• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
تیاری کے بغیر حکومت میں آنا،اور کرنے کا اصل کام!تیاری کے بغیر حکومت میں آنا،اور کرنے کا اصل کام!تیاری کے بغیر حکومت میں آنا،اور کرنے کا اصل کام!تیاری کے بغیر حکومت میں آنا،اور کرنے کا اصل کام!
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

تیاری کے بغیر حکومت میں آنا،اور کرنے کا اصل کام!

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • تیاری کے بغیر حکومت میں آنا،اور کرنے کا اصل کام!
نومنتخب امریکی صدر سے وابستہ توقعات کی حقیقت!
دسمبر 1, 2020
آج کی مذہبی جماعتیں اور دو بنیادی سوال
فروری 2, 2021
Show all

تیاری کے بغیر حکومت میں آنا،اور کرنے کا اصل کام!

گزشتہ دنوں تبدیلی کی دعوے دار جماعت کے لیڈر اور موجودہ حکومت کے وزیراعظم نے وزارتوں کی کارکردگی کے معاہدوں پر دستخط اور وفاقی وزارتوں کو کارکردگی سے متعلق اہداف سونپنے کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ: ’’کسی بھی سیاسی جماعت کو تیاری کے بغیر حکومت میں نہیں آنا چاہیے۔ حکومت میں آئے تو تین ماہ صرف معاملات کو سمجھنے میں لگ گئے ۔۔۔۔۔ اب ہمیں سسٹم کو بدلنا چاہیے‘‘۔

حال آںکہ حکومت میں آنے سے قبل ان کا دعویٰ اس کے بر عکس تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس بڑے ماہر اور تجر کار لوگ ہیں، حال آںکہ یہ تجربہ کار لوگ بھی اسی نظام کے تحفظ اور مفاد ہی کا تجربہ رکھتے تھے، جنھوں نے وزیراعظم کو اپنے اعلانات اور دعوؤں کے برعکس چلا کر ان کے لیے یوٹرن اور جگ ہنسائی کا سامان پیدا کیا۔ اس سے قبل وہ پاکستانی معیشت کو جب اپنے جلسوں میں موضوعِ بحث بناتے اور سبز باغ دکھاتے تھے کہ: ’’ہم کبھی آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے‘‘، لیکن بعد ازاں انھیں ’’تجربہ کار‘‘ لوگوں نے کہا کہ اس چوکھٹ پر سجدہ کیے بغیر تو حضوری قبول نہیں ہوگی۔ تو ہمارے وزیراعظم اپنی پوری جماعت کے ساتھ عالمی ادارے کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے تھے اور قوم زبانِ حال سے کہہ رہی تھی ؎

یہ ناداں گر گئے سجدوں میں ، جب وقتِ قیام آیا

وزیر اعظم کا بعض ہمدرد میڈیا اسے اعترافِ حقیقت سے تعبیر کررہا ہے کہ وزیر اعظم نے حقیقت کا اعتراف کرکے قوم کے سامنے رکھ دیا ہے، حال آںکہ اسے اعترافِ شکست کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں حکمرانوں کی طرف سے کوئی پہلا اعترافِ شکست نہیں ہے۔ چند سال قبل ایک چیف جسٹس آف پاکستان بھی انصاف نہ دلواسکنے کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ’’ہم بہ حیثیت ادارہ قوم کو عدل و انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں‘‘۔ ایک سابق وزیراعظم نے بھی اس سے ملتا جلتا بیان دے کر اعترافِ شکست کیا تھا کہ’’یہاں پانچ سال کے لیے ہم لوگ آتے ہیں، ہمیں کچھ خود نہیں سمجھ آتی اور وقت گزر جاتا ہے، لیکن تھوڑی تھوڑی سمجھ آنا شروع ہوگئی ہے‘‘۔

موجودہ وزیراعظم کو کئی خصائص کی بنا پر بانیٔ پاکستان کا مماثل قرار دیا جاتا ہے۔ ان کے اس بغیر تیاری کے حکومت میں آنے کی خصوصیت نے انھیں بانیٔ پاکستان کے اَور زیادہ قریب کردیا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے بھی تو ’’اعترافِ حقیقت‘‘ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’میری جیب میں کھوٹے سکے تھے‘‘!

