افغانستان پاکستان کا ایک پڑوسی ملک ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد افغانستان کی طرف سے بوجوہ سرکاری سطح پر پاکستان کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود ان دونوں ملکوں کے آپس میں بہت ہی گہرے نسلی، تہذیبی اور دینی رشتے ہیں۔ افغانستان میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں نے ہمیشہ پاکستان کی سیاست پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ افغانستان روس امریکا سرد جنگ سے قبل بھی دوعالمی طاقتوں میں گھرا رہا ہے؛ ایک طرف برطانوی سامراج اور دوسری طرف روس کی زار شاہی تھی۔ اُنیسویں صدی میں زار شاہی اور برطانیہ جب آپس میں برسرِ پیکار تھے، تب بھی برطانوی سامراج اپنی نوآبادیاتی کالونی ہندستان میں بیٹھا ایسے دانش وروں کی تلاش میں رہتا تھا جو زار کے مقبوضہ علاقوں، یعنی وسطی ایشیا میں موجود مسلمانوں کو اس کے دشمن زار کے خلاف اُکسانے کے لیے کوئی مذہبی کردار ادا کرسکے، لیکن اس دور کے دینیات کے بے مثل عالم اور سیاست کے شناور حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ اور ان کی جماعت نے برطانوی سامراج کی ان چالوں کے خلاف بہترین قومی شعور کا ثبوت دیا۔ چناںچہ حضرت شیخ الہندؒ کی جماعت کے ایک نمایاں رہ نما مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے افغانستان میں بیٹھ کر برطانوی استعمار کے خلاف بھرپور کردار ادا کیا تھا، جس کے سبب افغانستان کوجنگِ استقلال میں کامیابی ملی تھی، جسے برطانیہ کے سفیر متعین کابل نے افغانستان کے بجائے مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی فتح قرار دیا تھا۔
بدقسمتی سے دوسرے دور میں جب روس اور امریکا افغانستان میں اپنی سرد جنگ لڑرہے تھے تو پاکستان کے مذہبی حلقے گہرے سیاسی شعور کا مظاہرہ نہ کرسکے اور بیش تر مذہبی حلقوں نے ریاستی اداروں کی سرپرستی میں اس عالمی سرد جنگ کے آگ اور خون کے خطرناک کھیل میں اپنے اپنے مفادات کے تحت برابر حصہ لیا۔ جس پر پاکستان میں موجود شیخ الہندؒ کی فکر کے امین حضرت مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوریؒ نے کھل کر تنقید کی تھی کہ عالمی طاقتوں کے سامراجی مقاصد کے لیے مذہب کے نام پر دینی جذبات رکھنے والے سادہ لوح نوجوانوں کو اس بھٹی کا ایندھن بنانا ٹھیک نہیں ہے۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ: ’’افغانستان کے حوالے سے جہاد کے نام پر جو الاؤ بھڑکایا جا رہا ہے، یہ جہاد نہیں، فساد ہے اور ایک دن اس کی تپش اس خطے کو جھلسا کر رکھ دے گی۔‘‘ لیکن جن طبقوں کی آنکھوں پر مفادات کی پٹی بندھی ہوئی تھی، انھوں نے اس تنبیہ پر کان نہ دھرے، بلکہ اُلٹا اُن پر جھوٹے فتوؤں کی بوچھاڑ کردی گئی اور بے سروپا الزامات کا طومار باندھا گیا۔
