گزشتہ دنوں 14؍ اپریل 2021ء کواچانک پورا ملک پُرتشدد مظاہروں اور احتجاجی دھرنوں کی لپیٹ میں آگیا، جس کے باعث ملک کی اہم شاہراہوں پر رُکاوٹیں کھڑی کردی گئیں۔ جس سے ملک کے مختلف حصوں میں ٹریفک جام ہوگئی۔ کئی شہروں میں آمد و رفت مفلوج اور ایمبولینسز تک کی نقل وحرکت جامد ہوکر رہ گئی۔ سفرکے دوران بے چارے عوام پریشانی کا شکار ہوئے۔ سڑکوں پر بسوں میں خواتین، بچے اور بوڑھے محصور ہو کر بھوک، پیاس اور ذہنی اذیت کا شکار ہونے لگے۔ مزید برآں راستے بند ہونے سے ہسپتالوں کو آکسیجن سلنڈرز، ادویات کی سپلائی میں مشکلات پیدا ہوگئیں اور مختلف امراض میں مبتلا مریض جانی خطرات میں گھر گئے۔ گویا پورا نظامِ زندگی درہم برہم ہوکر رہ گیا۔ یہ سارا ہنگامہ ایک مذہبی پارٹی کے نوخیز لیڈر کی گرفتاری کے بعد ہوا۔
یاد رہے کہ یہ پارٹی 2017ء میں ختمِ نبوت کے بِل کے معاملے پراس وقت کے وزیرِ قانون کا استعفیٰ طلب کرنے کے نام پر ملک کے چوکوں، چوراہوں کی زینت بنی۔ ملک میں اس وقت کے مخصوص سیاسی حالات کے تناظر میں بعض سیاسی قوتوں اور اداروں کی درپردہ حمایت بھی اس کو حاصل تھی۔ ان دنوں اس کے ڈنڈہ بردار حمایتیوں نے اسلام آباد کی جانب مارچ کر کے وفاقی دارالحکومت کو تین ہفتوں تک بند کیے رکھا۔ بعد ازاں مذاکرات کے نتیجے میں دھرنا ختم کردیا گیا تھا۔
پھر 2018ء کے انتخابات میں اس جماعت کو سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن کمیشن نے رجسٹر کرلیا اور انتخابات میں پورے ملک میں ایک سیاسی قوت کے طور پر اسے متعارف کروایا گیا۔ اس موقع پر ملک کے سیاسی حلقوں میں ایک بحث چلی تھی کہ ایک خاص فرقہ وارانہ پسِ منظر رکھنے والی جماعت کا ایک سیاسی جماعت کے رُوپ میں الیکشن کمیشن جیسے ادارے میں رجسٹرڈ ہونا مستقبل کے لیے ایک خطرے کی علامت ہے۔ ایسی قوت کو کسی بھی وقت ملک کے امن کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، حتیٰ کہ اس وقت کی وزارتِ داخلہ نے ایک درخواست کی شکل میں الیکشن کمیشن کے سامنے اپنے تحفظات کا اظہاربھی کیا تھا کہ اسے رجسٹر نہ کیا جائے، لیکن الیکشن کمیشن نے وزارتِ داخلہ کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
موجودہ حالات اور یہ پسِ منظراپنے تناظر میں ہمیں غور و فکر کا بہت سارا سامان فراہم کرتا ہے کہ ہم ملک میں جاری پُرتشدد مظاہروں اور نقضِ امن کی ان کارروائیوں کے پیچھے موجود حقائق و واقعات کو جان سکیں۔ چشم کشا حقائق ہیں کہ 2017ء میں اس جماعت کی پیٹھ ٹھوکنے والی آج کی حکمران جماعت انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت اس پر پابندی لگا چکی ہے، جب کہ ڈوبتی نبض کے ساتھ حکومت مخالف اتحاد پی ڈی ایم کے مولانا بھی بول پڑے کہ اس شدت پسند ’’جتھے‘‘ کی ہر صورت حمایت کریں گے، حال آں کہ 2017ء میں ان کا اور ان کی اتحادی حکومت کا مؤقف یہ تھا کہ اس شدت پسند جماعت کو حکومت گرانے کے لیے بعض قوتیں اپوزیشن کے ساتھ مل کر استعمال کررہی ہیں۔
یہ قابلِ غور موڑ ہے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ان وقتی جماعتوں کا ایجنڈا کیا ہوتا ہے؟
ان کے نعرے کہاں تیار ہوتے ہیں؟
اور ان مقدس نعروں کے پیچھے خوف ناک عزائم کو کیسے عملی جامہ پہنایا جاتا ہے؟
