جنگ نہیں لڑیں گے !کیونکہ اس کے ملبے تلے نغمے، روحیں اور چاند چہرے دب جاتے ہیں. حاکم جنگ کے مونہہ میں انسانی لاشوں کے تر نوالے دےکر مذاکرات کی میز تک پہنچتے ہیں. قبروں کے شکم مرمریں پیکروں سے بھرے جاتے ہیں.
جی ہاں ! جنگوں میں روشنیاں روٹھ کر دبے پاؤں نکل جاتی ہیں اور اندھیرے بھوک وافلاس کی ساری حشر سامانیوں کے ساتھ آ ڈیرے جما تے ہیں. جنگ عقلوں کے میناروں کو مسمارکردیتی ہے، دماغوں کے پھولوں کو کچل دیتی ہے، دلوں کی بستیوں کو اجاڑتی اور روحوں کو نگل جاتی ہے.
اسی جنگ ہی کا انجام ہوتا ہے کہ انسانی آبادیوں سے دھوئیں کے بادل اٹھتے ہیں، اس کے کھنڈرات پر زندگی رینگتی اور موت دوڑتی ہے. یہاں زندگی سہمے گھڑی ہوتی ہے اور موت رقص کرتی ہے، ملاں،پیر، ادیب حکمران اور سیاست دان موت کی ترغیب اور جواز کی دلیلیں، دستاویزات اور حوالے پیش کرتے ہیں اور زندگی موت کے جنگل کنارے کھڑی ہاتھ پھیلائے دانشوروں سے جینے کی کسی ایک دلیل اورحوالے کا سوال کرتی ہے لیکن مایوس اور نامراد قبرستانوں کی اندھیر بستی کی طرف لوٹ جاتی ہے. لیکن اسی جنگ زدہ معاشرے میں صحرا میں کھلے تنہا پھول کی مانند کوئی عالم،مفکر ،شاعر موت کے دریا میں ڈوبتی زندگی کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کرتا ہے تو بزدل اور غدار کہلاتا ہے کیونکہ جنگوں میں امن کا ادب نہیں پڑھا جاتا ہے بلکہ ریاست اسی ادب کو پر موٹ کررہی ہوتی ہے جو اسے بہادر فوجی اور سپاہی مہیا کرے.
جی ہاں جنگ اسے ہی تو کہتے ہیں جہاں زندگیاں سستی پھول اور کفن مہنگے ہوتے ہیں. جہاں قبرستان آباد اور بستیاں برباد ہوتی ہیں. جہاں بوڑھے زیادہ اور جواں کم ہوتے جاتے ہیں. جہاں مائیں بچے جنتے خوشی کے بجائے خوف محسوس کرتی ہیں. جہاں بوڑھے کندھوں پر جوان لاشے ہوتے ہیں. جہاں کپکپاتے ہاتھ جوان جسموں کو لحد میں اتارتے ہیں. جہاں زندگی کے پر سوز نغموں کے بجائے موت کے غموں سے لبریز بین سنائی دیتے ہیں. جہاں ملاقاتیں شادیوں کے بجائے جنازوں پہ ہوتی ہیں. جہاں لوگ مبارکبادوں کی جگہ تغزیت کے لیے لفظ ڈھونڈتے ہیں اور جہاں شاعر شادیوں کے شگن نہیں بلکہ موت کے مرثیے لکھتے ہیں .
جنگ زدہ ملکوں کی مائیں روتے بلکتے بھوکے بچوں کے پیٹ اپنی عزتوں کو نیلام کرکے بھرتی ہیں. یہاں روٹی مہنگی اور ناموس سستی ہوتی ہے.
متحارب ملکوں کے تعلیمی ادارے متوازن، معتدل اور روادار ذہنوں کے بجائے جنونیوں، شدت پسندوں اور جنگجو مزاجوں کی تخلیق گاہیں بن جاتی ہیں. جہاں کے تعلیم یافتہ شاعر جنگوں کے رزمیے لکھتے اور سائنسدان ایٹم بم بناتے ہیں. ان معاشروں کے بچے کتابوں، حروف تہجی کے بلاکوں کے بجائے کھلونا پستولوں سے کھیلتے ہیں.
دونوں سرحدوں کے پار محاذ سے واپس آتے فوجیوں کا استقبال خاندان والےپھولوں کے ہاروں سے نہیں بلکہ کفنوں اور ارتھیوں کے سازوسامان سے کرتے ہیں . جنگوں کی آ گ میں کودنے والے ملکوں کے بجٹ تعلیم، صحت اور خوشحالی کے بجائے جنگ، بارود،گولوں اور توپوں کے ذخیروں کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں.
جنگ زدہ معاشروں میں امن، ادب، تعلیم اور کتابوں کی صنعتیں دم توڑ دیتی ہیں اوران سے وابستہ طبقے غریب، پسماندہ اور معاشی بدحالی کا شکار ہو کر تباہ ہو جاتے ہیں جبکہ جنگ، وحشت، موت، قبروں، کفنوں اور ہتھیاروں سے وابستہ صنعتیں پھلتی پھولتی اور ان سے وابستہ طبقے خوشحال اور امیر ہوکر سوسائٹی کے آئیڈیل بن جاتے ہیں.
سوچو اور غور کرو اگر ہم اپنی نئی نسل کو سو فیصد تعلیم یافتہ ، خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان نہیں دے سکے تو جنگ میں سلگتا ،دہکتاپاکستان ان کی ہتھیلی پر کیوں رکھیں.
http://darulshaour.com/product/islami-jangain-by-rafiq-anjum/