صورت میں اندیشہ ہے کہ) کمپنیاں (پاکستان) کے معاشی اور طبعی ذخائر پر بھی قابض ہوجائیں (یا) یورپ کے یہودی سرمایہ داروں کی طرح حکومت کے صلح وجنگ کی بالواسطہ مالک بن جائیں اور یا پھر انگریزوں ہی سے رجوع کریں کہ وہ اس معاشی اور اقتصادی گتھی کو اپنے سرمائے سے حل کرنے کے لیے ہمارے اسی طرح آقا اور حاکم بنیں رہیں جس طرح آج ہیں۔‘‘ (بحوالہ: تحریک ِپاکستان پر ایک نظر)
پہلے تو اس بوریہ نشین، لیکن نباضِ وقت عالمِ دین کی سیاسی و معاشی بصیرت کو داد دیجیے کہ انھوں نے آج سے کم وبیش پون صدی پیشتر پاکستان سمیت تیسری دنیا کے غیرترقی یافتہ ممالک کی معیشت کا جو نقشہ کھینچا ہے، آج ہُو بہ ہُو ایسا ہی ہو رہا ہے، جیسے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔ سرمایہ داری نظام کی محافظ کمپنیوں کی ذہنیت کو بھی ریکوڈک معاملے میں عالمی عدالت کے پاکستان مخالف فیصلے میں پڑھاجاسکتا ہے کہ وہ کس طرح دُہرا استحصال کرتے ہیں کہ اگر ان ذخائر سے وہ سونا اور دیگر معدنیات نکال پائیں تو 75 فیصد حصے کی مالک قرار پائیں گی۔ اگر معاہدہ منسوخ کردیا گیا تو پونے چھ ارب ڈالر جرمانے کی مد میں وصول پائیں گی۔
موجودہ حکومت نے کرپشن کی مد میں سابقہ حکمرانوں کی طرف سے لوٹی گئی جس دولت کا سراغ لگایا ہے، وہ خوش آئند ہے، لیکن جو کچھ ملٹی نیشنل کمپنیاں تجارت اور کاروبار کے نام سے اس ملک سے لوٹ کر لے جارہی ہیں، اس دولت کا حجم کرپٹ حکمرانوں کی کرپشن سے کہیں زیادہ ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شکل میں ہم ایک نئے سامراجی نوآبادیاتی دور میں زندہ ہیں، جہاں ہماری حکومتیں ان کمپنیوں کی سرمایہ کاری اور تجارت کی آزادی کے معاہدوں کے نام پر ہماری معاشی غلامی اور موت کے پروانوں پر دستخط کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں کی ادویات، اسلحے اور خوراک پر ایسی گرفت ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ کمپنیاں انسانی رزق پر قبضہ جمائے بیٹھی ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ آج یہ کمپنیاں اتنی طاقتور ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل میں پھنسے ممالک کی حکومتیں ان کے سامنے بے بس ہیں۔ یہ کمپنیاں غریب ملکوں کے تیل، گیس، توانائی اور معدنیات کے ذخائر پر قابض ہوتی چلی جارہی ہیں۔ مغربی جمہوریت میں الیکشنوں کے نتائج بھی سرمائے کی ریل پیل کے تابع ہوتے ہیں، جس کے سبب یہ کمپنیاں دنیا بھر کی حکومتوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور اپنی مرضی کی کرپٹ قیادتوں کے اقتدار کا راستہ ہموار کرکے پوری پوری حکومتیں خرید لیتی ہیں۔ تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک تو کجا، اب تو دنیا کی ترقی یافتہ ریاستیں اور حکومتیں ان کارپوریشنوں کی ایجنٹ بن کر رہ گئی ہیں۔ پاکستان میں حقیقی تبدیلی اس دن آئے گی، جس دن ان کارپوریشنوں کو دیس نکالا دیا جائے گا اور یہ بھاری پتھر وہ جماعت اٹھا سکے گی، جس کا شعوری رشتہ اس خطے کی اس باشعور قیادت سے ہوگا جس کے رہنماؤں نے نوآبادیاتی دور میں تقسیم ہوتے جغرافیاؤں میں سامراج کے عزائم کو بھانپ لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اہلِ حق کی اتباع نصیب فرمائے۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور۔ شمارہ اگست 2019ء)