اس وقت مسلم دُنیا غم و غصے کی ایک خاص کیفیت سے دوچار ہے۔ اس کی وجہ فلسطین میں اسرائیل کی غیر انسانی اور وحشیانہ کارروائیاں ہیں۔ فلسطین میں قریب ایک صدی سے مقامی فلسطینی باشندوں سے روا رکھا جانے والا سلوک واقعی غیر انسانی ہے۔ اس پر ہرقوم اور ملت کے دردِ دل رکھنے والے انسان دُکھی اور پریشان ہیں۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ یہ مسئلہ برطانوی استعمار کا پیدا کردہ ہے، مگر اس وقت ہمارے پیشِ نظر فلسطین سمیت دنیا بھر میں موجود مسلمان قیادتوں کو درپیش بحرانوں اور چیلنجز کی چند وجوہات اور اسباب ہیں، جنھیں چنداں اہمیت نہیں دی جاتی، بلکہ ان اسباب کو باربار دُہرایا جاتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ یمن، فلسطین، افغانستان، عراق اور لیبیا سمیت مسلم جغرافیے کے مختلف خطے آگ و خون کے دریا سے گزررہے ہیں، جب کہ مجموعی طور پر مسلم دُنیا اپنے اپنے ملکوں میں اندرونی طور پر مختلف سماجی اور معاشرتی بحرانوں کا شکار ہے۔
اس صورتِ حال پر جذباتی ہو کر کسی ملک اور قوم کے خلاف محض جذباتی نعرے لگا لینا یا انھیں اپنے مسائل کا ذمہ دار قرار دے کر عصری تقاضوں اور اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہ کرنا‘ مسائل کی تفہیم اور درپیش چیلنجز کا حل تلاش کرنے میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہے۔ اب ہمیں مسلم معاشروں کی جڑیں کھوکھلی کردینے والے حقیقی اسباب و علل پر بڑی سنجیدگی سے غور وفکر کی ضرورت ہے، تاکہ ان اسباب کے سد ِباب کے لیے قوم و ملت کو کوئی لائحۂ عمل دیا جاسکے۔
ہماری دانست میں مسلم معاشروں کا پہلا چیلنج اور بحران ایک خاص قسم کے ردِعمل کا شکار ہوکر شدت پسندی کی راہ پر چل نکلنا ہے۔ ان کی قیادتوں نے اس تشدد کو ایک عرصے سے جہاد کا نام دے رکھا ہے۔ مذہبی قیادتوں نے معمولی معاوضے پر ریاستوں کو اس کے حق میں مذہبی دلائل فراہم کیے ہیں۔ ریاستوں اور دانش وروں کے باہمی اشتراک نے عوام کو اس ’’جہاد‘‘ کے ذریعے اسلام کے عالمی غلبے کا خواب دکھا رکھا ہے۔ اسے ہم نظریے کا بحران کہہ سکتے ہیں، جس نے دین کی سُوئِ فہم تعبیر (Misunderstood interpretation of religion) سے جنم لیا ہے جس کا خمیر 20 ویں صدی کی بعض اسلامی شخصیات کے نظریات سے تیار ہوا ہے۔ اس کی بنیاد انھوں نے اسلام کے دورِ عروج کی بعض اصطلاحات کو درست تناظر میں نہ سمجھنے کی وجہ سے رکھی۔
حقیقت یہ ہے کہ اسی دور ہی کے باشعور علما کی جماعت نے استعمار سے آزادی کے لیے عدمِ تشدد کا راستہ اختیار کیا اور بعد از آزادی اسلام کی انسان دوست فکر کے تناظر میں قومی جمہوری فکر پر ریاست کے خدو خال کو واضح کیا، جب کہ اوّل الذکر طبقے کے ہاں اسلام اور قومیت ایک جگہ جمع نہ ہوسکے اور وہ ہمیشہ اسلام اور قومیت کو دو الگ الگ حقیقتوں کے طور پر دیکھتے رہے۔ اس سے ہمارے ہاں بہت سے فکری مغالطوں نے جنم لیا۔ ان فکری مغالطوں کی وجہ سے مسلم معاشروں میں جدوجہد کی درست سمت ہی کا تعین مشکل ہوگیا اور ہمارا مخلص نوجوان بے شعوری کے سبب تشدد کی بنیاد پر کھڑی کی گئی تحریکوں کا حصہ بن کر بے منزل راستوں پر چلتا رہا۔ چوں کہ یہ راستہ اپنے نتیجے کے اعتبار سے ہم سے زیادہ ہمارے دشمن کے لیے مفید تھا، اس لیے وہ خفیہ طور پر ایسی تحریکوں کو معاونت بھی فراہم کرتارہا۔ اسی وجہ سے طالبان، داعش، بوکوحرام اور حماس جیسی تحریکیں مسلم معاشروں میں قومی اور جمہوری طرز ِفکر کے حامل طبقوں کی حمایت توحاصل نہ کرسکیں، لیکن ایک خاص حکمتِ عملی سے مسلمان معاشروں کا چہرہ انھیں تحریکوں کو سمجھا جانے لگا۔ مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ (mainstream media) بھی انھیں کو کوریج دیتے اور دکھاتے ہیں۔ دوسرے علمائے حق کے مؤقف کو ثانوی حیثیت دے کر پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔
یہ کھیل گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ یوں شدت پسند بیانیے کو صفِ اوّل (front foot) پر جگہ دے کر اسلام کی انسانیت دوست فکر کو پیچھے دھکیلنے کی سعیٔ نامشکور جاری ہے۔ اس سے مسلم معاشروں میں ایک ایسی فضا تیار کرلی گئی ہے کہ جب بھی کشمیر، فلسطین، یمن اور مشرقِ وسطیٰ میں حالات خراب ہوتے ہیں تو یہی شدت پسند بیانیہ پوری فضا کو اپنی گرفت میں لے لیتاہے۔ عوام کوئی گہری شعوری بات اور ان خطوں میں موجود ان سلگتے مسائل کے پسِ منظر اور اس کے حقیقی حل کو سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
مسلم دنیا کو لاحق اس شدت پسند بیانیے کے مرض کا پسِ منظربعض لوگ اسلام کی بنیادی فکر اور نظریے میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ لوگ برصغیر میں استعمار کے خلاف علمائے حق کی جدوجہد سے موجودہ شدت پسند بیانیے کو جا ملاتے ہیں، حال آںکہ یہ موجودہ شدت پسند بیانیہ اس معتدل قومی اور ملّی فکر کے علیٰ الرغم تیار کیا گیا ہے۔ اس کی بنیاد اس دور میں انھیں علمائے حق کے مقابلے پر کھڑے طبقے کی فکر پر ہے، جو ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر پوری دنیا کو فتح کرنے کی باتیں کیا کرتا تھا، جب کہ معتدل اور انسان دوست فکر کے ترجمان یہ علما اس دور میں بھی غیر مسلم ابنائے وطن کو اپنے ساتھ لے کر ایک اجنبی قابض طبقے کے خلاف قومی جدوجہد ِ آزادی میں مصروفِ کار رہے تھے اور بعد از آزادی ایک قومی جمہوری ریاست اور اس کے حقیقی تقاضوں کو پورا کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ لیکن مسلمان معاشرے میں موجود رومانیت پسند طبیعتوں نے اپنی الگ راہ لی اور دنیا میں اسلام کے نام پر شدت پسند بیانیے کے ترجمان کے طور پر سامنے آئے۔ پھر جو کچھ ہوا، وہ ایک پوری تاریخ ہے۔
اگر چہ اب پرائیویٹ جہادی بیانیے کو اپنی مصلحتوں کے پیشِ نظر پسِ منظر میں لے جایا جا رہا ہے، لیکن شدت پسندی اپنی جگہ پر موجود ہے، جس نے ماضی میں جہاد کے پرائیویٹ عمل کو جنم دیا تھا۔ نہ جانے بڑی سرکار کی ضرورتیں اور تقاضے کب دوبارہ اسے اسلام کا تقاضا بناکر پھر سے اپنے نہاں خانے سے نکال لائیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس فکر اور بیانیے کے پسِ منظر کو پیشِ نظر رکھ کر اور اس کی کسی بھی نئی شکل کے مضمرات سے واقف رہا جائے۔
(اداریہ ماہنامہ “رحیمیہ” لاہور، جون 2021ء)