پاکستان کے علمی و اَدبی اور دینی حلقوں میں آج کل ایک نیا معرکہ بپا ہے۔ وہ اس طرح کہ کچھ دینی مدارس نے مذہبی مدارس کے سابقہ اتحاد ’’وفاق المدارس‘‘ کو خیر باد کہتے ہوئے اپنے اپنے نئے تعلیمی بورڈز کی رجسٹریشن شروع کروا دی ہے، جس پر مدارس کے کہنہ نصابِ تعلیم سے وابستہ اربابِ مدارس اسے دین کے خلاف کسی سازش سے تعبیر کررہے ہیں۔ نئے تعلیمی بورڈز کے عَلم بردار اپنے نئے مجوزہ نصابِ تعلیم کو جدید و قدیم کا حسین امتزاج قرار دیتے ہوئے اسے حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ کے خواب کی تعبیر بتا رہے ہیں۔ اس معاملے پر چند گزارشات پیشِ خدمت ہیں۔
اوّلاً تو نصاب کے حوالے سے جدید و قدیم کی بحث ہمارے ہاں کوئی نئی بحث نہیں ہے، بلکہ یہ ہندوستان میں ہمارے آزادانہ تعلیمی نظام کے خاتمے سے لگ بھگ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے جاری وساری ہے۔ ہردور میں لوگ اپنے اپنے مؤقف کے حق میں لکھتے اور بولتے رہے ہیں۔ ماضی کے لٹریچر کی ایک اچھی خاصی تعداد اِس کا ثبوت ہے، جس میں ہر نوع کے خیالات موجود ہیں۔
ثانیاً: لکیر کے دونوں طرف کھڑے طبقے اپنے اپنے مقدمے میں ابہامات کا شکار ہیں۔ ان کا ماضی طبقاتی مفادات پر قائم ریاستی ڈھانچے سے ہم آہنگ رہا ہے۔ ان کے درمیان نصاب کی بحث اس اصل بحث اور مقدمے سے کوئی تعلق نہیں رکھتی، جس کے تناظر میں ہم اس مسئلے کے حقیقی پہلوؤں سے واقف ہوسکیں۔ یہ طبقے اپنی اپنی باری پر ریاست کی خواہش پر نظام کی خدمت بجا لاتے رہے ہیں اور اب بھی اسی سطح پر کھڑے ہیں۔
کسی قوم کا اصل مسئلہ کسی بھی نصابِ تعلیم میں چند مضامین کا اضافہ یا کمی نہیں ہوتا، بلکہ اس نصابِ تعلیم کی پشت پر کارفرما وہ نظریات، مقاصد اور نتائج اہمیت رکھتے ہیں، جن کے ذریعے سے ایک آزاد قوم تیار ہوسکے، کیوں کہ ہمیشہ نظریات اور مقاصد اہم ہوتے ہیں۔ جس نصاب کو ہمارے ہاں سرسیّد مرحوم کا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے اور اس کی بیساکھی سے آج اپنے آپ کو ’’جدید‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، آیا وہ جدید بھی تھا؟ یا وہ کلونیل عہد کا مخصوص نظامِ تعلیم اپنے مخصوص مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایک غلام قوم پر مسلط کیا گیا تھا؟ یہ کلونیل تعلیم اس ملک کے باشندوں کو باشعور بنانے کے لیے تھی یا یہ نام نہاد جدید تعلیم استعماری نظام کا وہ کارخانہ تھا، جہاں اس ظالمانہ اور استحصالی نظام چلانے کے لیے کَل پُرزے ڈھالنے کا کام لیا جاتا تھا؟
کسی بھی تعلیم کے ظاہری ڈھانچے پر بحث سے زیادہ اس کے مقاصد اور نتائج پیش نظر رہنے چاہئیں۔ ایک استعماری نظام کی چھتری تلے غیرطبقاتی، انسان دوست، حریتِ فکر سے لیس قومی نظامِ تعلیم کیسے پیدا ہوسکتا ہے؟ ریاستیں ہمیشہ اپنی پالیسیوں سے ہم آہنگ تعلیمی پالیسیوں میں اپنی بقا سمجھتی ہیں۔
