یہ ایک بہت ہی سادہ سی حقیقت ہے کہ کسی بھی معاشرے میں بُرائی یا جرم پر کسی اجتماعیت کے قیام کی دعوت نہیں دی جاتی، یعنی اگر کوئی شخص معاشرے میں قتل وغارت، زنا، چوری، ڈاکے یا جھوٹ پرلوگوں کو دعوت دے کہ آؤ ہمارے ساتھ مل کر قومی سطح کی ایک مضبوط جماعت بناؤ، تاکہ اجتماعی طور پر ہم معاشرے میں مذکورہ بالا جرائم کو اختیار کریں تو اسے قطعاً اور ہرگز کامیابی نہیں ملے گی۔ نہ ہی آج تک دنیا کے کسی خطے میں انسانوں نے مل کر کوئی ایسی بات یا قرارداد پاس کروائی ہے کہ ہم مل کر جھوٹ بولیں گے، یا کسی کو ناحق قتل کریں گے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پیشہ ور ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ لوگوں کے گروہ کبھی بھی چند سو افراد سے تجاوز نہیں کرسکے۔ ایسا کیوں نہیں ہوسکا؟ اس لیے کہ انسانیت کی اجتماعی فطرت اس کو قبول نہیں کرسکتی۔ وہ عدل، سچائی، بھلائی، عبادت، طہارت کے اجتماعی نظریے پر تو اجتماعیت قائم کرسکتے ہیں، لیکن گناہ، ظلم، جھوٹ کے انفرادی نظریے پر کسی اجتماعیت کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔
دراصل ہوتا یوں ہے کہ جب معاشرے زوال پذیر ہوجاتے ہیں، فکری اور شعوری انحطاط عام ہوجاتا ہے توچالاک اورچابک دست لوگ نیکی و بھلائی پر قائم جماعتوں میں جاگھستے ہیں اور انھیں اپنے ڈھنگ پر لے آتے ہیں، یا پھر اپنا گروہ بنانے کے لیے آزادی، جمہوریت اور عدل کے نام پر سادہ لوح لوگوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور پھر جب وہ لیڈر پبلک میں آ تے ہیں تو خدمت، بے غرضی، بے نفسی، جرأت، سچائی اور نیکی کی باتیں کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہ چوروں اور ڈاکوؤں کا گروہ ہوتا ہے، لیکن نیکی، بے نفسی اور خدمت کے سلوگن کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے طاقت و قوت حاصل کرنے کے بعد برائی اور جرائم کے وہ سارے کام کیے جاتے ہیں، جن کا نام لے کر وہ اپنا گروہ یا جماعت نہیں بناسکتے تھے۔ پھر وہ اپنے گروہ کو مضبوط کرنے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ رفاہِ عام کے نام پراداروں کے ذریعے کرپشن اور مریضوں کے لیے خریدی گئی ایمبولینس میں اسلحہ تک بھی منتقل کیا جاتا ہے۔ نظریے اور حق کے نام پر لوگ قتل بھی کیے جاتے ہیں۔ گویا خدمت اور سیاست کے نام پر ہرقسم کے جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ پست فطرت افراد نے مذہب، خدا، ملک، نسل، نیکی اور تقدس کے نام پر بے شمار انسانوں کو قتل کروایا۔
ہمارے ملک میں جمہوریت، خدمتِ خلق کے نام پرقائم بعض سیاسی جماعتوں کے افراد کی کرپشن، بدعنوانی اور جرائم کی سرپرستی کے حوالے سے جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں، ان جرائم کوسرانجام دینے میں ان کی ذہانت، ٹیکنیکس اور چابک دستی کے سامنے دنیا کے معروف منفی کرداروں جیسے بنارسی ٹھگ، ڈان اور گارڈفادر کی عقلیں بھی شرمندہ نظر آتی ہیں۔ سچائی، عدل، خدمت اور ہمدردی پر نہ صرف ملکوں کی سطح پر ’’مافیاز‘‘ قومی جماعتوں کے نام سے پائے جاتے ہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح کے استحصالی ادارے اقوامِ متحدہ سے لے کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک تک بھی اسی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے نیکی اور خوش حالی کے نام پر بدی اور استحصال کا محور بنے ہوئے ہیں۔ آج اس آزمائش پر ایسی قومی جمہوری جماعت ہی پورا اُتر سکتی ہے، جو دعوے اور عمل کے تضاد سے پاک ہو۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور۔ شمارہ مارچ 2019ء)