1970ء اور 80ء کی دہائی کے ہمارے قومی اخبارات کے فائل گواہ ہیں کہ کس طرح اس مسئلے کو کفر و ایمان کا معرکہ بناکر پیش کیا گیا اوراس میں ہماری مذہبی قوتیں جس طرح سے استعمال ہوئی ہیں اور انھوں نے سامراجی سیاسی مقاصد کے لیے مذہب اور جہاد کے عنوانات کو جس طرح استعمال کیا، وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ اس وقت افغانستان کی حکومت کے خلاف پاکستان کے چپے چپے پر علما سے پریس کانفرنسز کروائی گئیں، لوگوں کے مذہبی جذبات کو اُبھارا گیا، افغانستان کی حکومت کو ماسکو کی کٹھ پتلی قرار دیا گیا، اس کے خاتمے کے لیے عالمِ اسلام سے اپیلیں کی گئیں کہ اسلام کی دشمن حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے پورا عالمِ اسلام اپنا کردار ادا کرے۔ یہاں تک کہ اس جنگ کو امریکا کے وسائل میسر آگئے اور امریکا کے سب اتحادیوں نے دامے درمے قدمے سخنے اپنا کردار ادا کیا۔ افغانستان کے مذہبی لیڈر امریکا کی نظر میں اتنے معتبر ٹھہرے کہ ایک طرف وائٹ ہاؤس میں ان کا استقبال ہوتا تھا اور دوسری طرف ان کے سادہ رُقعے پر امریکی سفارت خانے میں ویزے جاری کیے جاتے تھے۔
آج ایک بار پھر افغانستان کی جہادی قوتیں جو کل تک روس کو ملحد، بے ایمان اور اسلام دشمن ثابت کررہی تھیں، وہ اسی روس کے دارالحکومت ماسکو میں موجود ان ’’ملحدین‘‘ کے دروازے پر افغانستان میں موجود حکومت کے خلاف کردار ادا کرنے اور امن قائم کرنے کے لیے دستک دے رہی ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ سعودی عرب کے شاہ سلمان تو 2017ء میں روس کے اپنے پہلے دورے میں دفاع اور تیل کے شعبوں میں کئی ارب ڈالر کے معاہدے کرچکے ہیں۔ یہ وہی سعودی عرب ہے، جو اس جہاد میں روس کے خلاف ہراول دستے کے طور پر شامل تھا۔ پاکستان میں جہادی فتوؤں کے سرخیل ’’شیخ الاسلام‘‘ اس ’’ملحد‘‘ روس کا دورہ فرماکر اس ’’بے دین‘‘ ملک کی مقتدرہ کے ساتھ مسکراتے ہوئے فوٹو سیشن کرا تے اور داد و تحسین وصول کرتے ہیں۔ یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ 1978ء میں جہادی رہنماؤں نے افغانستان حکومت کو ’’ماسکو کی کٹھ پتلی‘‘ قراردیا تھا اور آج وہ ماسکو میں بیٹھے ہوئے آج کی افغان حکومت کو ’’امریکا کی کٹھ پتلی‘‘ قرار دے کراس سے مذاکرات سے انکار کررہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ملکوں کے خارجہ تعلقات وقت کی ضرورتوں کے تحت بنتے اور بگڑتے ہیں، جغرافیائی ضرورتیں اس کی راہ ہموار کرتی ہیں، لیکن سیاست و ریاست کے معروض کو سامراجی اہداف کے تحت کفر و ایمان کے پیمانے قرار دے دینا اور فتوے بازی کا ماحول گرم کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ رویہ ہماری سیاسی روایت میں جڑ پگڑگیا ہے۔ افغانستان کی جہادی قیادت کا روس کی طرف چل کر جانا ہمیں ماضی کی تاریخ و سیاست پر نظر ڈالنے کی دعوت دے رہا ہے کہ آخر ہماری جن قوتوں نے اسے کفر و ایمان کا معرکہ قرار دیا تھا، اب ان کے پاس اپنے ماضی کا کیا جواز رہ گیا ہے؟ اور جہاد کے مقدس نام پر لوگوں سے ان کی جانوں کا خراج وصول کرنے والوں کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ہمارے دین دار حلقے مذہبی جماعتوں کی سابقہ تاریخ کے سبب ان کے جذبات گرمانے والے خطابات کے بجائے ان کی کارکردگی اور منشور کا جائزہ لیں کہ قوم کو موجودہ حالات سے نکالنے کے لیے ان کے پاس کیا نصب العین اور لائحۂ عمل ہے، جس کے تحت وہ قوم کے سیاسی اور معاشی مسائل حل کرنا چاہتی ہیں۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور۔ شمارہ جولائی 2019ء)