ہر سال رمضان المبارک کی آمد مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑا تحفہ ہے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی تربیت کے بہت سے عالی شان مقاصد کو جوڑ دیا ہے۔ اس کی آمد کے ساتھ ہی ایک سچے مسلمان کو ان عظیم الشان اَخلاق کو حاصل کرنا اپنا اوّلین مقصد بنالینا چاہیے۔ قرآن مجید ہمیں رمضان المبارک کے روزوں کی حقیقت اور فلسفہ‘ اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنا بتاتا ہے، جس سے انسان میں صبر، ضبط، تحمل، ایثار اور احتسابِ نفس کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ روزے کے بارے میں امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر کا مفہوم یہ ہے کہ: روزہ انسان کی طبیعت سے حیوانیت کے جوش اور ہیجان کو توڑ کر اسے مادی اور سفلی جذبات سے آزاد کرکے اس میں ایک نورانی جوہر پیدا کردیتا ہے، جس سے اس کی طبیعت عقل کے تابع ہوکر انسانی سعادت کو حاصل کرلیتی ہے۔
اسلام کا اگر ہم ایک انقلابی اور سماجی تحریک کے طورپر مطالعہ کریں تو اس کے فکر پر اوّلین جماعت کی تیاری کا جو ہدف اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت محمد ﷺ کو سونپا گیا تھا، اس کے پیش نظر آپؐ نے اس جماعت میں اپنے دور کی استحصالی قوتوں کا مقابلہ کرنے کی جوقوت و صلاحیت پیدا کی، اس میں رمضان اور روزے کو بہت بڑا دخل ہے۔
روزے کے فلسفے پر حضور اکرم ﷺ نے جو اجتماعیت پیدا کی، اس میں امرا کے اندر غریب لوگوں کی حالت کا عملی احساس پیدا کیا۔ شکم سیروں اور فاقہ مستوں کو ایک صف میں کھڑا کرکے مساوات کے اصول کو سوسائٹی میں ترقی دی۔ روزے کے ذریعے انسان کی مَلکی اور روحانی قوتوں کو بیدار اور حیوانی خواہشوں کو توڑ کر ظلم و استحصال کے خلاف لڑنے والی انسانوں کی ایک سیسہ پلائی دیوار کھڑی کردی، جن میں روزے کے ذریعے تقویٰ کے نتائج کے طور پر عزم و استقلال، صبر و استقامت اور اپنے جذبات کا ایثار اتنے اعلیٰ درجے پر پیدا ہوگیا کہ طاغوتی نظام کی باطل قوتیں انھیں کسی میدان میں زیر نہ کرسکیں۔ چناںچہ حق و باطل کا نمایاں فیصلہ کرنے والا معرکہ جنگِ بدر رمضان المبارک میں ہی برپا ہوا، جس میں مکہ کے طاغوتی نظام کے بڑے بڑے سرداروں کو صاف کرکے اس نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا گیا۔ ابو جہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ ابن ربیعہ، ولید بن عتبہ اور اُمیہ بن خلف ایسے سردارجو اس ابھرتی ہوئی تحریک کو کچلنے کے درپے تھے اور اسلام دشمنی میں ہمیشہ پیش پیش تھے، یہ سب انھی مقامات پر ہلاک ہوئے جن کی معجزانہ انداز میں آپ ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی۔
