10؍ مارچ 1872ء مولانا عبیداللہ سندھیؒ کا یومِ پیدائش ہے۔ مولانا سندھیؒ ہمارے اس خطے کے فکری سفر میں ایک اہم سنگِ میل ہیں۔ آپؒ چوبیس سالہ جلاوطنی سے 7؍ مارچ 1939ء کو ہندوستان واپس آکر تادمِ آخر 22؍ اگست 1944ء تک امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی حکمت اور ان کے اجتماعی انقلابی افکار کی اشاعت میں ہمہ تن مصروف رہے۔ ہندوستان واپس لوٹنے کے بعد مولانا سندھیؒ نے حالات کو نئے تقاضوں کے تناظر میں دیکھا اور مسلمانوں کے سیاسی زوال کو ایک حقیقت جانتے ہوئے یہاں کے طبقوں کو عقل و شعوراور سائنسی نقطۂ نظر سے سوچنے کی دعوت دی۔
ہرسال ان کے یوم پیدائش پر ان کے عقیدت مند ان کی قربانیوں کو یاد کرکے خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ کچھ سالوں سے سوشل میڈیا عام آدمی کے مافی الضمیر کے اظہار کا ایک آزاد عوامی پلیٹ فارم بن چکا ہے۔ اب میڈیا پرتاریخ کے صرف ریاستی بیانیے پر ایک مخصوص طبقے کا اصرار ممکن نہیں رہا۔ اربابِ اقتدار نے تاریخ کے باب میں تحریکِ آزادی کے حقیقی زعما سے اپنے نصاب اور تاریخ مرتب کرنے میں جو بے اعتنائی برتی تھی، آج کا نوجوان اپنے اُبھرتے ہوئے قومی شعور کے سبب اس کا ازالہ کرنا چاہتا ہے۔ چناںچہ اس سال 10؍ مارچ کو مولانا عبیداللہ سندھیؒ کو ہندوستان اور پاکستان میں شان دار خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ ان کے افکار و خدمات پر اقتباسات، وڈیو، آڈیو، مقالے، کالم اور تحریریں شائع کی گئیں۔ جیسے جیسے تاریخ کے چہرے سے گرد صاف ہورہی ہے، وقت کا دھارا مولانا سندھیؒ کے متعلق مورّخ کے کہے کو سچ ثابت کرنے کے لیے بے تاب نظر آتا ہے۔ ایک محقق اور مؤرّخ نے بہت پہلے 1944ء میں لکھا تھا:
’’آج نہیں تو کل زمانے کے تقاضے مجبور کردیں گے کہ ہم ادھر کو چلیں جس طرف کی راہ مولانا مرحوم ہمیں دکھا گئے تھے۔‘‘
آج مولانا عبیداللہ سندھیؒ کے افکار بڑی تیزی سے متجسس ذہنوں میں اپنی جگہ بنارہے ہیں۔ اس کی واحد وَجہ یہ ہے کہ انھوں نے دینِ اسلام کے مقدمے کو آج کے تقاضوں کے عین مطابق عقل مند طبقے کے سامنے پیش کرکے اس کو ان کی زبان میں مخاطب کیا ہے۔ ان کا گہرا غوروفکر اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی حکمت انسانیت کے طبعی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے دورِ حاضر کے مسائل کو حل کرتی ہے۔ لہٰذا اسے اسلام کی ترجمانی کا پورا حق حاصل ہے۔ انھوں نے دنیا میں رائج دونوں نظاموں (سرمایہ داری اور سوشلزم) کے بُرے اور مہلک اثرات و نتائج کا تریاق امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فکر میں ہی پایاتھا۔ چناںچہ وہ انھیں کے فکر سے ہی سرمایہ داری اور لامذہبیت کا رد کرتے ہوئے نظامِ عدل اور دین کی حقانیت کو ثابت کرتے ہیں۔
اس پر ان کا ایسا یقینِ راسخ تھا کہ وہ دنیا کی بین الاقوامی لیڈر شپ کے ساتھ ان موضوعات پر پُر اعتماد لہجے میں بات کرتے تھے اور مرعوب ہونے کے بجائے انھیں متأثر کرتے تھے۔ اُن کے بارے میں یہ حقیقت بالکل عیاں ہو کر سامنے آئی ہے کہ:
’’وہ روس سے نہ صرف اپنا ایمان سلامت لے آنے میں کامیاب ہوئے، بلکہ جن روسی رہنماؤں سے عرصے تک مکالمات ہوتے رہے، ان کو بھی اسلام کی برتری کے ایک حد تک قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔‘‘
موجودہ نوجوان نسل کو تاریخ کے ان حقیقی کرداروں سے کما حقہ متعارف کروانے کے لیے ہمارے محقق مؤرخین کو اس خطے کی تاریخ کھنگال کر اُسے صحیح خطوط پر مرتب کرنا چاہیے۔ کیوںکہ مولانا سندھیؒ کا زمانہ ان کی اور ان کے رفقا کی جدوجہد کی تمام سامراج مخالف سرگرمیوں کے تذکرے کا متحمل نہیں تھا۔ پھر بھی ان کی جدوجہد کے بہت بڑے حصے کو تاریخ نے محفوظ رکھا ہے اور مزید بر آں معاصر مؤرخین کے اشاروں کنایوں کے تذکروں سے آج ایک مفصل تاریخ مرتب کرکے قومی جدوجہد ِآزادی کی تاریخ کے خلا کو پُر کیا جاسکتا ہے۔
مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی طرف متوجہ نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خطے کی درست قومی تاریخ سے واقف ہوں اور مولاناؒ کے کردار کو قومی جدوجہد ِآزادی کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ مولاناؒ کی جدوجہد مربوط اور منظم تھی۔ ان کے سارے کارنامے اپنی جماعت کے نظام سے مربوط تھے۔ وہ اپنی جماعت کے قائد اور مربی حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ کے حکم سے کابل گئے۔ ان کی بین الاقوامی سرگرمیاں اپنے جماعتی نظام سے منسلک رہیں۔ وہ ہندوستان سے باہر جہاں بھی گئے، اپنے آپ کو اپنی جماعت کے فرد کے طور پرمتعارف کرواتے رہے اور اپنی کامیابیوں کو بھی جماعت ہی کی مرہونِ منت قرار دیتے رہے۔ ان کا فکر اجتماعیت کا داعی ہے۔ وہ انتشار کو قومی اور جماعتی وجود کے لیے زہرِ قاتل قرار دیتے ہیں۔
اب ہمارے اربابِ فکرودانش کو مولانا سندھیؒ کے سجھائے ہوئے راستے کی طرف بڑی سنجیدگی سے متوجہ ہونے کی ضرورت ہے، تاکہ قوم کو موجودہ فکری و نظریاتی بحران سے نکالا جا سکے۔ اب ہم مزید قومی ذہن کے انتشار کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ مولانا سندھیؒ بلا کسی امتیاز کے آج کے نوجوان کے آئیڈل ہیں، کیوںکہ وہ ہمارے ہاں موجود فرقہ وارانہ دائروں سے بلند ہوکر خالص اجتماعی نقطہ نظر سے سوچتے ہیں۔ ان کی یہی وسعتِ نظری اور روادارانہ سوچ نوجوانوں کو پسند ہے۔
مولانا سندھیؒ نے مسلمانوں کے زوال کی وَجہ نااہل حکمران طبقوں کو قرار دیتے ہوئے اہلیت کی حامل نوجوان اجتماعیت قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ چناںچہ وسائل کی کمی اور بے سروسامانی کے باوجود مولاناؒ کی قومی جدوجہد میں استقامت، عزم، حوصلہ اور اُمید ہماری نئی نسل کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ جہاں ان کا فکر ہمیں مادہ پرستی، جمود، الحاد اور سرمایہ پرستی سے بچاتا ہے تو ان کا کرداروعمل ہمارے اندر عزم، حوصلہ، امید اورنئے ولولوں کو جنم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کے فکر سے ہمارے لیے ایک نئی سحر طلوع کردے۔
(ماہنامہ رحیمیہ لاہور، اپریل 2019ء