حکومت اور اپوزیشن میں موجود لیڈروں کے میڈیا میں روزانہ دیے جانے والے بیانات الفاظ کے تقدس اور مفہوم کو مجروح کرتے اور بے روح اور کھوکھلے ہوتے ہیں۔ ان کا عملی نتائج اور حقائق کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس سچائی کو آپ آج کی متحدہ اپوزیشن اور حکومت کے بیانات کے آئینے میں بہ خوبی دیکھ سکتے ہیں، جو روزانہ ہمارے قومی اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ یہ کوئی اس دور کا ہی خاص معاملہ نہیں ہے، بلکہ تاریخ کا جھروکا ہمارے سامنے ہمارے حکمرانوں طبقوں کے بیانات کی قلعی کھولتا ہے۔
ہندوستان کی فنانس منسٹری میں سکریٹری براج کمار نہرو (1909-2001ء) پاکستان میں اپنے ہم منصب چودھری محمدعلی (1905 – 1980ء) کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان مالی معاملات طے کرنے کے لیے 1948ء میں کراچی آئے۔ وہ اپنے قیامِ کراچی میں مسلم لیگ کا نمائندہ اخبار ’’ڈان‘‘ پڑھتے تھے۔ اس میں اکثر اس قسم کی خبریں چھپتی تھیں کہ: ’’ہندوستان میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جارہا ہے۔ وہاں مسلمانوں اور اسلام دونوں کا وجود خطرے میں ہے۔‘‘مسٹر بی کے نہرو نے چودھری محمدعلی سے کہا کہ ’’تمھارے اخبارات روزانہ جھوٹی خبریں چھاپتے ہیں اور تم ان کے جھوٹ پر کوئی ایکشن نہیں لیتے۔‘‘ چودھری محمدعلی نے کہا: ’’مسٹر نہرو! یہ ہماری قومی ضرورت ہے۔ ہمیں اس نازک وقت میں ایک خارجی دشمن کی ضرورت ہے جوہمیں متحد رکھ سکے۔‘‘ بی کے نہرو نے کہا کہ: ’’پھر تم جھوٹ کب تک چلاؤ گے؟‘‘ چودھری محمدعلی نے کہا: ’’صرف پانچ سال تک، اس کے بعد اس کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔‘‘
اسی طرح 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو اور ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان ’’شملہ معاہدہ‘‘ ہوا، جس میں دونوں ملکوں نے تصادم اور مخالفت کی روش کو ترک کرکے برصغیر میں پائیدار امن کے قیام کے لیے دوستی اور رواداری کے جذبے سے کام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اسی اثنا میں اندرا گاندھی نے بھٹو سے کہا کہ: آپ تو اپنی قوم کے سامنے ایک ہزار سال تک لڑنے کے بیانات دیتے رہے ہیں، اس کا کیا ہوگا؟ تو بھٹو نے کہا کہ: ’’آپ جانتی ہیں ایسے بیانات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ایسے بیان محض عوام کوخوش کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔‘‘
ان دو تاریخی واقعات سے ہماری نام نہاد قیادت کی ذہنیت کو سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں رہتا۔ ہماری قومی تاریخ میں ڈھونڈنے سے ایسی سینکڑوں مثالیں مل جائیں گی، جن میں ہماری نام نہاد لیڈر شپ کا عوام سے تعلق محض دھوکے اور فریب کا رہا ہے۔ وہ اپنے مفادات اور ضرورتوں کے لیے عوام کے جذبات سے کھیلتے اور مذہب، سیاست اور قومی عصبیت پرمبنی خواب دکھاتے رہتے ہیں۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور۔ شمارہ مارچ 2019ء)