روزے کے ذریعے جب انسان اپنے ربّ سے ایک مضبوط تعلق پیدا کرلیتا ہے تو اب وہ خدا کے حکم کی حرمت وعزت کے سبب ہر طرح کے باطل نظام کے مقابلے میں ڈٹ جاتا ہے۔ روزے کے سبب اس کے اندر پیدا ہونے والی اَخلاقی پاکیزگی اسے ہر طرح کے مادی فائدے اور دنیاوی اغراض سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ روزے کے ذریعے سے اس کی سوچ اور نفسیاتی کیفیت کو بدل دیا جاتا ہے۔ چناںچہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ: جب کوئی شخص کسی دن روزہ رکھے تو نہ کوئی بے ہودہ لفظ زبان سے نکالے، نہ شوروشغب کرے۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں، گالی دینا اور جھگڑنا میرے شایانِ شان نہیں ہے۔
گویا روزے دار کو بڑے مقصد اور اعلیٰ نظریے کے لیے تیار کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے خول سے نکل کر بلند تر فکر کے لیے اپنے آپ کو تیار کرے۔ ذاتی اور شخصی تضادات کو اپنے مقاصد میں حائل نہ ہونے دے۔ اگر کوئی اُلجھے بھی تو اسے بھی یہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ اس طرح فضول بحث و مباحثہ اور گالم گلوچ کو اپنی بلند فکری میں رکاوٹ نہ بننے دے۔
امسال حُسنِ اتفاق سے انسانیت کا درس دینے والا رمضان المبارک اور مزدوروں کے حقوق کا علامتی مہینہ مئی اکٹھے ہی آئے ہیں، جو ہمیں اپنے فکر ونتائج کی ہم آہنگی کی طرف توجہ دلارہے ہیں۔ بہ قول ماضی قریب کے ایک دانشور (چوہدری افضل حق مرحوم): ’’روزہ اقتصادی مساوات کے قیام کے لیے تلخ حقیقت کا تجربہ ہے۔ لفظوں کی کوئی ترتیب، غریب کی تاریک زندگی کا نقشہ پیش نہیں کرسکتی۔ اس لیے روزے کا حکم دیا گیا، تاکہ ہر فارغ البال‘ فاقہ کش مزدوروں کی بدحالیوں کا ہلکا سا اندازہ لگالے، ورنہ تو مزدور کی مصیبتوں کا ذکر ہی باعثِ سردرد ہوتا ہے۔ کوئی کسی کی داستانِ درد سُن کر اپنے آرام کو کیوں حرام کرے۔ ہزار کتابیں لکھو، لاکھ فصاحت کے دریا بہاؤ، مگر غریب کی زندگی جو آہوں کی بستی ہے، اس کا پورا احساس ممکن نہیں۔ اس لیے مساوات پسند مذہب نے روزے کا حکم دے کر غریب کی زندگی کی ہلکی سی جھلک دکھاکر کہا کہ ان کا احساس کرو، جو ملک کے غلط نظام کے باعث فاقوں سے مررہے ہیں۔‘‘
آج دنیا بھر میں عالمی سرمایہ داری نظام کے تحت انسانیت ظلم و ستم کی چکی میں پِس رہی ہے۔ دنیا کے صرف 400 لوگ دنیا کی 80 فی صد دولت پر قابض ہو کر مزدوروں، کسانوں اور غربت میں مبتلا انسانوں سے رزق چھین رہے ہیں۔ مقاصد ِرمضان المبارک کے تناظر میں مزدوروں کی خوشیوں کے قاتل نظام کے بارے میں غوروفکر کرنا اس مہینے کا ضروری تقاضا بنتا ہے، جو ہر روزہ دار کا روزے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا فرض ہے، جسے اجتماعی طور پر نبھانا مسلمان اُمت پر لازمی ہے۔ ان حالات میں روزے کے فلسفے کو سامنے رکھتے ہوئے رمضان کے ماہِ مبارک میں مسلمان ایسے نظام کے خلاف مزاحمتی شعور پیدا کریں۔ رمضان المبارک اپنی روح اور فلسفے کی بنیاد پر ہمیں جماعتِ صحابہ کی طرز پر ایک ایسی اجتماعیت قائم کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے، جو اپنے ایثار، قربانی اور تنظیمی صلاحیت کی بہ دولت مزدوروں اور کمزور طبقات کے دشمن معاشی و سیاسی نظام سے نجات دہندہ کا کردار ادا کرسکے۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور۔ شمارہ مئی 2019ء)