اصل سوال تو یہ ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں جو اصل کام انھیں کرنا چاہیے، وہ کیوں نہیں کرتیں؟ صرف اقتدار کے پیچھے ہی کیوں دوڑتی ہیں؟ اور طاقت کے مراکز سے اقتدار لینے کے لیے اپنی طاقت کے غلط اَعداد و شمار کیوں پیش کرتی ہیں؟ جس کا اندازہ انھیں بعد میں ہوتا ہے اور پھر انھیں اعترافِ شکست سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

جن پارٹیوں کو ابھی تک کبھی پاکستان میں مکمل اقتدار نہیں ملا اور وہ آج تک عوام کے سامنے دودھ شہد کی نہریں بہانے کے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں، وہ بھی جانتی ہیں کہ وہ کتنے پانی میں ہیں، لیکن وہ بھی اعترافِ شکست اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد کرنے کا پروگرام رکھتی ہیں۔ یہ وہ روِش ہے، جس نے ہمیشہ عوام کو دھوکہ دیا ہے۔ اب عوام کو ان سیاسی پارٹیوں کے اصل عزائم سے واقف ہو جانا چاہیے کہ در اصل جمہوریت سے لے کر انقلاب اور تبدیلی تک ان پارٹیوں کے دعوؤں کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ محض سراب ہیں، جنھیں عوام اپنے خوابوں کی سچی تعبیر سمجھ بیٹھتی ہیں۔

اصل کام تویہ تھا کہ اپوزیشن پارٹیاں عوام کے سامنے جن محرومیوں کا راگ الاپتی ہیں، ان کے مداوے کا بندوبست کریں۔ اپنی جماعتوں کو قومی اور انقلابی طرز ِجدوجہد کا عادی بنائیں۔ آنے والے وقت کے لیے حقیقی قیادت پیدا کریں، جو نظام کے چیلنج کو سمجھ سکے۔ بڑے بڑے جلسوں اور اجتماعات سے زیادہ پارٹی ورکروں کی سیاسی تربیت پر اعتماد کریں۔ پوری قوم کو مخاطب کرنے کے بجائے پہلے حقیقی بنیادوں پر پارٹی تشکیل دیں، جو خود ایک نمونہ ہو۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری موجودہ سیاسی پارٹیاں اس قبیل کی پارٹیاں نہیں، جنھیں تبدیلی اور انقلاب کے حقیقی تقاضوں کا اِدراک ہو۔ یہ اسی نظام کے ہرکارے ہیں، جو اپنی اپنی باریوں کے انتظار میں اپنے اپنے کام کرتی ہیں۔ ایک پارٹی ایک وقت میں حکومت کرتی ہے تو دوسری قوم کو سبز باغ دکھا کر وقت ضائع کرتی ہے۔ حقیقی قیادت وہ ہوتی ہے، جو کوسوں دور خطرات سے قوم کو آگاہ کردے اور حقیقی تقاضوں کا ادراک کرتے ہوئے قوم کو پوری اور سچی بات بتادے۔

یہ بات کوئی نئی نہیں کہ تیاری کے بغیر کسی پارٹی کو اقتدار کی خلعت نہیں پہننی چاہیے، بلکہ اس امر کا اظہار باشعور دانش ور ہمیشہ سے کرتے رہے ہیں۔ جیساکہ ہمارے خطے کی قومی شخصیت مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے کئی دہائیاں پہلے فرمادیا تھا کہ:

’’جب تک حکومت کو چلانے کی استعداد پیدا نہ ہو، کوئی شخص لڑ کر نیا نظامِ حکومت قائم نہیں کر سکتا۔ بے شک وہ لڑائی کے ذریعے پچھلی حکومت کو تباہ تو کر سکتا ہے، لیکن جب تک تربیت یافتہ آدمی اسے میسر نہ آئیں، وہ نئی حکومت چلا نہیں سکتا‘‘۔ (شعوروآگہی)

مولانا عبیداللہ سندھیؒ کا تعلق اس خطے کے اس باشعور قبیلے سے تھا، جو نہ صرف وقت کے تقاضوں سے واقف تھے، بلکہ انھوں نے قومی آزادی کے لیے قربانیاں بھی دی تھیں۔ وہ سامراج کے عزائم سے واقفیت رکھنے کے ساتھ ساتھ اس خطے کے مستقبل کے بارے میں اپنا ایک واضح مؤقف بھی رکھتے تھے۔ جس کے باعث بعض قوتوں کی نظر میں وہ ہمیشہ کھٹکتے رہے۔ جس کی سزا نام نہاد ٹوڈی مؤرخین نے یہ تجویز کی کہ نئی نسل کو ان کے نام اور کام سے واقف نہ ہونے دیا جائے۔ کہیں قوم ان کے چراغِ فکر سے روشنی لے کر صحیح سمت سفر نہ شروع کردے۔

(شذرات: ماہنامہ رحیمیہ جنوری 2021ء)

مناظر: 255
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جولائی 11, 2022

عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