لگتا ہے ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی۔ یہ ایک قوت پیدا کرلی گئی ہے۔ اب اس قوت کو مختلف اوقات میں ضرورت کے مطابق کچھ عرصے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ خصوصاً آئندہ آنے والے انتخابات میں ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ اس سے قبل ’’جہاد‘‘ کے نام پر ایک قوت کو تین دہائیوں تک استعمال کیا گیا اور پھر دہشت گرد قرار دے کر اُس کے پَر کاٹ دیے گئے۔
پاکستانی تاریخ میں مذہبی قوتوں سے فرقہ واریت کی ایک خاص شکل کو کشید کیا جاتا ہے۔ اسے عوام میں مقبول بنایا جاتا ہے۔ ایک خاص انداز سے اسے قومی منظر نامے پر نمودار کرکے ایک عرصے کے لیے اس کی نشوونما کی جاتی ہے۔ پھر اسے میدان میں اُتار دیا جاتا ہے۔ ہمارا نظام متضاد قوتوں کا مجموعہ ہے۔ ان قوتوں کی آپسی لڑائی میں یہی تیار شدہ عناصر مذہب، عقیدے، نسل اور قومیت کے نام پر اس جنگ کا ایندھن اور چارہ بنائے جاتے ہیں۔
یہی وہ بات ہے، جسے باشعور حلقے گزشتہ ساٹھ ستر سال سے نوجوان نسل کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ سرمایہ داری کی نمائندہ اورانسان دشمن قوتیں پاکستان میں مذہب اور اہلِ مذہب کو آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں۔ حضرت مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوری نور اللہ مرقدہٗ سے ان کے ایک بے تکلف قانون دان اور وکیل دوست نے پوچھا کہ: حضرت! آپ گاہ بہ گاہ پاکستان میں اُٹھنے والی تحریکوں پر نوجوانوں کے سامنے تنقید کرتے اور ایک خاص اینگل سے ان کے نتائج پر بحث و مباحثے کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔ آپ کے اس کام کے دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں کیا نتائج ہیں؟ اور ہم اس تناظر میں آپ سے سوال کرسکتے ہیں کہ آپ نے اب تک پاکستان میں کیا کام کیا ہے؟
حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے مختصراً جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ:
’’میرا کام یہ ہے کہ میں نے اس ملک اور قوم کے نوجوانوں کو قتل ہونے سے بچایا ہے‘‘!
پھر قدرے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
’’جب آپ کے ادارے، مذہبی و سیاسی جماعتیں اور حکومت یہاں کے نوجوانوں کو اَفغان جنگ کی بھٹی میں اسلام کے نام پر ایندھن بناکر جھونک رہے تھے، اس وقت مَیں اور میرے ساتھی نوجوانوں کو بین الاقوامی سیاست سمجھا کر قتل ہونے سے بچارہے تھے‘‘!
ہماری پاکستان کے منظر نامے پر موجود ایسی قوتوں سے بھی گزارش ہے کہ اب انھیں اس خوف ناک کھیل کو ترک کر دینا چاہیے۔ قوم میں نیچرل طریقے سے قومی اور جمہوری تصورات پر مبنی نظریات کو پنپنے کا راستہ دینا چاہیے۔ ورنہ بالآخر مذہبی بنیادوں پر یہ فرقہ وارانہ چنگاریاں ہمارے خرمن کو جلاکر خاکستر کردیں گی۔
سیاسی و مذہبی جماعتیں بھی جان لیں کہ لیڈرشپ جذباتی تقریریں، جلسے جلوس اور دھرنے دینے کا نام نہیں ہوتا۔ حقیقی لیڈر شپ اپنے پیروکاروں میں ایک عظیم مقصد کی تکمیل کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ ایسی لیڈر شپ کی طاقت بندوقیں، اسلحہ اور جلاؤ گھیراؤ کی ڈنڈا بازی نہیں ہوتی، بلکہ انسان دوست سچا نظریہ اور قوم کا اعتماد ہوتا ہے۔ لہٰذا اِن جماعتوں کو چلتے پھرتے خودکش بمبار اور مرنے مارنے والے جنونی پیدا کرنے کے بجائے اپنے کارکنوں کی شعوری تربیت کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
[اداریہ ماہنامہ “رحیمیہ” لاہور، شمارہ مئی 2021ء]