آج ہمارے گردوپیش جدوجہد کے بہت سے ماڈل موجود ہیں، جن کے کردار اور نتائج کے حوالے سے کئی ایک سوال بھی ایک حقیقت کا درجہ رکھتے ہیں۔ مثلاً مذہب کے نام پر قائم جماعتوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بسا اوقات دین میں انسانی حقوق کی کسی بھی طرح کی جدوجہد کا انکار کردیا جاتا ہے اور دین کو محض ذاتی اور شخصی اصلاح کا ذریعہ قرار دے کر اس اجتماعی فریضے سے پہلو تہی کا راستہ پیدا کرلیا جاتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ملک میں موجود مذہبی طبقوں کا طرز ِفکروعمل اس بیانیے کو تقویت بخشتا ہے۔
اس ضمن میں دو اہم سوال پیدا ہوتے ہیں، جنھیں حل کیا جانا انتہائی اہم ہے: پہلا سوال تو یہ ہے کہ آیا دین اسلام سماج میں انسانی حقوق کی جدوجہد کے حوالے سے کوئی فکر رکھتا ہے یا نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ملک میں موجود مذہبی جماعتوں کے طرز ِفکروعمل کو دینی نقطہ نظر سند ِجواز فراہم کرتا ہے یا نہیں؟
اوّل الذکر سوال کو حل کرنے کے لیے ہمارے سامنے انبیائے کرام علیہم السلام کا اسوہ ہونا چاہیے کہ انبیاؑ کی جدوجہد کا منہج کیا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان (القرآن 7:13) (تیرا کام تو ڈر سنا دینا ہے، اور ہر قوم کے لیے ہوا ہے راہ بتانے والا) کے مطابق ہرقوم میں انبیاؑ نے اپنے اس فریضے کو نبھایا ہے۔ اس حقیقت کو کسی بھی طرح نہیں جھٹلا یا جاسکتا کہ انبیائے کرامؑ اپنے دور کے انقلابی رہنما رہے ہیں، جنھوں نے تہذیب ِشخصیت اور قومی سیاست کے لیے انقلابی کردار ادا کیا۔ بقول امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ: ’’من سیرتہم أن لّا یشتغلوا بما لا یتعلّق بتہذیب النّفس و سیاسۃ الاُمّۃ‘‘ (انبیا علیہم السلام کی سیرت یہ ہے کہ وہ تہذیب ِنفس اور اُمت کی سیاست کے علاوہ کسی کام میں مشغول نہیں ہوتے)۔ (حجۃ اللہ، بحث سیاست ِملیہ، ج:1، ص:150، طبع: دیوبند) یہی وَجہ ہے کہ انھوں نے اپنے دور کے ظلم کی ہر شکل کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ آج دنیا میں آزادی و حریت اور عدل وانصاف کے جتنے بھی نظریات اور احساسات پائے جاتے ہیں، ان کی انسانی سماج میں آبیاری انبیائے کرامؑ ہی نے کی ہے۔ انبیائے کرامؑ نے اپنی اس سرفروشانہ جدوجہد کے ذریعے ہردور کے ظلم و استبداد اور استحصالی نظاموں کے خلاف جدوجہد کا ایک نمونہ چھوڑا ہے جو انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ حتیٰ کہ خود ہمارے پیغمبر، محسنِ انسانیت، حضرت محمد ﷺ نے جنگوں کی روک تھام ،مسافروں کی مدد اور مظلوموں کی دستگیری سے اپنے عہد ِشباب کا آغاز کیا اور ایک وقت آیا کہ آپؐ کے پیغامِ انصاف سے دنیا کے قصرِ استبداد لرز اُٹھے۔
اس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ سماج میں انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنا انبیائے کرامؑ کی سنت متواترہ، مسلسل اور پیہم ہے۔ اس لیے یہ سوال اٹھانا کہ دین میں بنیادی انسانی حقوق کے لیے سیاسی جدوجہد کے لیے کوئی فکر یا منہج ہے یا نہیں؟ بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ کیوں کہ اسلام کے حوالے سے اس کے سیاسی فکر کا انکار ایک بدیہی حقیقت کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔
جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ مذہبی طبقوں کے طرز ِفکروعمل کا کیا جواز ہے تو اس حوالے سے بھی ہمارے سامنے دو طرح کے طرز ِعمل ہیں:
ایک وہ طرز ِعمل ہے جو دین میں سیاست اور ریاست کے کردار کی نفی کا قائل ہے۔ ان کے نزدیک دین صرف چند عبادات اور رسومات کا مجموعہ ہے۔ اسے دنیاداری اور حکومت کے کاموں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ نقطہ نظر اس طبقے کی سادگی اور بے شعوری کا غماض ہے، جس کی کوئی علمی اور عقلی توجیہ ممکن نہیں۔ یہ ان کی مایوسی اور قنوطیت کا اظہار ہے، جس کا اسلام کے فکر سے کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا اس طرز ِعمل کو اسلام کے ساتھ جوڑنا‘ نہ صرف روحِ اسلام کی نفی ہے، بلکہ یہ فکر انبیائے کرامؑ کے زندہ کردار سے بھی متصادم ہے۔ کیوںکہ اسلام کی سیاست اور حکومت کا مطمح نظر عدل و انصاف کا قیام اور ظلم کا خاتمہ ہے۔ اس کے لیے وہ جرائم کے انسداد کے لیے طاقت و قوت کا بھی قائل ہے۔ اسلام محض اقتدار کے لیے حکومت کا قائل نہیں اور نہ اس معنی میں وہ اقتدار کے حصول کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔
جہاں تک دوسرے مذہبی طبقے کے طرز ِعمل کا تعلق ہے کہ وہ اپنے آپ کو اسلام کے سیاسی فکر کا حامل قرار دے کر ملک کے سیاسی میدان میں بھی موجود ہے، اس طبقے کے اس طرز ِفکروعمل نے واقعی اسلامی اور دینی سیاست کے حوالے سے بہت سے سوالات اور غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے۔ اس حوالے سے گزارش ہے کہ سیاست میں مذہبی عنوان سے کاروبارِ سیاست کے عَلم برداروں کے کردار کے باعث اسلام کے سیاسی فکر ہی کا انکار کردینا کوئی دانش مندی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ سیاست نام نہاد مذہبی طبقے کی ہو، یا نام نہاد سیکولر طبقے کی، دیکھنا یہ ہے کہ اس کی پشت پر کون سا فکر اور نظریہ کار فرما ہے۔ ہمیں خدا کے سچے پیغمبروں کی سیاسی جدوجہد کے پیچھے طاغوت شکن اور انسان دوست فکر نظر آتا ہے۔ یہی انسان دوستی کا فکر کسی بھی سیاسی فکر کو پرکھنے کی اصل کسوٹی ہے۔ اسی بنیادی نظریے کی روشنی میں ہم کسی بھی عہدکی سیاست، معیشت اور حکومت کا شعوری تجزیہ کرسکتے ہیں۔ ایسے ہی کسی بھی دور کے حکمرانوں، مذہبی طبقوں اور سیاسی پارٹیوں کے کردار کو سمجھا جاسکتا ہے۔ سیاست مذہب کی بنیاد پر ہو، لیکن وہ ظالموں اور سرمایہ داروں کی اتحادی اور کرپٹ عناصر کی طرف دارہو تو باطل ہے۔ ایسے ہی حکومت و اقتدار اگر ریاستِ مدینہ کے نام پر ہو لیکن استحصالی اورسرمایہ داروں کی گماشتہ ہو تو وہ بھی باطل ہے۔
قرآن مجید نے ہمیں کسی بھی معاشرے کے ظالم حکمرانوں، استحصالی سرمایہ داروں اور باطل مذہبی طبقوں کے کرداروں کو فرعون، قارون اور ہامان کے کردارکی شکل میں پیش کرکے ان کے مقابلے میں انبیائے کرامؑ کے انقلابی کرداروں سے ہمارے فکروشعور کو جلا بخشی ہے۔ قرآن کا زندہ اور سدا بہار فکر ہر عہد کے استحصالی طبقوں کی نشان دہی کرکے ہمارے کردار اور فکروعمل کو درست سمت مہیا کرتا ہے۔
(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ لاہور۔ شمارہ فروری 2021ء)