ہمارے ملک میں گزشتہ مہینے کے بیتے واقعات نے ایک بار پھر ہمارے سیاسی نظام، پارٹیوں اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کے چہروں سے نقاب کو سِرکا دیا ہے۔ وہ لوگ جو اسی نظام میں رہتے ہوئے عوام کو کسی بڑی تبدیلی یا نئے پاکستان کا خواب دکھاتے آئے ہیں، ایک بار پھر اُن کے دعوؤں کی بھی قلعی کھل گئی ہے۔ اس سارے سیاسی کھیل میں ہر دو طرف کے رویوں نے قوم کے لیے حسبِ سابق سوائے مایوسی کے کچھ نہیں چھوڑا۔ ووٹ کے لیے عزت مانگنے والوں نے ووٹ کو قابلِ خرید جنس قرار دے کر جس طرح سے اس کی مٹی پلید کی ہے، وہ بھی ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے۔ دوسری طرف قوم کی امانت فروخت کرکے اپنی تجوریاں بھرنے والوں نے بھی کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ نچلی سطح کے انتخابات سے لے کر ایوانِ بالا تک اس نظامِ انتخاب میں جو ووٹ کی بے توقیری ہوتی ہے، اس نے اس نظامِ انتخاب کی حقیقت کو واضح کردیا ہے۔
اپنے اپنے دھڑوں کی کامیابی کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات سے ہماری سیاست پر قابض چغادری سیاست دانوں کے قول و فعل کے تضادات سے ان کی اَخلاقی پوزیشن بھی قوم کے سامنے طشت از بام ہوچکی ہے۔ ہمارے ملک کی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان ابھی غلامی کے عہد کے طرز ِسیاست سے باہر نہیں نکل سکے۔ ان کے سیاسی رویے آزاد قوموں کے سے نہیں ہیں۔ وہ غلامی کی طرز ِسیاست ہی کواپنے لیے موزوں سمجھتے ہیں، جس کے ذریعے ان کے ذاتی اور خاندانی مفادات کا حصول اور اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کا راستہ ہموار ہوتا رہتا ہے۔اس نظام کی عیاری اور فسوں کاری کو سمجھنے کے لیے گزشتہ ماہ کے گزرے چند واقعات پر طائرانہ نظر ڈالنا ضروری ہے۔
اسلام آباد سے سینیٹ کی جنرل نشست پر پی ڈی ایم کے یوسف رضا گیلانی حکومت کے امیدوار اور وزیرِ اعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ سے 5 ووٹوں کی برتری سے جب جیت گئے تو وزیر اعظم نے کہا کہ ’’سینیٹ الیکشن میں پیسہ چلا ہے‘‘۔ کیوںکہ الیکشن سے چند دن پہلے ہی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی، جس میں کامیاب امیدوار کے بیٹے مبینہ طور پر حکومتی ارکان کو ووٹ منسوخ کروانے کا طریقہ بتا رہے تھے۔ حکمران پارٹی نے اعلان کیا تھا کہ وہ کامیاب ہونے والے امیدوار کے خلاف الیکشن کمیشن میں جائے گی، تاہم دوسری جانب اپوزیشن کی طرف سے اپنے کامیاب امیدوار کو چیئرمین سینیٹ کے لیے نامزد کر دیا گیا۔
وزیراعظم نے اپنے امیدوار کی شکست پر قوم سے خطاب کیا اور کہا کہ ایک شخص رشوت دے کر سینیٹر بن رہا ہے اور ارکانِ اسمبلی اپنے ضمیر بیچ رہے ہیں، تو یہ کیسی جمہوریت ہے۔ الیکشن کمیشن کے بارے میں کہا کہ اس ادارے نے ملک کی جمہوریت اور اَخلاقیات کو نقصان پہنچایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ آج پتہ لگانا چاہتے ہیں کہ ہمارے کون لوگ بکے ہیں، لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے بیلٹ پیپر ناقابلِ شناخت رکھنے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوسکتا۔ ایک دوسرے موقع پر انھوں نے کہا کہ :اگر یہ اچھا الیکشن ہوا تو پھر برا کیا ہوتا ہے؟ سینیٹ الیکشن سے قبل ’بکرا منڈی‘ کی سی صورتِ حال تھی، جس پر وہ ’شرم‘ محسوس کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے سینٹ کے چیئرمین کا انتخاب ہونے سے قبل اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ پھر ان کا امیدوار سینٹ کا چیئرمین بھی منتخب ہوگیا۔ اب دوسری طرف کے فریق کا ردِعمل قابل ملاحظہ تھا۔ اب وہ کہہ رہے تھے کہ ہم اس الیکشن کو عدالت میں چیلنج کریں گے اور حکومت کی خوشیاں دیدنی تھیں۔ اب وزیراعظم اور حکومتی ارکان الیکشن کمیشن سے سارے گلے شکوے بھول کرمبارک بادیں وصول کررہے تھے۔ یہ کیا معیارات ہیں؟
وہ لوگ جو سینٹ کی ایک نشست جیت کر قوم کو آخری فتح کی نوید سنا رہے تھے، اب وہ کہاں ہیں؟ سال بھر آسمان سرپر اٹھائے رکھنے والی وہ نیم سیاسی اور مذہبی جماعت کے دعوے کیا ہوئے؟ بلکہ یہ سینٹ الیکشن مکمل ہونے پرسب جاکر چین کی نیند سورہے ہیں۔ پی ڈی ایم کے بیانیے کا دھڑن تختہ ہوچکا ہے۔ حلیف پارٹیاں ایک دوسرے کی حریف بن کر آمنے سامنے اسی پرانی روش پر آچکی ہیں، بلکہ ایک قدم اور آگے اپوزیشن پارٹیوں کو اکٹھا کرنے والی مذہبی سیاسی جماعت اپنی ہی پارٹی توڑ بیٹھی ہے۔ ان سے ایک بہت بڑا حصہ الگ ہوکر اپنے بیانیے کے ساتھ میدان میں ہے۔ لیکن یہ صاحب بچی کھچی جماعت کو لے کر کرپشن میں ملوث خاندانوں کے دفاع میں آج بھی حسب ِسابق مصروف اور مُصِر ہیں۔ کیسی حیرانی کی بات ہے کہ اسلام کی دعوے دار پارٹی نیب دفتر کے باہر ملزم خاتون کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے اپنے کارکنوں کو پابند کر رہی ہے۔
ہم ان صفحات میں کئی بار عرض کرچکے ہیں کہ یہ پارٹیاں اسی نظام کی فورسز ہیں۔ وہ وقت گزاری کے لیے عوام کو مصروف رکھتی ہیں۔ نتیجہ وہی ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ ہی رہتا ہے۔ نظام اپنے مہروں کو حسبِ ضرورت اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے اور بس! یہ سیاسی نظام ایک ایسی صلیب ہے، جسے اس ملک کے سیاست دان اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ جب چاہتے ہیں قوم کے مفاد کو مصلوب کردیتے ہیں۔ ہمارے سیاست دانوں نے انقلاباتِ زمانہ سے نہ سبق سیکھا ہے، نہ سیکھنے کو تیار ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جن معاشروں پر ایسے سیاست دان آکاس بیل کی طرح مسلط ہوجاتے ہیں، وہاں قومیں ایسے کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف سینہ سپر ہو کر نظام کی بساط ہی کو لپیٹ دیتی ہیں۔ کیوںکہ ایسے حالات میں انقلاب کی کونپل ان کے قدموں کے نیچے سے ہی پھوٹنا شروع ہو جاتی ہے اور بڑے بڑے طاقت ور حکمرانوں کا اقتدار عوام کے قدموں کے نیچے کچلا جاتا ہے۔ اور عوام اپنے خلاف جمع شدہ استحصال کے سارے وسائل کو جابر و ظالم نظاموں سے نجات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ شاعر سے معذرت کے ساتھ اس صورتِ حال کو تھوڑے تصرف کے ساتھ بہ زبانِ قوم یوں کہا جاسکتا ہے: ؎
جھوٹ تم نے بولا ہے ، مصلوب تم ہی کو ہونا ہے
اپنے کاندھے پہ صلیب اپنی اُٹھائے رکھو!
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ اپریل 2021ء)