ثالثاً: جو طبقہ اپنی کاوش کو حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ کے خواب کی تعبیر قرار دے رہا ہے، ان کو خبر ہو کہ حضرت شیخ الہندؒ نے صرف آزاد تعلیمی حکمتِ عملی ہی نہیں دی، بلکہ وہ ایک جامع نظامِ فکر کے داعی تھے، جس کے قلابے امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی فکر سے جاملتے ہیں۔ کل تک ان کی سیاسی فکر سے اِعراض کرنے والے محض اپنے مفاد کے لیے ان کے جدید و قدیم کے ملاپ کے نعرے کو اپنے گروہی اور طبقاتی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ حضرت شیخ الہندؒ جاری سامراجی نظام کے لیے کسی بھی نصابِ تعلیم کے ذریعے کَل پُرزے فراہم کرنے کے سخت مخالف تھے، خواہ وہ اسلام ہی کے نام پر کیوں نہ ہو۔ چناںچہ حضرت شیخ الہندؒ فرماتے ہیں: ’’ہماری عظیم الشان قومیت کا اب یہ فیصلہ نہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے کالجوں سے بہت سستے داموں (نظام کے لیے) غلام پیدا کرتے رہیں، بلکہ ہمارے کالج نمونہ ہونے چاہئیں بغداد اور قرطبہ کی یونیورسٹیوں کے اور ان عظیم الشان مدارس کے، جنھوں نے یورپ کو اپنا شاگرد بنایا، اس سے پیشتر کہ ہم اس کو اپنا استاد بناتے‘‘۔ (افتتاحی خطبہ صدارت جامعہ ملیہ دہلی از حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسنؒ)
جب سے استعمار نے مذہب سے آلہ کاری کا کام لینا شروع کیا ہے، وہ اس حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے کہ کوئی بھی نظام خواہ کسی بھی مذہب کے نام پر بنالیا جائے، لیکن اس کے نتائج اس کے سامراجی مقاصد کے حق میں نکلنے چاہئیں۔ آج اسی نظام کو جدید نوآبادیاتی نظام میں اسلام کے نام پر ایسے افراد کی ضرورت ہے، جو اِن کے سیاسی و معاشی ایجنڈے اور پالیسیوں کو مذہب کے رنگ و روغن کے ساتھ نافذ کرکے ان کے لیے مطلوبہ نتائج کی فصل کاٹنے کے بہم مواقع فراہم کرے۔
ہمارے ہاں دونوں نظام ہائے تعلیم کے عَلم بردار پہلے گزشتہ ستر سالوں کا حساب دیں کہ انھوں نے اپنے نصاب ہائے تعلیم سے قوم کو کون سے افراد فراہم کیے ہیں؟ کیوں کہ کسی بھی نصابِ تعلیم کے اثرات و نتائج کا اندازہ اس ملک کی صنعتی، سماجی ترقیات اور موجود قیادتوں ہی سے کیا جاتا ہے، جو اس نظام تعلیم کا ثمر ہوتی ہے۔ آج پاکستان میں مدارسِ عربیہ اور عصری تعلیم کے دعوے دار دونوں تعلیمی نظاموں کی کھیتی پک کر ہمارے سامنے انتظامیہ (بیوروکریسی) مذہبی اور سیاسی لیڈروں کی شکل میں موجود ہے۔ کیا ان قیادتوں نے مجموعی طور پر ملک کی ترقی کے لیے کردار ادا کیا ہے؟
آج ہمارے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کا نظامِ تعلیم کیسا ہونا چاہیے جو ہمارے قومی تقاضوں اور روح عصر سے ہم آہنگ ہو؟ ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ کلونیل عہد کے سامراجی ڈھانچے کی ذہنیت اور نفسیات سے چھٹکارہ پائے بغیر ہم کوئی آزادانہ نظامِ تعلیم پیدا نہیں کرسکتے۔اصل ضرورت اپنے قومی اور ملّی تقاضوں کی اَساس پر خود مختاری پر مبنی نظریۂ تعلیم کو متعین کرنا اور اس کے مطابق نصاب اور نظامِ تعلیم اُستوار کرنا ہے۔ اس کے لیے شعوری طور پر سنجیدہ کوشش ہی کامیابی کا زینہ ہے۔
(اداریہ ماہنامہ رحیمیہ لاہور، شمارہ جولائی 2021)